محمد احمد رضا ایڈووکیٹ
محفلین
دور حاضر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اختلاف جسے امت کے لئے رحمت قرار دیا گیا تھا، اسے غیر ذمہ درانہ رویوں اور کج فہمی کی وجہ سے باعث زحمت بنا کر امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا گیا ہے۔ آج ہمارے نوجوان ہر مسئلہ میں پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ کس فتویٰ پر عمل کریں، ایک صاحب کے فتویٰ پر عمل کریں گے تو دوسرے کے نذدیک وہ کفر ہو جائے گا اور یہ ایک ایسا موذی مرض ہے جو نوجوان طبقہ کو اسلام سے دور کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ بحثیت مسلمان اگر ہم اسلام کو دیکھیں تو قرآن میں واضح حکم ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، ہم نے اس آیت سے اتفاق کا فارمولااخذ کر رکھا ہے جبکہ اس فرمان خداوندی سے اتفاق نہیں بلکہ اتحاد کا درس ملتا ہے اور اتحاد اختلاف کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اس آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جب ہم حدیث پاک کا مطالعہ کریں تو ہمیں حدیث مبارکہ ملتی ہے کہ (اختلاف امتی رحمۃ) میری امت کا آپس میں اختلاف کرنا باعث رحمت ہے۔ آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ کو ملا کر پڑھیں تو مفہوم یہ ہی نکلے گا کہ دلائل و براہین، علم و تحقیق کی روشنی میں اختلاف کرو لیکن اتحاد کی رسی کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ اسلام نے چند چیزیں (نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ) فرض فرما دیں، ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے لیکن یہ کام کرنے ہی کرنے ہیں، اور اسی طرح چند چیزیں (شراب، بدکاری، جوا، وغیرہ) مطلقاً حرام قرار دے دیں، ہمیں ان سے اجتناب کرنا ہی کرنا ہے، سمجھ آئے یا نہ آئے۔ لیکن دیگر معاملات میں اصول، قواعد، کلیے، فارمولے دے کر فرمایا کہ اب سوچو، غور کرو، جو سمجھ آئے دلیل کی روشنی میں اس پر عمل کرو۔ اسی پر حدیث نبوی ﷺ کا مفہوم بھی دلالت کرتا ہے کہ اگر کسی صاحب اجتھاد سے غلطی بھی ہو جائے تو اس کے لئے ایک نیکی ہے اور اگر وہ اجتھاد ٹھیک کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کے لئے دو نیکیاں ہیں۔ یہ حدیث پاک بھی اتحاد کا درس دیتی ہے کہ اگر علم و تحقیق کے بعد بصورت اجتھاد غلطی بھی کرتے ہو تو تب بھی نیکی ہے۔
تاریخ اسلام بھی اس امر پر شاہد ہے کہ آئمہ، محدثین، مفسرین، فقہاء میں اختلاف رہا لیکن اتحاد بھی تھا۔ دور صحابہ کو ہی دیکھ لیں کہ سینکڑوں مسائل پر صحابہ کرام علیھم الرضوان کا آپس میں علمی و تحقیقی اختلاف موجود تھا۔ آئمہ کے ادوار کو دیکھیں تو جن کو امام اعظم ابو حنیفہ کہا جاتا ہے ان کے اپنے شاگرد قاضی امام ابو یوسف تین چوتھائی مسائل و احکام میں امام صاحب کے ساتھ ہی اختلاف رکھتے ہیں لیکن وہ حنفیت سے خارج ہوتے ہیں نہ ہی امام صاحب ان کو اپنے درس سے نکلنے کا حکم دیتے ہیں، کیونکہ اختلاف تھا لیکن اتحاد کا دامن بھی ہاتھ میں تھا۔ آپ امام صاحب کے بعد باقی تین آئمہ کرام کو دیکھ لی، اگر اختلاف منع ہوتا، بلکہ اصول و قواعد میں اختلاف کرنا بھی منع ہوتا تو امام مالک، امام شافعی، امام احمد مجتہد اور امام کیسے بنتے؟؟ امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کا تو اصول و قواعد میں ہی اختلاف ہے اور اسی اختلاف کی بنیاد پر دونوں کے ہاں مختلف فیہ مسائل بیان ہوتے ہیں۔ بعض صورتوں میں شافعیہ کے ہاں احکام موجود ہیں کہ حنفی امام کے پیچھے نماز نہ ہو گی اور بعض صورتوں میں احناف کے ہاں حکم موجود ہے کہ ان کی شافعیہ کے پیچھے نماز نہ ہو گی۔ اس قدر شدید اختلاف کے باوجود بھی اتحاد قائم ہے اور کسی شافعی نے کسی حنفی پر یا کسی حنفی امام نے کسی شافعی فقیہ پر فتوی صادر نہ کیا۔ آپ امام احمد بن حنبل کی مثال لے لیں، وہ امام شافعی کے شاگر د ہیں لیکن اپنے ہی استاد امام شافعی سے اتنا اختلاف رکھتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں ایک نئے فقہی مذہب کے امام بنتے ہیں۔ آپ محدثین کی مثال میں امام بخاری اور امام مسلم کو لے لیں، امام مسلم امام بخاری کے شاگرد ہیں، لیکن اپنے ہی استاد سے (اور استاد بھی امام بخاری) سے حدیث کی روایت و درایت کے اصول و قواعد پر اختلاف کر لیتے ہیں اور اسی اختلاف کی بنیاد پر پوری صحیح مسلم شریف میں امام بخاری سے کوئی حدیث روایت نہیں فرماتے لیکن اس اختلاف کے باوجود کبھی امام بخاری پر کوئی فتویٰ نہیں دیتے بلکہ انہیں امام الحدیث تسلیم کرتے ہیں۔ آپ امام ابو حنیفہ اور ان کے بعد آنے والے امام الحدیث امام بخاری کے آپس میں بنیادی اختلاف کو لے لیں، امام ابو حنیفہ کے نذدیک ایمان قول اور اقرار کا نام ہے اور عمل ایمان کی تقویت کا باعث بنتا ہے جبکہ امام بخاری کے نذدیک ایمان قول اور عمل دونوں کا نام ہے، گویا کہ امام بخاری کے نذدیک اگر عمل نہ کیا جائے تو انسان کا ایمان ہی نہیں رہتا۔یہ اختلاف اس مثال سے اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نذدیک اگر ایک شخص جان بوجھ کر نماز ادا نہیں کرتا وہ تب بھی مسلمان ہی رہتا ہے لیکن گناہ گار ہو گا جبکہ امام بخاری کی ایمان کی تعریف کے مطابق اگر کوئی ایک نماز بھی قضا کر دے تو وہ مسلمان ہی نہ رہا اور اسے تجدید ایمان کرنا پڑے گی۔ اس قدر شدید اور بنیادی اختلاف کے باوجود امام بخاری کبھی امام ابو حنیفہ پر کوئی فتویٰ جاری نہیں کرتے بلکہ ان کی اور ان کے شاگردوں کی کتب سے استفادہ کرتے ہیں۔
اگر اختلاف نہ ہوتا تو اسلام کو جمود ہوتا، اور اگر اسلام کو جمود ہوتا تو (معاذ اللہ) اسلام صدیوں قبل ہی کالعدم ہو گیا ہوتا۔ یہ اختلاف کا حسن اور اختلاف کی رحمت ہی ہے جس نے مختلف علاقوں، تہذیبوں میں ان کی روایات کے مطابق احکام میں اختلاف کے ساتھ اسلام کو پروان چڑھایا۔ لیکن اس اختلاف کے ساتھ اللہ کریم کے حکم کے مطابق اتحاد بھی قائم رہا۔۔
دور حاضر میں بھی مسلم امہ اور خاص کر علماء کرام، مختلف مذاہب کے مفتیان کرام کو دوسرے مذہب و مسلک کے علماء کے علمی و تحقیقی اختلاف کی قدر کرنی چاہئے۔ اپنا فتوی دوسرے پر لاگو کرنے کی بجائے دوسرے کے مؤقف کی قدر کرنی چاہئے۔ آپ کی تحقیق، آپ کا فتوی آپ کو دوسرے مسلک کے امام کے پیچھے نماز کی اجازت نہیں دیتا تو آپ ادا نہ کریں لیکن بطریق آئمہ و فقہاء اتحاد کی رسی کو تو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اللہ و رسول نے ہمیں اتحاد کا حکم دیا ہے اور اختلاف کرنے کی اجازت دی ہے لیکن کہیں بھی ہمیں کسی کے خلاف ہونے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی مطلقا اتفاق کا حکم دیا۔۔۔
آپ علم و تحقیق کی روشنی میں اصول و قواعد، احکام و مسائل پر اختلاف کریں لیکن اس اختلاف کو عناد اور فرقہ واریت کی بنیاد نہ بنائیں۔ اختلاف کریں لیکن متحد رہیں۔ اختلاف کو بصورت اتحاد رحمت رہنے دیں امت کے لئے تفرقہ کی صورت میں زحمت نہ بنائیں۔ خدارا رسول اللہ کی امت کے ٹکڑے نہ کریں۔ آج صد کروڑ افسوس کہ رسول اللہ کی امت تعداد میں ڈیڑھ ارب ہو کر ڈیڑھ لاکھ سے بھی کم ہے۔
محمد احمد رضا ایڈووکیٹ۔
0334-5954794
ahmadraza.149@gmail.com
تاریخ اسلام بھی اس امر پر شاہد ہے کہ آئمہ، محدثین، مفسرین، فقہاء میں اختلاف رہا لیکن اتحاد بھی تھا۔ دور صحابہ کو ہی دیکھ لیں کہ سینکڑوں مسائل پر صحابہ کرام علیھم الرضوان کا آپس میں علمی و تحقیقی اختلاف موجود تھا۔ آئمہ کے ادوار کو دیکھیں تو جن کو امام اعظم ابو حنیفہ کہا جاتا ہے ان کے اپنے شاگرد قاضی امام ابو یوسف تین چوتھائی مسائل و احکام میں امام صاحب کے ساتھ ہی اختلاف رکھتے ہیں لیکن وہ حنفیت سے خارج ہوتے ہیں نہ ہی امام صاحب ان کو اپنے درس سے نکلنے کا حکم دیتے ہیں، کیونکہ اختلاف تھا لیکن اتحاد کا دامن بھی ہاتھ میں تھا۔ آپ امام صاحب کے بعد باقی تین آئمہ کرام کو دیکھ لی، اگر اختلاف منع ہوتا، بلکہ اصول و قواعد میں اختلاف کرنا بھی منع ہوتا تو امام مالک، امام شافعی، امام احمد مجتہد اور امام کیسے بنتے؟؟ امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کا تو اصول و قواعد میں ہی اختلاف ہے اور اسی اختلاف کی بنیاد پر دونوں کے ہاں مختلف فیہ مسائل بیان ہوتے ہیں۔ بعض صورتوں میں شافعیہ کے ہاں احکام موجود ہیں کہ حنفی امام کے پیچھے نماز نہ ہو گی اور بعض صورتوں میں احناف کے ہاں حکم موجود ہے کہ ان کی شافعیہ کے پیچھے نماز نہ ہو گی۔ اس قدر شدید اختلاف کے باوجود بھی اتحاد قائم ہے اور کسی شافعی نے کسی حنفی پر یا کسی حنفی امام نے کسی شافعی فقیہ پر فتوی صادر نہ کیا۔ آپ امام احمد بن حنبل کی مثال لے لیں، وہ امام شافعی کے شاگر د ہیں لیکن اپنے ہی استاد امام شافعی سے اتنا اختلاف رکھتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں ایک نئے فقہی مذہب کے امام بنتے ہیں۔ آپ محدثین کی مثال میں امام بخاری اور امام مسلم کو لے لیں، امام مسلم امام بخاری کے شاگرد ہیں، لیکن اپنے ہی استاد سے (اور استاد بھی امام بخاری) سے حدیث کی روایت و درایت کے اصول و قواعد پر اختلاف کر لیتے ہیں اور اسی اختلاف کی بنیاد پر پوری صحیح مسلم شریف میں امام بخاری سے کوئی حدیث روایت نہیں فرماتے لیکن اس اختلاف کے باوجود کبھی امام بخاری پر کوئی فتویٰ نہیں دیتے بلکہ انہیں امام الحدیث تسلیم کرتے ہیں۔ آپ امام ابو حنیفہ اور ان کے بعد آنے والے امام الحدیث امام بخاری کے آپس میں بنیادی اختلاف کو لے لیں، امام ابو حنیفہ کے نذدیک ایمان قول اور اقرار کا نام ہے اور عمل ایمان کی تقویت کا باعث بنتا ہے جبکہ امام بخاری کے نذدیک ایمان قول اور عمل دونوں کا نام ہے، گویا کہ امام بخاری کے نذدیک اگر عمل نہ کیا جائے تو انسان کا ایمان ہی نہیں رہتا۔یہ اختلاف اس مثال سے اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نذدیک اگر ایک شخص جان بوجھ کر نماز ادا نہیں کرتا وہ تب بھی مسلمان ہی رہتا ہے لیکن گناہ گار ہو گا جبکہ امام بخاری کی ایمان کی تعریف کے مطابق اگر کوئی ایک نماز بھی قضا کر دے تو وہ مسلمان ہی نہ رہا اور اسے تجدید ایمان کرنا پڑے گی۔ اس قدر شدید اور بنیادی اختلاف کے باوجود امام بخاری کبھی امام ابو حنیفہ پر کوئی فتویٰ جاری نہیں کرتے بلکہ ان کی اور ان کے شاگردوں کی کتب سے استفادہ کرتے ہیں۔
اگر اختلاف نہ ہوتا تو اسلام کو جمود ہوتا، اور اگر اسلام کو جمود ہوتا تو (معاذ اللہ) اسلام صدیوں قبل ہی کالعدم ہو گیا ہوتا۔ یہ اختلاف کا حسن اور اختلاف کی رحمت ہی ہے جس نے مختلف علاقوں، تہذیبوں میں ان کی روایات کے مطابق احکام میں اختلاف کے ساتھ اسلام کو پروان چڑھایا۔ لیکن اس اختلاف کے ساتھ اللہ کریم کے حکم کے مطابق اتحاد بھی قائم رہا۔۔
دور حاضر میں بھی مسلم امہ اور خاص کر علماء کرام، مختلف مذاہب کے مفتیان کرام کو دوسرے مذہب و مسلک کے علماء کے علمی و تحقیقی اختلاف کی قدر کرنی چاہئے۔ اپنا فتوی دوسرے پر لاگو کرنے کی بجائے دوسرے کے مؤقف کی قدر کرنی چاہئے۔ آپ کی تحقیق، آپ کا فتوی آپ کو دوسرے مسلک کے امام کے پیچھے نماز کی اجازت نہیں دیتا تو آپ ادا نہ کریں لیکن بطریق آئمہ و فقہاء اتحاد کی رسی کو تو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اللہ و رسول نے ہمیں اتحاد کا حکم دیا ہے اور اختلاف کرنے کی اجازت دی ہے لیکن کہیں بھی ہمیں کسی کے خلاف ہونے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی مطلقا اتفاق کا حکم دیا۔۔۔
آپ علم و تحقیق کی روشنی میں اصول و قواعد، احکام و مسائل پر اختلاف کریں لیکن اس اختلاف کو عناد اور فرقہ واریت کی بنیاد نہ بنائیں۔ اختلاف کریں لیکن متحد رہیں۔ اختلاف کو بصورت اتحاد رحمت رہنے دیں امت کے لئے تفرقہ کی صورت میں زحمت نہ بنائیں۔ خدارا رسول اللہ کی امت کے ٹکڑے نہ کریں۔ آج صد کروڑ افسوس کہ رسول اللہ کی امت تعداد میں ڈیڑھ ارب ہو کر ڈیڑھ لاکھ سے بھی کم ہے۔
محمد احمد رضا ایڈووکیٹ۔
0334-5954794
ahmadraza.149@gmail.com