اب عہدِ گُل آ گیا ہے - خلیل الرحمٰن اعظمی

الف عین

لائبریرین
(۱)
یوں تو مرنے کے لیے زہر سبھی پیتے ہیں
زندگی تیرے لیے زہر پیا ہے میں نے

شمع جلتی ہے پر اک رات میں جل جاتی ہے
یاں تو اک عمر اسی طرح سے جلتے گزری
کون سی خاک ہے یہ جانے کہاں کا ہے خمیر
اک نئے سانچے میں ہر روز ہی ڈھلتے گزری

کس طرح میں نے گزاری ہیں یہ غم کی گھڑیاں
کاش میں ایسی کہانی کو سنا بھی سکتا
طعنہ زن ہیں جو مرے ھال پہ اربابِ نشاط
ان کو اک بار میں اے کاش رُلا بھی سکتا

میں کہ شاعر ہوں، میں پیغامبرِ فطرت ہوں
میری تخئیل میں ہے ایک جہانِ بیدار
دسترس میں مری نظارۂ گلہائے چمن
میرے ادراک میں ہیں کُن فیکون کے اسرار
میرے اشعار میں ہے قلبِ حزیں کی دھڑکن
میری نظموں میں مری روح کی دل دوز پکار

پھر بھی رہ رہ کے کھٹکتی ہے مرے دل میں یہ بات
کہ مرے پاس تو الفاظ کا اک پردہ ہے
صرف الفاظ سے تصویر نہیں بن سکتی
صرف احساس میں حالات کی تفسیر کہاں
صرف فریاد میں زخموں کی وہ زنجیر کہاں
ایسی زنجر کہ ایک ایک کڑی ہے جس کی
کتنی کھوئی ہوئی خوشیوں کے مناظر پنہاں
کتنی بھولی ہوئی یادوں کے پراسرار کھنڈر
کتنے اُجڑے ہوئے، لُوٹے ہوئے سنسان نگر
کتنے آتے ہوئے جاتے ہوئے چہروں کے نقوش
کتنے بنتے ہوئے مٹتے ہوئے لمحات کے راز
کتنی ایجھی ہوئی راتوں کے نشیب اور فراز
(۲)
کیا کہوں مجھ کو کہاں لائی مری عمرِ رواں
آنکھ کھولی تو ہر اک سمت اندھیرے کا سماں
رینگتی اونگھتی مغموم سی اک راہگزر
گردِ آلام میں کھویا ہوا منزل کا نشاں
گیسوئے شام سے لپٹی ہوئی غم کی زنجیر
سینۂ شب سے نکلتی ہوئی فریاد و فغاں
ٹھنڈی ٹھنڈی سی ہواؤں میں وہ غربت کی تھکن
در و دیوار پہ تاریک سے سائے لرزاں
کتنی کھوئی ہوئی بیمار و فسردہ آنکھیں
ٹمٹماتے سے دیے چار طرف نوحہ کناں
دلِ مجروح سے اٹھتا ہوا غمناک دھواں
یہی تاریکیِ غم تو مرا گہوارہ ہے
میں اسی کوکھ میں تھا نورِ سحر کے مانند
ہر طرف سوگ میں ڈوبا ہوا میرا ماحول
میرا اُجڑا ہوا گھر میرؔ کے گھر کے مانند

اک طرف عظمتِ اسلاف کا ماتھے پہ غرور
اور اک سمت وہ افلاس کے پھیلے ہوئے جال
بھوک کی آگ میں جھلسے ہوئے سارے ارماں
قرض کے بوجھ سے جینے کی امنگیں پامال
وقت کی دھند میں لپٹے ہوئے کچھ پیار کے گیت
مہر و اخلاص زمانے کی جفاؤں سے نڈھال
بھائی بھائی کی محبت میں نرالے سے شکوک
نگہِ غیر میں جس طرح انوکھے سے سوال
’ایک ہنگامے پہ موقوف تھی گھر کی رونق‘
مفلسی ساتھ لئے آئی تھی اک جنگ و جدال
فاقہ مستی میں تھے بکھرے ہوئے سارے رشتے
تنگدستی کے سبب ساری فضائیں بے حال

اک جہنّم کی طرح تھا یہ مرا گہوارہ
اس جہنم میں مرے باپ نے دم توڑ دیا
ٹوٹ کر رہ گئے بچپن کے سُہانے سپنے
مجھ سے منہ پھیر لیا جیسے مرئ شوخی نے
میرے ہنستے ہوئے چہرے پہ اداسی چھائی
جیسے اک رات بھیانک مرے سر پر آئی
ارہں دشوار مگر راہ نما کوئی نہ تھا
سامنےوسعتٕ افلاک خدا کوئی نہ تھا

میرے اجداد کی میراث یہ ویران سا گھر
جس کو گھیرے ہوئے ہر سمت تباہی کے بھنور
جس کی چھت گرتی ہوئی ٹوٹا ہوا دروازہ
ہر طرف جیسے بکھرتا ہوا اک شیرازہ
نہ کہیں اطلس و کمخواب نہ دیبا و ہریر
ہر طرف منہ کو بسورے ہوئے جیسے تقدیر
مجھ کو اس گھر سے محبت تو بھلا کیا ہوتی
ہاں اگر دل میں نہ جینے کی تمنا ہوتی
یہ سمجھ کر کہ یہی ہے مری قسمت کا لکھا
اس کی دیوار کے سائے سے میں لپٹا رہتا
لیکن اس دل کی خلش نے مجھے بیدار کیا
مجھ کو حالات نے آمادۂ پیکار کیا
بے کسی رختِ سفر بن کے مرے ساتھ چلی
یاد آئی تھی مجھے گاؤں کی ایک ایک گلی
لہلہاتی ہوئی فصلیں وہ مرے آم کے باغ
وہ کانوں میں لرزتے ہوئے دھندلے سے چراغ
دوُر تک پانی میں پھیلے ہوئے وہ دھان کے کھیت
اور تالاب کنارے وہ چمکتی ہوئی ریت
میرے ہم عمر۔ وہ ساتھی، وہ مرے ہم جولی
میرے اسکول کے وہ دوست، مری وہ ٹولی
ایک بار ان کی نگاہوں نے مجھے دیکھا تھا
جیسے اک بار مرے دل نے بھی کچھ سوچا تھا
’میں نے جب وادیِ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
بہار کی واپسی

میں چپ چاپ بیٹھا ہوں اس رہگزر پر
یہی سوچتا ہوں کہ خط لانے والا
کہیں آج بھی کہہ نہ دے "کچھ نہیں ہے"
یہ کیا بات ہے لوگ اک دوسرے سے
جدا ہو کے یوں جلد ہے بھول جاتے
وہ دن رات کا ساتھ ہنسنا ہنسانا
وہ باتیں جنھیں غیر سے کہہ نہ پائیں
اچھوتے سے الفاظ جو شاہراہوں پر
آتے ہوئےدیر تک ہچکچائیں
کچھ الفاظ کے پھول جو اس چمن میں
کھلے تھے جسے مھٖلِ دوش کہیے
جو کچھ دیر پہلے ہی برہم ہوئی ہے
چراغوں سے اب تک دھواں اٹھ رہا ہے
در و بام پر اب بھی پھیلی ہوئی ہے
ہر اک سمت صہبائے احمر کی خوشبو
ہوا میں ابھی شور ہے ہا و ہو کا
وہ اڑتے ہوئے کاگ کے قہقہوں سے
الجھتے ہوئے زمزمے بوتلوں کے
بناتے ہیں دیوار پر کتنے دھبّے
ابھی ہنس رہے ہیں، ابھی بولتے ہیں
مری داستانوں کے دلچسپ کردار
سنسان جگہوں کے رنگین قصّے
یہ سب میرے پیچھے چلے آ رہے ہیں
کوئی جیسے روٹھے ہوئے آدمی کو
منائے، بڑے پار سے تھتھپائے
دلائے کوئی یاد گزری ہوئی بات
ہاتھوں کو اس کے دبا کر کہے
دیکھنا دیکھنا کوئی انجان راہی ہے
یا لڑکھڑاتا ہوا کوئی پتّہ
خزاں کے پروں پر اُڑا آ رہا ہے
کوئی نامۂ شوق لے آ رہا ہے
ترے شہر کے سر و من کے گۃلوں نے
خود اپنے ہی ہاتھوں سے تجھ کو لکھا ہے
چلے آؤ اب عہدِ گل آ گیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
کاغذی پیرہن

کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے موسم بدل رہا ہے
اٹھوں اور اب اٹھ کے کیوں نہاس گھر کے ساے دروازے کھول ہی دوں
مرئ رریچوں پہ جاے کب سے دبیز پردے لٹک رہے ہیں
میں کیوں نہ ان کو الگ ہی کر دں
مرا یہ تایک و سرد کمرہ
بہت دنں سے سنہری دھوپ اور نئی ہوا کو ترس رہا ہے
جگہ جگہ جیسے اس کی دیوار کی سپیدی اکھڑ گئی ہے
ہر ایک کونے میں کتنے جالے لگے ہوئے ہیں
مرے عزیزوں، مرے رفیوقں کی یادگاریں
یہ ساری تصویریں جیسے دھندلی سی پڑ گئی ہیں
یہ شیلف، جس میں مری کتابیں ہیں
میز، جس پر مرے سبھی کاغذات بکھرے ہوئے پڑے ہیں
یہ سب کے سب گرد سے اٹے ہیں
مری کتابیں،
میں کیا بتاؤں کہ کس قدر ہیں عزیز مجھ کو
بہت سی ایسی ہیں جو مرے دوستوں نے تحفے میں مجھ کو دی ہیں
وہ دوست جو جاں نثار تھے میرے، کس قدر چاہتے تھے مجھ کو
میں ان کے ہاتھوں کی پیاری تحریر ان کتابوں پہ دیکھتا ہوں
کچھ ایسے الفاظ، ایسے فقرے
جوا ن کے ہاتھوں نے صرف مرے لیے کھے ہیں
یہ میرے غم خوار، میرے دکھ درد کے امیں ہیں
مرے یہ سب کاغذات جو منتشر پڑے ہیں
مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے میں ان سے بیزار ہو چلا ہوں
اگر چہ یہ جانتا ہوں ان کے سوا ہے کیا کائنات میری
مری تصانیف، میرے مضمون، میری نظموں کی ساری پونجی
وہ شے کہ جس کی نہ کوئی قیمت ہے، اور نہ جو میرے کام آئی
مری کتابیں، مری بیاضیں،
یہ مسودے میری میری فکر و فنکے
نہ جانے کتنے ہی ناشروں کے حسین فائل میں کچھ دنوں رہ کے
پھر دوبارہ اس اجڑے کمرے میں آ کے آباد ہو گئے ہیں

میں جس زمانے میں انکتابوں کو لکھ رہا تھا
عجب جنوں تھا
عجیب طوفان میرے دل میں امنڈ رہا تھا
نہ نیند آتی تھی رات کو اور نہ دن کو دم بھر سکون ملتا
کہ جیسے خود زندگی نے ہاتھوں کو میرے لوح و قلم دیا ہو
انھیں کتابوں میں
میرے دل کی تمام دھڑکن
مری تمنّا
مرے ارادوں کی ساری گرمی
مری محبّت کے سارے نشتر چھپے ہوئے ہیں
میں آج ان کاغذات کو الٹ کر جو دیکھتا ہوں
تو اپنے ہی دل سے پوچھتا ہوں
یہ میری لکھی ہوئی کتابیں ہیں؟
ایسے اشعار؟
ایسی نظمیں؟
کہ جن پہ خود مجھ کو رشک آئے
یہ سب مرے ذہن کا کرشمہ ہیں؟
(ہائے کیا ہیں!)
میں ان کو پہچانتا نہیں ہوں
یہ ساری تصویریں میری ایسی ہیں
آج جو مجھ سے مختلف ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
کنجِ محبّت
یہ سنسان راتیں، یہ ٹھنڈی ہوائیں، یہ پھیلی ہوئی تیری یادوں کی خوشبو
یہ چُپ چاپ سے پیڑ، یہ غم کے سائے، یہ دل کی کسک، یہ محبّت کا جادو

یہ سب جاگتے ہیں، یہ سب سوچتے ہیں، یہ سب کروٹیں لے کے آہیں ہیں بھرتے
نئی منزلوں سے، نئے راستوں سے، نئے موڑ سے سب کے سب ہیں گزرتے

ہر اک موڑ پر جیسے کوئی کھڑا ہو، اشاروں اشاروں میں کچھ کہہ رہا ہو
سمجھ میں نہ آئے کوئی بات اس کی مگر جیسا چشمہ سا اک بہہ رہا ہو

کوئی جیسے میٹھے مدھر گیت کے بول مدھم سُروں میں یوں ہی گنگنائے
کوئی جیسے طوفاں دبائے ہو دل میں، کسی سے مگر پھر بھی کچھ کہہ نہ پائے

کچھ الفاظ ایسے جو یوں دیکھنے میں پُرانے سے ہیں، اور کتنے ہی انساں
انہیں کے سہارے سے کہتے رہے ہیں، دلوں کی مرادیں، جوانی کے ارماں!

یہ ارمان، یہ آرزوئیں ہماری، یہ کچھ رسمساتے ہوئے پھول جیسے
جگائیں جنھیں آ کے جھونکے ہوا کے، جنھیں گدگدا جائیں آ آ کے بھنورے

خزاں کی ہواؤں کے چلنے سے پہلے، ٹپکتے ہوئے پھول کے رس میں گویا
کوئی گیت سا بن لیا ہے بہاروں نے گاتے ہیں اب بھی جسے باغ و صحرا

جو کنجِ محبّت میں پیروں کی چھنتی ہوئی چاندنی کی زباں سے کہتا
کہو آج کی رات کیسیس گزاری، کوئی آج کی رات ملنے بھی آیا؟؟
 

الف عین

لائبریرین
غزلیں


نشاطِ زندگی میں ڈوب کر آنسو نکلتے ہیں
سنا ہے اب ترے غم کے نئے پہلو نکلتے ہیں

جنوں لے کر چلا ہے پا بجولاں اس کے کوچے میں
لیے آغوش میں ہم نکہتِ گیسو نکلتے ہیں

تری بستی میں دیوانوں کو رسوائی ہی راس آئی
یہ اپنا چاک دامن لے کے اب ہر پہلو نکلتے ہیں

وہی عارض، وہی کاکل، وہی کافر ادا آنکھیں
مگر ہر لمحہ پھر بھی کچھ نئے جادو نکلتے ہیں

محبت میں انھیں کو جان دے دینا بھی آتا ہے
وہ جن کے واسطے لے کر خمِ ابرو نکلتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
ہر ذرّہ گلفشاں ہے، نظر چور چور ہے
نکلے ہیں مے کدے سے تو چہرے پہ نور ہے

ہاں تو کہے تو جان کی پروا نہیں مجھے
یوں زندگی سے مجھ کو محبّت ضرور ہے

اپنا جو بس چلے تو تجھے تجھ سے مانگ لیں
پر کیا کریں کہ عشق کی فطرت غیور ہے

نازک تھا آبگینۂ دل، ٹوٹ ہی گیا
تو اب نہ ہو ملول، ترا کیا قصور ہے

عارض پہ تیرے میری محبّت کی سرخیاں
میری جبیں پہ تیری وفا کا غرور ہے
۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
ہم اہلِ غم بھی رکھتے ہیں جادو بیانیاں
یہ اور بات ہے کہ سنیں لن ترانیاں

شرمندہ کر نہ مجھ کو مرا حال پوچھ کر
لے دے کے رہ گئی ہیںن یہی بے زبانیاں

کم کیا تھا ہم فقیروں کو آشوبِٕ روزگار
کیوں یاد آ رہی ہیں تری مہربانباں

اہلِ زمانہ تم بھی بڑے وقت پر ملے
کچھ بار ہو چلی تھیں مری شادمانیاں

تم نے بھلا دیا تو نئی بات کیا ہوئی
رہتی ہیں یاد کس کو وفا کی کہانیاں

رکھ لو کہ زندگی میں کبھی کام آئیں گی
دیوانگانِ عشق کی بھی کچھ نشانیاں
۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اپنا ہی شکوہ اپنا گلہ ہے
اہلِ وفا کو کیا ہو گیا ہے

ہم جیسے سرکش بھی رو دئے ہیں
اب کے کچھ ایسا غم آ پڑا ہے

دل کا چمن ہے مرجھا نہ جائے
یہ آنسوؤں سے سینچا گیا ہے

یہ درد یوں بھی تھا جان لیوا
کچھ اور بھی اب بڑھتا چلا ے

بس ایک وعدہ، کم بخت وہ بھی
مرمر کے جینا سکھلا گیا ہے

جرمِ محبٓت مجھ تک ہی رہتا
ان کا بھی دامن الجھا ہوا ہے

اک عمر ہی گزری ہے راہ تکتے
جینے کی شاید یہ بھی سزا ہے

دل سرد ہو کر ہی رہ نہ جائے
اب کے کچھ ایسی ٹھنڈی ہوا ہے
۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
زہر پی کر بھی یہاں کس کو ملی غم سے نجات
ختم ہوتا ہے کہیں سلسلۂ رقصِ حیات

آخری شمع ہوں میں، میرا لہو جلنے دو
اب مرے بعد ملے گا نہ اندھیروں کو ثبات

صبح سے پہلےہی برپا نہ کرو خیمۂ گُل
کتنے گلچیں ابھی بیٹھے ہیں لگائے ہوئےگھات

ہم کہ مے خانے کا مے خانہ اُٹھا کر پی جائیں
تجھ سے چھٹ کر نہ کٹی ہم سے مگر ایک بھی رات

تشنگی محفلِ خوبإں میں تو کیا خاک بجھی
پھر بھی بیٹھا ہوں کہ شاید ہو یہیں آبِ حیات

اتنا باہرنہ قدم سرحدِ ادراک سے رکھ
تجھ کو ڈص لیں نہ کہیں تیرے جنوں کے لمحات

صبحِ کاذب سے تو کیا چاک ہو طلمت کی ردا
جگمگا اٹھّیں گے اب خاک کے لاکھوں ذرّات
۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
تمام یادیں مہک رہی ہیں، ہر ایک غنچہ کھلا ہوا ہے
زمانہ بیتا مگر گماں ہے کہ آج ہی وہ جدا ہوا ہے

یہ سچ ہے کھائے ہیں میں نے دھوکے، مگر نہ چاہت سے کوئی روکے
بجھے بجھے سے چراغِ دل میں بھی ایک شعلہ چھپا ہوا ہے

کچھ اور رسوا کرو ابھی مجھ کو تا کوئی پردہ رہ نہ جائے
مجھے محبّت نہیں جنوں ہے، جنوں کا کب حق ادا ہوا ہے

میں اور خود سر، میں اور سر کش، ہوا ہوں تلقینِ مصلحت سے
مجھے نہ اس طرح کوئی چھیڑے، یہ دل بہت ہی دکھا ہوا ہے

ملا جو اک لمحۂ محبّت، یہ پوچھ اس کی ہے کتنی قیمت
اب ایسے لمحوں کا تذکری کیا، کبھی جو وہ بے وفا ہوا ہے

یہ درد ابھرا ہے عہدِ گل میں، خدا کرے جلد رنگ لائے
نہ جانے کب سے سلگ رہا ہے، نہ جانے کب کا دبا ہوا ہے

وفامیں برباد ہو کے بھی آج زندہ وہنے کی سوچتے ہیں
نئے زمانے میں اہلِ دل کا بھی حوصلہ کچھ بڑھا ہوا ہے

ہر ایک لَے میری اکھڑی اکھڑی سی، دل کا ہر تار جیسے زخمی
یہ کون سی آگ جل رہی ہے، یہ میرے گیتوں کو کیا ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
بس کہ پابندیِ آئینِ وفا ہم سے ہوئی
یہ اگر کوئی خطا ہے تو خطا ہم سے ہوئی

زندگی تیرے لیے سب کو خفا ہم نے کیا
اپنی قسمت ہے کہ اب تو بھی خفا ہم سے ہوئی

سر اُٹھانے کا بھلا اور کسے یارا تھا
بس ترے شہر میںن یہ رسم ادا ہم سے ہوئی

بار ہا دستِ ستم گر کو قلم ہم نے کیا
بار ہا چاک اندھیرے کی قبا ہم سے ہوئی

ہم نے اُتنے ہی سرِ راہ جلائے ہیں چراغ
جتنی برگشتہ زمانے کی ہوا ہم سے ہوئی

بار ہستی تواُٹھا، اُٹھ نہ سکا دستِ سوال
مرتے مرتے نہ کبھی کوئی دعا ہم سے ہوئی

کچھ دنوں ساتھ لگی تھی ہمیں تنہا پا کر
کتنی شرمندہ مگر موجِ بلا ہم سے ہوئی
۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
بہت فسردہ ہیں ان کو کھو کر جگر فگاروں سے کچھ نہ کہنا
نہ جانے کیا ان کے دل پہ بیتے گی، سوگواروں سے کچھ نہ کہنا

بہت ہی بھوکے، بہت ہی مفلس، بڑے ہی آوارہ گرد ہیں ہم
بڑے ہی سرکش ہیں، جانے کیا کہہ دیں، غم کے ماروں سے کچھ نہ کہنا

کبھی نہ بھولیں گی ایسی گھڑیاں، یہ سخت تنہائیوں کے لمحے
گزارنی ہجر کی یہ راتیں، مگر ستاروں سے کچھ نہ کہنا

فغاں کہ ایسی فضا میں جینا پڑا ہے جس کا یہ مشورہ ہے
وتم سہے جاؤ لیکن اپنے ستم شعاروں سے کچھ نہ کہنا

یہ کس طرح کی وفا چمن سے ہے، کچھ کہو میرے ہم صفیرو
خزاں س بڑھ کر جو زہر آگیں ہو، اُن بہاروں سے کچھ نہ کہنا

یہ مسکراتے ہیں میرے غم پر ت میری ڈھارس بندھا رہے ہیں
خلوص اک طرح کا ہے ان کو بھی، غم گساروں سے کچھ نہ کہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Oooo..xxxx..oooo
 

الف عین

لائبریرین
سوداگر

لو گجر بج گیا
صبح ہونے کو ہے
دن نکلتے ہی اب میں چلا جاؤں گا
اجنبی شاہراہوں پہ پھر
کاسۂ چشم لے لے کے ایک ایک چہرہ تکوں گا
دفتروں، کارخانوں میں ، تعلیم گاہوں میں، تعلیم گاہوں میں جا کر
اپنی قیمت لگانے کی کوشش کروں گا

میری آرامِ جاں!
مجھ کو اک بار پھر دیکھ لو
آج کی شام لوٹوں گا جب
بیچ کر اپنے شفّاف دل کا لہو
اپنی جھولی میں چاندی کے ٹکڑے لیے
تم بھی مجھ کو نہ پہچان پائیں تو پھر
میں کہاں جاؤں گا۔۔۔!!
کس سے جا کر کہوں گا کہ میں کون تھا۔۔۔۔۔
کس سے جا کر کہوں گا کہ میں کون تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
آنچل کی چھاؤں میں
آج ہر سمت سے آنچل کی ہوا آتی ہے
کیا کہوں اب کے یہ کس طرح کا آیا موسم
لمحے لمحے کی زباں پر ہے نئی فصل کا گیت
میری بستی، مرے کھیتوں کا عجب ہے عالم
ہنس رہے ہیں مرے معسوم سے ننھے پودے
جن کو ملتی رہی اب تک مرے غم کی شبنم
کوئی گوری لیے آتی ہے چھلکتی گاگر
جس طرح پہلے برستی تھیں یہ آنکھیں چھم چھم
رس بھرے ہونٹوں سے راتوں کے اندھیرے مہکے
اس اندھیرے میں کوئی چھیڑ دے جیسے سرگم
منزلیں اب مرے پاؤں میں بچھی جاتی ہیں
جانے کس سمت لیے جاتا ہے ایک ایک قدم
مجھ سے کہتی ہے مری پیاس یہ جیون بھر کی!
اور کچھ اور کہ یہ نشٓہ ابھی ہے کم کم
رکھ کے سینے پہ میرے ہاتھ کوئی کہتا ہے
اتنے پاگل نہ بنو ہوش میں آؤ بالم
دیکھو اب جاگ اٹھو، رات کٹی بھور ہوئی
سیج کے گجروں میں باقی نہ رہا کوئی غم
چل کے پھلواری میں سورج کو نکلتے دیکھیں
چل کے دیکھیں کہ کلی کھلتی ہے کیسے تھم تھم
میرے بالوں میں سجا دو کوئی ہنستا ہوا پھول
چل کے ہاتھوں پہ مرے کھاؤ محبت کی قسم
۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اپنے بچّے کے نام
اے مرے سنّ و سال کے حاصل
میرےآنگن کے نو دمیدہ گلاب
میرے معصوم خواب کے ہم شکل
میری مریم کے سایۂ شاداب
صبح تخلیق کا سلام تجھے
زندگی تجھ کو کہتی ہے آداب

اے مقدّس زمیں کے شعلۂ نو
تو فروزاں ہو اُن فضاؤں میں
میرے سینے کی جو امانت ہیں
جو مری نا سرا دعاؤں میں!
اس طرح مسکراتی ہیں جیسے
نغمگی دور کی صداؤں میں

مجھ کو اجداد سے وراثت میں
وہ خرابے ملے کہ جن میں رہا
عمر بھر پائمال و خاک بسر
میرا حصٓہ رہا غمِ فردا
مجھ کو میرے لہو میں نہلا کر
جس نے قیدِ حیات میں رکھّا

اے مری روحِ فن کے عکسِ جمیل
تجھ کو میری سی زندگی نہ ملے
جونہ میں ہو سکا، وہ تُو ہو جائے
کاش تو میرا جانشیں نہ بنے
میں تصوّرمیں بھی جہاں نہ گیا
اُن دیاروں میں تیرا نام چلے
۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
سلسلے سوالوں کے

دن کے چہچہوں میں بھی رات کا سا سنّاٹا
رات کی خموشی میں جیسے دن کے ہنامے
جاگتی ہوئی آنکھیں، نیند کے دھندلکوں میں
خواب کے تصوّر میں اک عذابِ بیداری
رو زو شب گزرتے ہیں قافلے خیالوں کے
صبح و شام کرتے ہیں آپ اپنی غم خواری
ہم کہاں ہیں؟ ہم کیا ہیں؟کون ہیں مگر کیوں ہیں؟
ختم ہی نہیں ہوتے سلسلے سوالوں کے

چشمۂ ہدایت ہے علم کے صحیفوں میں
فن کے شاہکاروں میں اک چراغِ عرفاں ہے
مرحمت کے ساماں ہیں ان کی بارگاہوں میں
مفت جو لُٹاتے ہیں اب بھی اپنی دانائی
رزم گاہِ ہستی میں اپنوں اور غیروں نے
جس سے روشنی پائی، جو عمل کی راہوں میں
کتنے کم نگاہوں کی مشکلوں میں کام آئی

ہم نے ان چراغوں کو، ہم نے اِن صداؤں کو
اپنی خواب گاہوں میں بارہا بلایا ہے
حال سب سنایا ہے اپنی آرتزوؤں کا
اپنے دل کے زخموں کا بھید سب بتایا ہے
دو قدم چل کر داغ کچھ نئے ابھرے
پھر خلائے بے پایاں، پھر وہی اندھیرے تھے
ہر چراغ سے روٹھی جیسے اپنی بینائی
ہر صدا پہ الب تھی جیسے اپنی تنہائی
۔۔۔۔۔
 
Top