محمداحمد
لائبریرین
غزل
اب کہاں ہیں نگہِ یار پہ مرنے والے
صورتِ شمع سرِ شام سنورنے والے
رونقِ شہر انہیں اپنے تجسس میں نہ رکھ
یہ مسافر ہیں کسی دل میں ٹھہرنے والے
کس قدر کرب میں بیٹھے ہیں سرِ ساحلِ غم
ڈوب جانے کی تمنا میں اُبھرنے والے
جانے کس عہدِ طرب خیز کی اُمید میں ہیں
ایک لمحے کو بھی آرام نہ کرنے والے
عزم یہ ضبط کے آداب کہاں سے سیکھے
تم تو ہر رنگ میں لگتے تھے بکھرنے والے
عزم بہزاد
اب کہاں ہیں نگہِ یار پہ مرنے والے
صورتِ شمع سرِ شام سنورنے والے
رونقِ شہر انہیں اپنے تجسس میں نہ رکھ
یہ مسافر ہیں کسی دل میں ٹھہرنے والے
کس قدر کرب میں بیٹھے ہیں سرِ ساحلِ غم
ڈوب جانے کی تمنا میں اُبھرنے والے
جانے کس عہدِ طرب خیز کی اُمید میں ہیں
ایک لمحے کو بھی آرام نہ کرنے والے
عزم یہ ضبط کے آداب کہاں سے سیکھے
تم تو ہر رنگ میں لگتے تھے بکھرنے والے
عزم بہزاد