کاشفی
محفلین
غزل
(قتیل شفائی)
اب تو بیداد پہ بیداد کرے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا
زندگی بھاگ چلی موت کے دروازے سے
اب قفس کون سا ایجاد کرے گی دنیا
ہم تو حاضر ہیں پر اے سلسلہء جورِ قدیم
ختم کب ورثہء اجداد کرے گی دنیا
سامنے آئیں گے اپنی ہی وفا کے پہلو
جب کسی اور کو برباد کرے گی دنیا
کیا ہوئے ہم کہ نہ تھے مرگِ بشر کے قائل
لوگ پوچھیں گے تو فریاد کرے گی دنیا
(قتیل شفائی)
اب تو بیداد پہ بیداد کرے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا
زندگی بھاگ چلی موت کے دروازے سے
اب قفس کون سا ایجاد کرے گی دنیا
ہم تو حاضر ہیں پر اے سلسلہء جورِ قدیم
ختم کب ورثہء اجداد کرے گی دنیا
سامنے آئیں گے اپنی ہی وفا کے پہلو
جب کسی اور کو برباد کرے گی دنیا
کیا ہوئے ہم کہ نہ تھے مرگِ بشر کے قائل
لوگ پوچھیں گے تو فریاد کرے گی دنیا