ضیاء حیدری
محفلین
اب سنجیدہ ہوگیا ہوں
یہ سردیوں کے دن بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں، دوپہر کا وقت ہے اور لگتا ہے کہ شام ہوگئی ہے، سورج کہر میں کہیں گم ہے، ابھی دوستوں کی مٹینگ سے فارغ ہوکر بیٹھا ہوں، بہت پرانی پرانی باتیں یاد آرہی ہیں، میری یاداشت کے کہرے پر سے دھند چھٹ رہی ہے، یہ سہیل ہے شریر سا لڑکا اب صوفی لگنے لگا ہے، یہ منان ہے جو کسی مذاق کا برا نہیں مانتا تھا، یہ ریاض ہے سیدھا سادھا بھولا بھالا، اور یہ تم ہو۔۔۔۔
میں نے تمھیں یاد کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی، پھر تم کو بھلا نہ سکا، لیکن آج شدت سے یاد آرہی ہو، تم تو ہر مذاق پر بڑی خوش دلی سے ہنسا کرتی تھیں، اب تھیں میری باتیں بری لگنے لگیں ہیں، میری گفتگو تمیں بیہودہ لگتی ہے، تم لوگوں سے شکایت کرتی پھرتی ہو، تم نے مجھ سے کہا ہوتا، میں لکھنا ہی چھوڑ دیتا۔۔۔۔
استاد کہتے تھے کسی کام کی صحیح تکمیل کے لئے انسان میں محض شوق نہیں۔ بلکہ چسکا ہونا چاہتیے چنانچہ وہ جب بھی کام کرے تو ایسے ذوق و شوق سے کرے، کہ گویا انہیں اسے کام کا چسکا ہے۔ یہ ذوق و شوق ایک سہولت اور آسانی پیدا کرتاہے۔ مگر میرے ذوق و شوق نے ہمیشہ مشکل میں ڈال ہے۔ تھیں یاد ہوگا تمھارے آنگن میں ایک بیری تھی اور میں جلتی دوپہریا میں اس پر پتھر مارا کرتا تھا سارے بیر تمھارے آنگن میں گرتے تھے، تم انھیں جمع کرکے مجھے دیدیا کرتی تھیں، کتنے مزے کے وہ دن تھے پھر تمھاری اماں نے وہ بیری کٹوادی تھی، تم بہت روئیں تھیں۔۔۔۔
وہ بیری میں نے اپنی دل میں لگا دی تھی، میں خوش تھا ہنستا ہنساتا تھا، لیکن اب تمھیں میرا مذاق برا لگتا ہے، تم نے میری شکایتیں لگائیں ہیں،، سنوآج دوستوں کے جرگے نے وہ وہ بیری کٹوادی ہے، میں بہت رویا پر اب سنجیدہ ہوگیا ہوں، مگر زندہ ہوں، تم بھی تو بیری کے کٹ جانے بعد سے زندہ ہو۔
یہ سردیوں کے دن بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں، دوپہر کا وقت ہے اور لگتا ہے کہ شام ہوگئی ہے، سورج کہر میں کہیں گم ہے، ابھی دوستوں کی مٹینگ سے فارغ ہوکر بیٹھا ہوں، بہت پرانی پرانی باتیں یاد آرہی ہیں، میری یاداشت کے کہرے پر سے دھند چھٹ رہی ہے، یہ سہیل ہے شریر سا لڑکا اب صوفی لگنے لگا ہے، یہ منان ہے جو کسی مذاق کا برا نہیں مانتا تھا، یہ ریاض ہے سیدھا سادھا بھولا بھالا، اور یہ تم ہو۔۔۔۔
میں نے تمھیں یاد کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی، پھر تم کو بھلا نہ سکا، لیکن آج شدت سے یاد آرہی ہو، تم تو ہر مذاق پر بڑی خوش دلی سے ہنسا کرتی تھیں، اب تھیں میری باتیں بری لگنے لگیں ہیں، میری گفتگو تمیں بیہودہ لگتی ہے، تم لوگوں سے شکایت کرتی پھرتی ہو، تم نے مجھ سے کہا ہوتا، میں لکھنا ہی چھوڑ دیتا۔۔۔۔
استاد کہتے تھے کسی کام کی صحیح تکمیل کے لئے انسان میں محض شوق نہیں۔ بلکہ چسکا ہونا چاہتیے چنانچہ وہ جب بھی کام کرے تو ایسے ذوق و شوق سے کرے، کہ گویا انہیں اسے کام کا چسکا ہے۔ یہ ذوق و شوق ایک سہولت اور آسانی پیدا کرتاہے۔ مگر میرے ذوق و شوق نے ہمیشہ مشکل میں ڈال ہے۔ تھیں یاد ہوگا تمھارے آنگن میں ایک بیری تھی اور میں جلتی دوپہریا میں اس پر پتھر مارا کرتا تھا سارے بیر تمھارے آنگن میں گرتے تھے، تم انھیں جمع کرکے مجھے دیدیا کرتی تھیں، کتنے مزے کے وہ دن تھے پھر تمھاری اماں نے وہ بیری کٹوادی تھی، تم بہت روئیں تھیں۔۔۔۔
وہ بیری میں نے اپنی دل میں لگا دی تھی، میں خوش تھا ہنستا ہنساتا تھا، لیکن اب تمھیں میرا مذاق برا لگتا ہے، تم نے میری شکایتیں لگائیں ہیں،، سنوآج دوستوں کے جرگے نے وہ وہ بیری کٹوادی ہے، میں بہت رویا پر اب سنجیدہ ہوگیا ہوں، مگر زندہ ہوں، تم بھی تو بیری کے کٹ جانے بعد سے زندہ ہو۔