شکیب جلالی اب میسّر نہیں فرصت کے وہ دن رات ہمیں : شکیب جلالی

سیما علی

لائبریرین
اب میسّر نہیں فرصت کے وہ دن رات ہمیں
لے اُڑی جانے کہاں صرصرِ حالات ہمیں

آج وہ یوں نگہِ شوق سے بچ کر گزرے
جیسے یاد آئے کوئی بھولی ہوئی بات ہمیں

کیسے اڑتے ہوئے لمحوں کا تعاقب کیجے
دوستو اب تو یہی فکر ہے دن رات ہمیں

نہ سہی کوئی، ہجومِ گل و لالہ نہ سہی
دشت سے کم بھی نہیں کنجِ خیالات ہمیں

وہ اگر غیر نہ سمجھے تو کوئی بات کریں
دلِ ناداں سے بہت سی ہیں شکایات ہمیں

دھوپ کی لہر ہے تُو، سایۂ دیوار ہیں ہم
آج بھی ایک تعلٓق ہے ترے سات ہمیں

رنگ و مستی کے جزیروں میں لیے پھرتے ہیں
اس کی پائل سے چُرائے ہوئے نغمات ہمیں
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
اب میسّر نہیں فرصت کے وہ دن رات ہمیں
لے اُڑی جانے کہاں صرصرِ حالات ہمیں

آج وہ یوں نگہِ شوق سے بچ کر گزرے
جیسے یاد آئے کوئی بھولی ہوئی بات ہمیں

کیسے اڑتے ہوئے لمحوں کا تعاقب کیجے
دوستو اب تو یہی فکر ہے دن رات ہمیں

نہ سہی کوئی، ہجومِ گل و لالہ نہ سہی
دشت سے کم بھی نہیں کنجِ خیالات ہمیں

وہ اگر غیر نہ سمجھے تو کوئی بات کریں
دلِ ناداں سے بہت سی ہیں شکایات ہمیں

دھوپ کی لہر ہے تُو، سایۂ دیوار ہیں ہم
آج بھی ایک تعلٓق ہے ترے سات ہمیں

رنگ و مستی کے جزیروں میں لیے پھرتے ہیں
اس کی پائل سے چُرائے ہوئے نغمات ہمیں
عمدہ غزل۔ شکریہ آپا۔سلامت رہیں (آمین)
 
Top