فرخ منظور
لائبریرین
غزل
اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی چلے گئے
پھر پھر گُل آ چکے پہ سجن تم بھلے گئے
پوچھے ہے پھول و پھل کی خبر اب تُو عندلیب
ٹوٹے، جھڑے، خزاں ہوئی، پھولے پھلے گئے
دل خواہ کب کسی کو زمانے نے کچھ دیا
جن کو دیا کچھ اس میں سے وے کچھ نہ لے گئے
اے شمع، دل گداز کسی کا نہ ہو کہ شب
پروانہ داغ تجھ سے ہوا، ہم جلے گئے
سودا ؔکوئی بھی دیوے ہے ایسا دل اُن کے ہاتھ
لاکھوں ہی دل قدم تلے جن کے مَلے گئے
(مرزا رفیع سوداؔ)
اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی چلے گئے
پھر پھر گُل آ چکے پہ سجن تم بھلے گئے
پوچھے ہے پھول و پھل کی خبر اب تُو عندلیب
ٹوٹے، جھڑے، خزاں ہوئی، پھولے پھلے گئے
دل خواہ کب کسی کو زمانے نے کچھ دیا
جن کو دیا کچھ اس میں سے وے کچھ نہ لے گئے
اے شمع، دل گداز کسی کا نہ ہو کہ شب
پروانہ داغ تجھ سے ہوا، ہم جلے گئے
سودا ؔکوئی بھی دیوے ہے ایسا دل اُن کے ہاتھ
لاکھوں ہی دل قدم تلے جن کے مَلے گئے
(مرزا رفیع سوداؔ)