اب گُزارہ کریں مِل جُل کے گھرانے والے ------ رفیع رضا

مغزل

محفلین
غزل

اب گُزارہ کریں مِل جُل کے گھرانے والے
موت بازار سے لائے ہیں کمانے والے

سوچتے کیوں نہیں یہ جسم اُڑانے والے
کُچھ پرندے نہیں ہوتے کہیں جانے والے

خُود بھی بارود کے سامان پہ بیٹھےہُوئے ہیں
اپنے ہمسایوں کے گھر بار جلانے والے

کیا کوئی اور ہُنر سیکھ نہیں سکتے ہیں
یہ ہُنر مند ، جنازوں کو اُٹھانے والے

اک سُرنگ آنکھ میں لگتی ہُوئی پکڑی بر وقت
سارے قیدی تھے مری آنکھ سے جانے والے

بیٹھنا تھا جنہیں دیوار پکڑ کر وُ ہی لوگ
بن گئے شہر کی بُنیاد ھلانے والے

وُہی مِنبر، وُہی الفاظ وُہھی فتویِ کُفر
وُہی داڑھی ، وہی جُبےہیں پُرانے والے

یہ جو کہتے ہیں ہوا دوست بنی ہے اُن کی
یہ بھی لگتے ہیں چراغوں کو بُجھانے والے

رفیع رضا
 

آصف شفیع

محفلین
بہت اچھا کلام ہے رفیع رضا صاحب کا۔ میں تو ان کی غزلیں پڑھ کر ان کا مداح ہو گیا ہوں۔ بہت منجھا ہوا کام ہے۔ پوسٹ کرنے کا شکریہ۔
 

فاتح

لائبریرین
پہلے تو میں رفیع الدین رازؔ سمجھا مگر غور سے دیکھا تو رفیع رضا لکھا تھا (ضعفِ بصارت کہیے یا بصیرت;))
انتہائی خوبصورت کلام ہے۔ بے حد شکریہ قبلہ مغل صاحب۔
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ دوستو، فرداً فرداً جواب دینے سے معذور ہوں ، سو اسے معذرت کے ساتھ قبول کیجے ۔
 
Top