اب مرے پاس مرے خواب کہاں رہتے ہیں۔۔۔ محمد بلال اعظم

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بابا جانی کی محبت اور شفقت کی نذر۔۔۔۔ ایک اور غزل

غزل

اب ہے تعبیر کے دھوکے میں سرابوں کا سفر
اب مرے پاس مرے خواب کہاں رہتے ہیں

ہاں اِسی شہر میں بہتا ہے فُراتِ وحشت
ہاں اِسی شہر میں کچھ تشنہ لباں رہتے ہیں

حبسِ زندانِ تحیر یہ گواہی دے گا
جو زمیں پر نہیں رہتے، وہ یہاں رہتے ہیں

اب کہاں کھینچتی ہے غازۂ خونیں کی کشش
اب یہاں کون سرِ نوکِ سناں رہتے ہیں

ہم سفر خوابِ رفاقت کا رہا جو برسوں
اب کئی زخم مرے اُس سے نہاں رہتے ہیں

یہ بھی آشوبِ تمنا ہے کہ کچھ اشک بلال
شعر کہتا ہوں تو آنکھوں سے رواں رہتے ہیں

(محمد بلال اعظم)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بلال بھائی ۔ بہت اچھی غزل ہے !! ماشاءاللہ ۔ بھئی آپ تو روز بروز افتخار عارف بنتے جارہے ہیں ۔ :):):)
خوابِ رفاقت کا ہمسفر کچھ ٹھیک نہین لگ رہا ۔ اب یہاں کون سرِ نوکِ سناں رہتے ہیں والے مصرع میں واحد کا صیغہ محاورے کے زیادہ مطابق ہوگا ۔ یعنی اب یہاں کون سرِ نوکِ سناں رہتا ہے ۔
بلال ! مطلع کی کوشش کیجیے ۔ اس کے بغیر غزل پورا مزا نہیں دیتی ۔
 
Top