کاشفی
محفلین
غزل
اب تو جنت بھی نام کر بیٹھے
اُن کو اپنا غلام کر بیٹھے
ہم نے پوچھا نہیں مذہب کیا ہے
حُسن دیکھا سلام کر بیٹھے
اب تو آئیں گے دوست دشمن بھی
گھر کے رستے کو عام کر بیٹھے
تم محبت کسی سے کیا کرتے
تم تو اُلفت کے دام کر بیٹھے
اب اُجالے بھٹک رہے ہوں گے
اُن کی ذُلفوں میں شام کر بیٹھے
کتنی صورت اُداس لگتی ہے
کِس سے ذرّہ کلام کر بیٹھے
(ذرّہ حیدر آبادی - حیدرآباد دکن )
اب تو جنت بھی نام کر بیٹھے
اُن کو اپنا غلام کر بیٹھے
ہم نے پوچھا نہیں مذہب کیا ہے
حُسن دیکھا سلام کر بیٹھے
اب تو آئیں گے دوست دشمن بھی
گھر کے رستے کو عام کر بیٹھے
تم محبت کسی سے کیا کرتے
تم تو اُلفت کے دام کر بیٹھے
اب اُجالے بھٹک رہے ہوں گے
اُن کی ذُلفوں میں شام کر بیٹھے
کتنی صورت اُداس لگتی ہے
کِس سے ذرّہ کلام کر بیٹھے
(ذرّہ حیدر آبادی - حیدرآباد دکن )