اتباف ابرک

سحر کائنات

محفلین
کیسے ٹکڑوں میں کوئی شخص سنبھالا جائے
جس نے جانا ہے کہو سارے کا سارا جائے

جب ہے برسات کسی اور کے آنگن کے لئے
اس کا کیچڑ بھی مرے گھر نہ اتارا جائے

ہے بری بات یہ سرگوشیاں محفل کو بتا
سرِ بازار مرا قصہ اچھالا جائے

زندگی میری ہے تو مجھ کو عطا کی جائے
ہے مرا حق تو مجھے اور نہ ٹالا جائے

شور اٹھتا ہے رگ و جاں سے تو دل پوچھتا ہے
خالی زندان سے اب کس کو نکالا جائے

عقل کہتی ہے کہ چل دور ہے منزل تیری
دل یہ کہتا ہے تجھے مڑ کے پکارا جائے

چاہ جینے کی ہے تو ، مشورہ ہے یہ ابرک
آستیں میں بھی کوئی سانپ نہ پالا جائے

..................................................................... اتباف ابرک
 

سحر کائنات

محفلین
خود بہ خود ایسے وہ شعروں میں اتر آتا ہے
جیسے مالک بنا دستک دئے گھر آتا ہے

یہ ضروری نہیں ہو گھر کا پتہ تو آئے
اس کو بن آئے بھی آنے کا ہنر آتا ہے

دل سے اٹھ جاتی ہے ہر شے کی محبت اس دم
جب محبت کے کوئی زیرِ اثر آتا ہے

مجھ کو معلوم نہیں آپ کی صورت کیا ہے
مجھ کو ہر شخص میں وہ شخص نظر آتا ہے

میں چھپاتا ہوں بہت نام مگر کیا کیجے
ایک چہرہ میرے لفظوں میں ابھر آتا ہے

یہ محبت کبھی تا دیر نہیں چھپ سکتی
یہ وہ ڈوبا ہے جو کچھ دور ابھر آتا ہے

کس کی بن سکتی ہے خود سوچو بھلا اس دل سے
جو بھی کہتا ہوں الٹ اُس کا یہ کر آتا ہے

دوست آساں نہیں برسوں کی ریاضت ہے کہ اب
بہ خوشی سوگ منانے کا ہنر آتا ہے

ہے یہ احساس غلط راہ نکل آیا ہوں
ایسے رستے میں مگر موڑ کدھر آتا ہے

یہ جو انسان ہے خود غرضی میں کم ظرفی میں
جانے کتنوں کو اکیلا ہی بسر آتا ہے

آج پھرتا ہے جو اس شہر میں ہنستا بستا
کل کے اخبار میں وہ بن کے خبر آتا ہے

لازماً ماں نے مری یاد کیا ہو گا مجھے
ورنہ صحرا میں بھلا سبز شجر آتا ہے

اپنی مرضی یہاں رکھتا نہیں کوئی ابرک
اٹھ کے چل دیتا ہے جب حکمِ سفر آتا ہے

۔۔۔۔۔ اتباف ابرک

اضافی اشعار

کیا عجب ہم پہ بھی کچھ دن کو بہار آ جائے
اس کی قربت میں تو پت جھڑ بھی نکھر آتا ہے

یونہی صحرا کا رویہ نہیں روکھا مجھ سے
اس کی دانست میں مجنوں ہی ادھر آتا ہے

جب بھی محفل میں گیا خود کو دغا دینے کو
دو گھڑی میں ہی یہ دل مجھ سے مکر آتا ہے

وہ جو ہنستا ہؤا آتا ہے گلی سے اس کی
اس کو دیکھے بنا شاید وہ گزر آتا ہے

خاک سمجھے گی تری بات یہ دنیا ابرک
تم کو کہنے کا سلیقہ ہی کدھر آتا ہے
 

سحر کائنات

محفلین
کوئی مشکل پڑے تعویذ بنا سکتے ہو
تم مرے نام پہ ہر داو لگا سکتے ہو

جب جہاں چاہو مجھے چھوڑ کے جا سکتے ہو
اُس گھڑی تک مجھے کیا اپنا بنا سکتے ہو !

کب تقاضا ہے نبھانے کا مگر جاتے ہوئے
میرے اندر سے بھی کیا خود کو مٹا سکتے ہو

تم کو معلوم ہے یہ آخری نیندیں ہیں مری
وسعتِ خواب ذرا اور بڑھا سکتے ہو

آسماں تھام کے رکھا ہے جو تم نے سر پے
تھک گئے ہو تو اسے مجھ پہ گرا سکتے ہو

جب کبھی شہر سے گزرو مرے، ملنا لازم
اک تمہی ہو جو مجھے مجھ سے ملا سکتے ہو

مجھ سے ملنے میں بھلا اب ہے تردد کیسا
اس سے بڑھ کر تو نہیں مجھ کو گنوا سکتے ہو

یاد کرنے کا سلیقہ ہے مری نس نس کو
تم مجھے کیسے بھلاتے ہیں، سکھا سکتے ہو !

میں تو مارا ہوں مروت کا، کہاں بولوں گا
تم مجھے آئینہ جب چاہے دکھا سکتے ہو

بات سیدھی ہے مگر دل بھلا سمجھا ہے کبھی
تم گیا وقت ہو ، کب لوٹ کے آ سکتے ہو

یونہی بے کار گئے شعر تمہارے ابرک
تم تو کہتے تھے کہ پتھر بھی رُلا سکتے ہو

اتباف ابرک
 
Top