اتفاقِ رائے

نوید ناظم

محفلین
جس طرح یہ ممکن نہیں کہ سب کے چہرے ایک جیسے ہو جائیں اُسی طرح سب کی رائے کا ایک ہو جانا بھی ممکن نہیں۔ ہر رائے سے اتفاقِ رائے ضروری ہے اور نہ قدرت کا مدعا یہ ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو رنگ رنگ کے رنگ بے رنگ ہو کے رہ جائیں۔ ہر وجود ایک جمود کا شکار ہونے لگ جائے۔ جس طرح حرکت کے نہ ہونے سے زندگی رک جاتی ہے ویسے ہی اختلاف کے نہ ہونے سے بات رک جاتی ہے، اختلافِ رائے کے سبب ایک بات کے کئی پہلو نکل آتے ہیں، اس لیے جاننے والوں کا اختلاف علم کے اندر سے علوم نکالتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ ہر بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، غلط اور صحیح کی بحث ںہیں ہے بلکہ بات محض اختلاف اور اتفاقِ رائے کی ہو رہی ہے۔
علم اختلاف سے خائف نہیں ہوتا جس طرح کہ حق، باطل سے خوف زدہ نہیں ہوا کرتا۔ حق کے آنے سے باطل مٹ جاتا ہے اور علم کے آنے سے اختلاف ختم ہو جاتا ہے۔ جب بندہ بات کے باطن تک پہنچ جائے تو پھر اختلاف جاتا رہتا ہے کیونکہ تب معلوم پڑتا ہے کہ بات سے بات ہمیشہ نکلتی رہتی ہے اور یوں علم کے نئے در وا ہوتے رہتے ہیں۔
جس طرح ہم اپنے ذہن سے سوچتے ہیں اُسی طرح دوسرا اپنے ذہن سے سوچتا ہے لہذا یہ خواہش کہ ہماری ہر بات سے اتفاق کیا جائے خواہشِ دیرینہ تو ہے مگر ایک ناتمام خواہش بھی ہے ۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ ایک گرو نے اپنے چیلے کو خط لکھا کہ بیٹا پیغمبری کی خواہش کبھی نہ کرنا تو چیلے نے پوچھا کہ حضور وہ کیسے؟ جواب ملا کہ ہر بات پر ہر کسی سے اتفاقِ رائے نہ چاہنا۔ اصل میں پیغمبر کی بات ہی وہ بات ہے کہ جس سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، پیغمبر کا ہر حرف، حرفِ آخر ہے۔ جو بات اللہ اور اس کا رسول فرما دیں وہ حتمی ہے۔ ابلیس نے اللہ کی ایک بات سے اختلاف کیا اور ہمیشہ کے لیے شیطان ہو گیا۔ مگر انسان کو حق ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کی رائے سے اتفاق کرے یا پھر اختلاف۔ بندوں کو بندوق کی نوک پر بندگی نہیں سکھائی جا سکتی۔۔۔۔ جب بندہ دل تک رسائی حاصل کر لیتا تو بات خود دل میں اُترنا شروع ہو جاتی ہے۔ جہاں محبت ہو وہاں اختلاف نہیں رہتا، محبوب کا اختلاف ایک ادا کی حثیت اختیار کر لیتا ہے اور یوں اس کا ستم بھی کرم کی طرح پُر لطف ہو جاتا ہے اور اتفاقِ رائے قائم ہو جاتا ہے۔
لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح اپنی بھوک اپنی ہوتی ہے، اپنی نیند اپنی ہوتی ہے، اسی طرح اپنی محبت بھی صرف اپنی ہوتی ہے۔ اس لیے ایک انسان کسی دوسرے انسان کو یہ مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ اس کے باپ سے ویسے محبت کرے جیسے وہ خود کرتا ہے۔ باپ کا احترام ایک جیسا ہو سکتا ہے، مگر باپ ایک نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہر کوئی ہر کسی سے اتفاق کر سکتا ہے نہ اختلاف۔
دراصل صرف ایک بات ایسی ہے جو ہم سب کر رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم سب زندگی گزار رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں مل کر زندگی گزارنی چاہیے۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ جدائی کا وقت قریب آ جائے۔
 
آخری تدوین:
Top