اب میں ووٹ دوں یا نہ دوں!

سید رافع

محفلین
ووٹ ایک ایسی حماقت ہے جو آپ کے پاس بطور امانت آپ کی حماقت کی سبب رکھی گئی ہے۔ اب چند ایسے معتبر لوگ بھی ہیں جو اس امانت کو پوری طرح ادا کرتے ہیں مطلب ثابت کرتے ہیں کہ ہم واقعی ہیں۔ امانت رکھنے والے عموما مسکراتے ہیں لیکن امانت ادا کرنےکے اس جوش پر منہ کھول کر ، کبھی کنارہ لے کر اور کبھی منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہیں۔ کچھ نے یہ پکڑ لیا ہے کہ بھائی کچھ ہو نہ ہو ہمیں بنایا جا رہا ہے سو وہ کینسل والا ووٹ ڈال کر آتے ہیں تاکہ کوئی یہ اہم امانت چرا کر کسی اور کو نہ دے ۔ مطلب بنتے بنتے نہ بنے لیکن پھر بن گئے۔ اس میدان کے اصل ہیرو وہ ہیں جو ووٹ بالکل استعمال نہیں کرتے بلکہ وقار کے ساتھ گھر میں تشریف فرما رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں حکومت ووٹ سے نہیں رعب سے بنتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر وہ ہوتا تو ووٹ دیتا یعنی وہ بھی بن گئے کہ اگر وہ ہوتا تو میں بھی بن جاتا۔ کیونکے وہ نے نہ کبھی پیدا ہونا ہے اور نہ ووٹ مانگنا ہے سو کبھی بنتے نہیں لیکن بنے ہوئے رہتے ہیں۔

سب انسانوں کی خواہشات ایک جیسی ہی ہیں جان بچی رہے اور شادی ہو جائے۔ اہل و عیال کھالیں جسکو دینا چاہیں دیں۔ مال بڑھے اور بھتہ نہ دینا پڑے۔ آسائش بڑھے یہاں تک کہ ممی ڈیڈی برگر افراد کے مقابلے تک جا پہنچیں۔ سو ووٹ دینے کی ضرورت ہی نہیں۔ جو ووٹ دیتا ہے اسکا آئی کیو ووٹ نہ دینے والے کے مقابلے میں100 پوائنٹ کم ہو جاتا ہے۔ اب کی بار فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
 

سید رافع

محفلین
مجھ سے آج کل اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کس کو ووٹ ڈالا جائے۔ میں اس حوالے سے صرف دو باتیں عرض کروں گی۔ پہلی یہ کہ ووٹ دیتے وقت آئیڈیل امیدوار کا تصور ذہن سے نکال دیں۔ سوائے انبیا علیہم السلام کے کوئی آئیڈیل نہیں ہوسکتا نہ ان کے سوا کسی کی حکومت آئیڈیل تھی

ضرورت کیا ہے دینے کی۔ سب پہلے سے طے ہی ہے۔ آپ امیدوار کو فیس بک پر لائک کر دیں وہ بھی کافی ہے۔ انبیاء اپنے زمانے میں آئیڈیل نہ تھے۔ نوح علیہ السلام کی قوم ان پر ہنستی اور کان میں انگلیاں ڈالتی، ابراہیم ع کی قوم نے آگ میں ڈالا، موسی ع کی قوم نے ان کو ہلاک کرنے کے لیے سمندر تک پیچھا کیا، عیسی ع کو تو اپنی حد تک سولی پر چڑھا دیا اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بس میں تو قتل ہی کرنے کے درپے ہوئے۔ اگر آڈئیل ہوتے اپنی قوم کے تو یہ سب انبیاء کے ساتھ نہ ہوتا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مجھ سے آج کل اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کس کو ووٹ ڈالا جائے۔ میں اس حوالے سے صرف دو باتیں عرض کروں گی۔ پہلی یہ کہ ووٹ دیتے وقت آئیڈیل امیدوار کا تصور ذہن سے نکال دیں۔ سوائے انبیا علیہم السلام کے کوئی آئیڈیل نہیں ہوسکتا نہ ان کے سوا کسی کی حکومت آئیڈیل تھی
اور دوسری بات ؟
شاید اس دوسری بات میں پوچھنے والے کا جواب موجود ہو!
 

سید رافع

محفلین
دوسری اور آخری بات یہ ہے کہ جو امیدوار اور پارٹی ایک دفعہ آپ کو مایوس کرچکی ہو، دوبارہ اس کو ووٹ نہ دیں

جی جیسا کہ پیپلز پارٹی یا نون لیگ تاکہ پی ٹی آئی میں اسکے الیکٹیبلز آجائیں اور آپ خوشی خوشی نئی پارٹی کے نام پر انکو ووٹ دے دیں۔ کیا حماقت ہے! :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
حماقت وہ شئے ہوتی ہے کہ اگر نہ کی جائے تو فائدہ ہوتا ہے۔ سو نہ ڈالنے میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ جیسا کہ مضمون میں بیان کیا۔ آپ کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ :)
ہم پابہ زنجیر ہیں چاہتے ہوئے بھی ووٹ نہیں ڈال سکتے ۔
جاہلیت نے دیس میں اتنے سخت ڈیرے ڈال رکھے ہیں کہ پچھلی مرتبہ سمند پار پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کے کام پر بات ہونے کے باوجود پانچ سال گزر گئے اوریہ انتظام بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے نہ کیا جاسکا۔
 

سید رافع

محفلین
ہم پابہ زنجیر ہیں چاہتے ہوئے بھی ووٹ نہیں ڈال سکتے ۔
جاہلیت نے دیس میں اتنے سخت ڈیرے ڈال رکھے ہیں کہ پچھلی مرتبہ سمند پار پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کے کام پر بات ہونے کے باوجود پانچ سال گزر گئے اوریہ انتظام بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے نہ کیا جاسکا۔

آپ رقم بھیجتے رہیں اور اطمینان سے وہاں رہیں۔ :)
 

سید رافع

محفلین
پانچ سال ایک شاندارجمہوریت کے مزے لُوٹنے کے بعد بالاآخر وہ دن آ ہی گیا جب ہمارے سر پر سہرا سجنے والا ہے۔ وہ کمی کمین جونام نہاد جمہوریت کے دور میں فُٹبال کی طرح ادھر اُدھر لُڑھکتا رہا، اب محفل کا دُلہا بننے جا رہا ہے۔۔۔ خواہ ایک روز کا کیوں نہ ہو۔ سب بڑے اس کوشش میں ہیں کہ لفاظی کی لیپا پوتی کر کے کسی طرح اُس کوسنواردیں، کوئی ایسا جادوئی سنگھارمل جائے جو وقتی طوراُس کے جسم پر لگے انمٹ داغ چُھپا ڈالے اور وہ کچھ پل کے لیے سب بُھلا کراُن کی من پسند دُلہن بیاہ لے جائے۔ اب یہ تو بعد کی بات ہے کہ اس کمی کمین کو دُلہن کا دیدار نصیب ہوتا ہے یا ہمیشہ کی طرح اُسے منہ دکھائی میں آئینہ ملتا ہے اور راہزن خوابوں کی شہزادی لے کر چمپت ہوتے ہیں۔

آپ نے بہت عمدہ طریقے سے عمران کا چوتھا سہرا باندھا ہے۔ جواب نہیں۔
 

سید رافع

محفلین
وقت بہت کم ہے اور جو ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے اُس سے فرار ممکن نہیں۔اب فیصلہ ہمارا ہے کہ کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کرآنکھیں موند لیں یا اپنے آپ کو مومن جان کر بےتیغ میدان میں کود پڑیں کہ مرنا مقدر ہے تو کیوں نا کسی کو مار کر مرا جائے،شہادت تو مل ہی جائے گی۔ دونوں باتیں غورطلب ہیں کہ ہم نہ توکبوتر ہیں اورنہ مومن۔ ایک عام انسان،عام عوام ہیں، معمولی پڑھے لکھے یا پھر اُن اسباق کے پڑھے ہوئے جو زندگی نے روح وجسم پر ثبت کیے، بڑے لوگوں کی نظر میں جاہل کہ ہمارے پاس تعلیم نہیں جو شعور عطا کرے، دُنیا کی عظیم قوموں کے سامنے تہذیب واخلاق کی اعلیٰ قدروں سے ماورا بےترتیب لوگوں کا ہجوم۔ان باتوں کو دل پر لے لیا تو واقعی ہم خس وخاشاک ہیں۔

دیکھیں ایک جمع ایک دو ہوتا ہے۔ :)

اگر ہم گفتگو کو دو جمع دو تک نہ لے جائیں تو سادی گفتگو بھی ممکن ہے۔ بلاوجہ ہجوم ہو جائے گا۔ آپ یہ بتائیں کہ ریاض سے کراچی کب آنا ہو گا؟
 

سید رافع

محفلین
فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے یا شاید فیصلہ کرنے کی خوش فہمی ۔جو بھی ہے ایک پل کوٹھہر کر اپنا فرض ضرور ادا کریں صرف وطن کی خاطر.

آپ سے ایک شکایت ہے۔ اگر کہیں تو بتاوں۔ وہ کیا ہے کہ آپ گفتگو کو کسی پچھلے جواب پر کلک کر کے آگے بڑھائیں۔

فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہیں۔ اپنے اور میرے بارے میں گفتگو بہت عمدہ، بہت آسان۔ دیگر کے بارے میں گفتگو بہت مشکل، بہت پیچیدہ۔
 
Top