سعید احمد سجاد
محفلین
سر الف عین
یاسر شاہ
محمّد احسن سمیع :راحل:
سید عاطف علی
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
بے ثمر پیڑ کی مانند مَیں ویران جو ہوں
غنچۂِ دل پہ بہار آئے تو کیسے آئے
جام خالی ہیں سبھی کچھ نہ بچا پینے کو
اب طبیعت میں خمار آئے تو کیسے آئے
غم کا دریا ہے کہ بپھرا ہوا رہتا ہے سدا
اس کی موجوں پہ اتار آئے تو کیسے آئے
تیری راہوں میں بچھی رہتی ہیں میری آنکھیں
مجھکو بن تیرے قرار آئے تو کیسے آئے
روح فرسا ہے مرے شہرکا عالم تجھ بن
زندگی قرب و جوار آئے تو کیسے آئے
ہجر میں لفظ بھی جلتے ہیں تو پھر شعروں میں
حسن خوباں کا شمار آئے تو کیسے آئے
اب ترے حسن کی دیکھی نہ جھلک گلشن نے
ننھی کلیوں پہ نکھار آئے تو کیسے آئے
ماہ رخ اب وہ نہیں ,چپ ہے سمندر دل کا
اس کی لہروں میں فشار آئے تو کیسے آئے
یاسر شاہ
محمّد احسن سمیع :راحل:
سید عاطف علی
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
بے ثمر پیڑ کی مانند مَیں ویران جو ہوں
غنچۂِ دل پہ بہار آئے تو کیسے آئے
جام خالی ہیں سبھی کچھ نہ بچا پینے کو
اب طبیعت میں خمار آئے تو کیسے آئے
غم کا دریا ہے کہ بپھرا ہوا رہتا ہے سدا
اس کی موجوں پہ اتار آئے تو کیسے آئے
تیری راہوں میں بچھی رہتی ہیں میری آنکھیں
مجھکو بن تیرے قرار آئے تو کیسے آئے
روح فرسا ہے مرے شہرکا عالم تجھ بن
زندگی قرب و جوار آئے تو کیسے آئے
ہجر میں لفظ بھی جلتے ہیں تو پھر شعروں میں
حسن خوباں کا شمار آئے تو کیسے آئے
اب ترے حسن کی دیکھی نہ جھلک گلشن نے
ننھی کلیوں پہ نکھار آئے تو کیسے آئے
ماہ رخ اب وہ نہیں ,چپ ہے سمندر دل کا
اس کی لہروں میں فشار آئے تو کیسے آئے