(۱)
یوں تو مرنے کے لیے زہر سبھی پیتے ہیں
زندگی تیرے لیے زہر پیا ہے میں نے
شمع جلتی ہے پر اک رات میں جل جاتی ہے
یاں تو اک عمر اسی طرح سے جلتے گزری
کون سی خاک ہے یہ جانے کہاں کا ہے خمیر
اک نئے سانچے میں ہر روز ہی ڈھلتے گزری
کس طرح میں نے گزاری ہیں یہ غم کی گھڑیاں
کاش میں ایسی کہانی کو سنا بھی سکتا
طعنہ زن ہیں جو مرے ھال پہ اربابِ نشاط
ان کو اک بار میں اے کاش رُلا بھی سکتا
میں کہ شاعر ہوں، میں پیغامبرِ فطرت ہوں
میری تخئیل میں ہے ایک جہانِ بیدار
دسترس میں مری نظارۂ گلہائے چمن
میرے ادراک میں ہیں کُن فیکون کے اسرار
میرے اشعار میں ہے قلبِ حزیں کی دھڑکن
میری نظموں میں مری روح کی دل دوز پکار
پھر بھی رہ رہ کے کھٹکتی ہے مرے دل میں یہ بات
کہ مرے پاس تو الفاظ کا اک پردہ ہے
صرف الفاظ سے تصویر نہیں بن سکتی
صرف احساس میں حالات کی تفسیر کہاں
صرف فریاد میں زخموں کی وہ زنجیر کہاں
ایسی زنجر کہ ایک ایک کڑی ہے جس کی
کتنی کھوئی ہوئی خوشیوں کے مناظر پنہاں
کتنی بھولی ہوئی یادوں کے پراسرار کھنڈر
کتنے اُجڑے ہوئے، لُوٹے ہوئے سنسان نگر
کتنے آتے ہوئے جاتے ہوئے چہروں کے نقوش
کتنے بنتے ہوئے مٹتے ہوئے لمحات کے راز
کتنی ایجھی ہوئی راتوں کے نشیب اور فراز
(۲)
کیا کہوں مجھ کو کہاں لائی مری عمرِ رواں
آنکھ کھولی تو ہر اک سمت اندھیرے کا سماں
رینگتی اونگھتی مغموم سی اک راہگزر
گردِ آلام میں کھویا ہوا منزل کا نشاں
گیسوئے شام سے لپٹی ہوئی غم کی زنجیر
سینۂ شب سے نکلتی ہوئی فریاد و فغاں
ٹھنڈی ٹھنڈی سی ہواؤں میں وہ غربت کی تھکن
در و دیوار پہ تاریک سے سائے لرزاں
کتنی کھوئی ہوئی بیمار و فسردہ آنکھیں
ٹمٹماتے سے دیے چار طرف نوحہ کناں
دلِ مجروح سے اٹھتا ہوا غمناک دھواں
یہی تاریکیِ غم تو مرا گہوارہ ہے
میں اسی کوکھ میں تھا نورِ سحر کے مانند
ہر طرف سوگ میں ڈوبا ہوا میرا ماحول
میرا اُجڑا ہوا گھر میرؔ کے گھر کے مانند
اک طرف عظمتِ اسلاف کا ماتھے پہ غرور
اور اک سمت وہ افلاس کے پھیلے ہوئے جال
بھوک کی آگ میں جھلسے ہوئے سارے ارماں
قرض کے بوجھ سے جینے کی امنگیں پامال
وقت کی دھند میں لپٹے ہوئے کچھ پیار کے گیت
مہر و اخلاص زمانے کی جفاؤں سے نڈھال
بھائی بھائی کی محبت میں نرالے سے شکوک
نگہِ غیر میں جس طرح انوکھے سے سوال
’ایک ہنگامے پہ موقوف تھی گھر کی رونق‘
مفلسی ساتھ لئے آئی تھی اک جنگ و جدال
فاقہ مستی میں تھے بکھرے ہوئے سارے رشتے
تنگدستی کے سبب ساری فضائیں بے حال
اک جہنّم کی طرح تھا یہ مرا گہوارہ
اس جہنم میں مرے باپ نے دم توڑ دیا
ٹوٹ کر رہ گئے بچپن کے سُہانے سپنے
مجھ سے منہ پھیر لیا جیسے مرئ شوخی نے
میرے ہنستے ہوئے چہرے پہ اداسی چھائی
جیسے اک رات بھیانک مرے سر پر آئی
ارہں دشوار مگر راہ نما کوئی نہ تھا
سامنےوسعتٕ افلاک خدا کوئی نہ تھا
میرے اجداد کی میراث یہ ویران سا گھر
جس کو گھیرے ہوئے ہر سمت تباہی کے بھنور
جس کی چھت گرتی ہوئی ٹوٹا ہوا دروازہ
ہر طرف جیسے بکھرتا ہوا اک شیرازہ
نہ کہیں اطلس و کمخواب نہ دیبا و ہریر
ہر طرف منہ کو بسورے ہوئے جیسے تقدیر
مجھ کو اس گھر سے محبت تو بھلا کیا ہوتی
ہاں اگر دل میں نہ جینے کی تمنا ہوتی
یہ سمجھ کر کہ یہی ہے مری قسمت کا لکھا
اس کی دیوار کے سائے سے میں لپٹا رہتا
لیکن اس دل کی خلش نے مجھے بیدار کیا
مجھ کو حالات نے آمادۂ پیکار کیا
بے کسی رختِ سفر بن کے مرے ساتھ چلی
یاد آئی تھی مجھے گاؤں کی ایک ایک گلی
لہلہاتی ہوئی فصلیں وہ مرے آم کے باغ
وہ کانوں میں لرزتے ہوئے دھندلے سے چراغ
دوُر تک پانی میں پھیلے ہوئے وہ دھان کے کھیت
اور تالاب کنارے وہ چمکتی ہوئی ریت
میرے ہم عمر۔ وہ ساتھی، وہ مرے ہم جولی
میرے اسکول کے وہ دوست، مری وہ ٹولی
ایک بار ان کی نگاہوں نے مجھے دیکھا تھا
جیسے اک بار مرے دل نے بھی کچھ سوچا تھا
’میں نے جب وادیِ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔