محمد بلال اعظم
لائبریرین
ایک بے تکی غزل برائے اصلاح
اب کوئی چاند نہ جگنو نہ ستارا جاناں
ہر کوئی ہجر کا ترے یہاں مارا جاناں
کیوں یہ مجمع سا لگا ہے مرے گھر کے آگے؟
میں نے تو قرض جہاں کا ہے اتارا جاناں
لطف کیا ہوگا سرِ شام یہ محفل میں بھی
جبکہ دیکھا ہی نہ ابرو کا اشارہ جاناں
کس نے دیکھے ہیں سیہ زلف سی شب کے سائے
ہم ہی نے ہے شبِ ظلمت کو نکھارا جاناں
اپنے حصے کا دیا ایک جلانے کے لیے
سب لہو جسم کا آنکھوں میں اُتارا جاناں
جس کی باتوں میں ترے نام کی خوشبو مہکی
اُس نے ہر غم میں فقط تجھ کو پکارا جاناں
آؤ چلتے ہیں یہی سوچ کے ساحل کی طرف
مل ہی جائے گا کسی طور کنارا جاناں
ہم تو بدنام شبِ ہجر میں یوں ہی ہوئے
تو نے ہر بار ہی زلفوں کو سنوارا جاناں