اتنا سا کام تھا اور تمہارے نخرے ختم نہیں ہو رہے تھے

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یار اکیڈمی کے میٹر کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ اس کی جو مین لائن آ رہی ہے بجلی کی وہ کسی وقت اچانک سپارکنگ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے لائیٹ کم زیادہ ہوتی ہے اور کبھی کبھی بجلی بھی بند ہو جاتی ہے یار اس کا کوئی حل تو نکال کر دو۔​
"کوئی مسئلہ نہیں خرم صاحب جب آپ کہیں گے کر وا دوں گا، میرا ایک دوست ہے واپڈا میں"​
"بہت شکریہ یار جلدی کروا دینا کہیں کوئی سسٹم ہی خراب نا ہو جائے، ویسے بھی آج کل حالات بہت بُرے چل رہے ہیں، کسی طرح کا نقصان برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں"​
" کوئی بات نہیں خرم صاحب کل صبح تک کروا دوں گا"​
"بہت شکریہ"​
کچھ دن بعد ایک اور جاننے والے آئے ۔ ان کے سامنے بھی اچانک یہی مسئلہ ہو گیا۔ وہ بھی بجلی کا کام جانتے تھے کہنے لگے۔​
"یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں میں ابھی ٹھیک کر دیتا ہوں"​
میں نے کہا" اگر کر دیں گے تو بڑی مہربانی ہوگی"​
اس وقت بچوں کی کلاس چل رہی تھی بچوں کو دیکھ کر بولے "میں ابھی کر تو دوں لیکن سسٹم بند ہونے کا ڈر ہے ایسا نا ہو سارے کمپیوٹر آف ہو جائے۔ چلیں کل صبح کر دوں گا"​
میں نے اسرار نہیں کیا اور کل تک کا انتظار کرنے لگا۔ دو دن گزرے کل نہیں آئی اور پھر اچانک مسئلہ شروع ہو گیا۔ پہلے تو یوں ہوتا تھا کہ تین چار منٹ کے لیے مسئلہ کرتا اور پھر ٹھیک ہو جاتا لیکن کل سے تو مسلسل کر رہا تھا اس لیے میں ڈر رہا تھا کہیں کچھ بڑی خرابی نا ہو جائے۔ اس لیے میں نے پہلے ایک کو فون کیا اور پھر دوسرے کو فون کیا اور دونوں نے شام کو آنے کا وعدہ کر لیا۔ لیکن شام نہیں آئی۔ ایک بار پھر فون کیا تو دونوں کا ایک ہی جواب ملا کہ بہت مصروف تھے صبح آ جائے گے۔ میں نے سوچا کام کیا پڑ گیا ہے کہ اب منہ بھی نہیں دیکھاتے۔ حالانکہ انہوں نے خود ہی آفر کی تھی۔​
"اللہ کا نام لینے کے بعد ایک ٹیسٹر، پیچ کس، پلاس ، ایک سٹول اور ایک لکڑی کا پیس لیا اور خود میٹر کے پاس پہنچ گیا۔ پہلے سوچا مین سوئچ آف کر دوں پھر خیال آیا میٹر کے بعد والی بجلی مین سوئچ تک جاتی ہے اس سے پہلے والی بجلی تو ڈریکٹ ہی ہوتی ہے۔ خیر سٹول کو میٹر کے سامنے رکھا اس پر کھڑا ہو کر میٹر کے برابر پہنچ گیا۔ پہلے سپارکنگ کی جگہ تلاش کرنے لگا، کچھ مشکل پیش نا آئی کیونکہ بالکل سامنے ہی تھی۔ پھر سپارکنگ کی وجہ تلاش کرنے لگا تو کچھ سمجھ نا آئی۔ تار کوہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈر لگ رہا تھا لیکن اللہ کا نام لیا اور جو لکڑی لایا تھا اس کے مدد سے اس کو حرکت دی تو سپارکنگ زیادہ ہوگی۔ میں نے پھر پلاس کی مدد سے تار کو پکڑ کر میٹر کی طرف زور لگایا اور ٹیسٹر کی مدد سے میٹر کے اندر لگا ہوا پیچ گومانے لگا۔ ٹیسٹر چھوٹا تھا اس لیے ایک دو دفعہ گومنے کے بعد رک گیا۔ میں نے پھر پیچ کس کی مدد سے اس کو اور گومایا تو پھر ایک دو چکر کے بعد وہ بھی رک گیا ۔ اس کے ساتھ ہی سپارکنگ بھی رک گئی۔ پھر تار کو تین چار دفعہ حرکت دی لیکن اب کسی طرح کی سپارکنگ نہیں ہو رہی تھی۔​
وجہ کچھ یوں ہوئی کہ میٹر کے اندر جو تار جا رہی تھی اس کا پیچ لوز تھا بس اس کو ٹائیٹ کرنا تھا۔ جب اس کو ٹائیٹ کر لیاتو مسئلہ حل ہو گیا۔ یہ سچ ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مجبور لوگوں کو اپنا احسان مند کرنے کے لیے اپنی مصروفیات کا رونا رونہ زیادہ ضروری ہے۔​
اس کے بعد میں نے دونوں کو فون کیا اور کچھ یوں بتایا۔​
"یار مسئلہ زیادہ ہو گیا تھا ، میں نے واپڈا کے لائن مین کو فون کیا اور اس کو چائے بھی پلائی اس کے ساتھ دو سو روپے بھی دے اور مسئلہ حل کروا لیا ہے"​
اس پر دونوں چلا کر بولے " یار ایک پیچ ٹائیٹ کرنا تھا اور تم نے دو سو روپے دے دیے"​
اور میں نے بھی دونوں کو ایک ہی جواب دیا " اتنا سا کام تھا اور تمہارے نخرے ختم نہیں ہو رہے تھے"​
 

عینی شاہ

محفلین
خرم بھائی آپ نے بلکل ٹھیک کیا ایسے کو تیسا اورپھر جیسا ویسا کر دیا :p ویسے ہر جگہ یہی حال ہے ۔اور یہ جو الیکٹریشن یا پلمبرز وغیرہ ہوتے ہیں نا انکے نخرے ویسے بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم بھائی آپ نے بلکل ٹھیک کیا ایسے کو تیسا اورپھر جیسا ویسا کر دیا :p ویسے ہر جگہ یہی حال ہے ۔اور یہ جو الیکٹریشن یا پلمبرز وغیرہ ہوتے ہیں نا انکے نخرے ویسے بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔
آپ کی بات تو ٹھیک ہے عینی بہنا لیکن میں نے ان کو یہ تو نہیں کہا تھا میرا مسئلہ حل کریں انہوں نے خود کہا تھا کہ وہ میرا مسئلہ حل کریں گے
 

سید ذیشان

محفلین
میں ہزار بارہ سو بھی بتا سکتا تھا۔ لیکن وہ میرے حالات جانتے ہیں:p

چلو اچھا ہے کام تو بن گیا۔ لیکن بجلی کے کاموں میں بہتر یہی ہے کہ احتیاط برتی جائے۔ ہزار بارہ سو بھی لگ جاتے تو کوئی بات نہیں تھی، جان سے زیادہ قیمتی تو نہیں ہیں نا یہ پیسے۔ :)
 

عینی شاہ

محفلین
آپ کی بات تو ٹھیک ہے عینی بہنا لیکن میں نے ان کو یہ تو نہیں کہا تھا میرا مسئلہ حل کریں انہوں نے خود کہا تھا کہ وہ میرا مسئلہ حل کریں گے
جی بلکل پھر بھگتا نا انھوں نے چائے بھی گئی اور پیسے بھی نہ میلے ۔۔افیشینسی دکھائی نا انھوں نے :p
 

تلمیذ

لائبریرین
چلو اچھا ہے کام تو بن گیا۔ لیکن بجلی کے کاموں میں بہتر یہی ہے کہ احتیاط برتی جائے۔ ہزار بارہ سو بھی لگ جاتے تو کوئی بات نہیں تھی، جان سے زیادہ قیمتی تو نہیں ہیں نا یہ پیسے۔ :)

ذیشان کے مراسلے کی تائید کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ بجلی ایسی بلا ہے کہ اگر وافرتکنیکی معلومات نہ ہوں تو اس قسم کی ایڈونچر، خدا نہ کرے، بے حد نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہےؕ آپ نے وہ لطیفہ تو سنا ہوگا کہ ایک مکینک اپنے شاگرد کے ہمراہ بجلی کی کرنٹ کی موجودگی میں دو تاروں کے ساتھ کام کررہا تھا ، اس کوتاروں کی فعالیت کے بارے میں شک تھا کہ کون سی گرم (فعال) ہے اور کون سی ٹھنڈی (غیر فعال)۔ اس نے ذار دور اپنےشاگر د، جس کے قریب تاروں کا کچھ حصہ ننگا تھا، کو آوازدی کہ اوچھوٹے، ذرا ایک تار کو ہاتھ لگا کے بتانا آیاگرم ہے یا ٹھنڈی؟ نوآموز شاگرد نے فورا ایک تارکو ہاتھ لگا کربلند آواز سےکہا۔ 'ٹھنڈی ہے استاد جی'۔ مکینک نے فورا کہا ' ٹھیک ہے، اب دوسری کو ہاتھ نہ لگانا ،یہ گرم ہے' (یعنی اگر وہ پہلے دوسری تار کو ہاتھ لگا لیتا تو یہ گرم ہوتی۔)تو کسی ہنر کے بارے میں کم علم لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے۔
اللہ تعالی سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔آمین!
 

شمشاد

لائبریرین
آپ سب کے مشورے خلوص نیت پر مبنی ہیں۔ لیکن بندے کو اتنا تو علم ہونا چاہیے کہ بلب کیسے لگانا ہے، فیوز کیسے لگانا ہے، یہ چھوٹے موٹے کام تو بندہ راہ چلتے سیکھ لیتا ہے۔
 
خوب جلایا ان کو آپ نے خرم بھائی:notworthy:
لیکن میں یہاں تلمیذ انکل اور زیشان بھائی کی تائید کروں گا(y)
جب تک مناسب تکنیکی معلومات نہ ہوں بندے کو ایسے ایڈونچرز سے پرہیز کرنا چاہیے:nerd:
 
آپ سب کے مشورے خلوص نیت پر مبنی ہیں۔ لیکن بندے کو اتنا تو علم ہونا چاہیے کہ بلب کیسے لگانا ہے، فیوز کیسے لگانا ہے، یہ چھوٹے موٹے کام تو بندہ راہ چلتے سیکھ لیتا ہے۔
درست(y)(y)
پر اس طرح کے کاموں میں "کامن سینس" کا استعمال ضروری ہے:rolleyes:
اور وہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ "کامن سینس از اے سینس وچ از ناٹ ویری کامن":p
 

محمداحمد

لائبریرین
ٹھیک ہی کیا خرم بھائی آپ نے۔

اس سے بچپن میں سنی وہ کہانی یاد آگئ جس میں چڑیا کے بچوں نے چڑیا کو بتایا کہ آج گھر کا مالک کہہ رہا تھا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کل اس درخت کو کاٹ دوں گا جس پر ہمارا گھونسلہ ہے۔ چڑیا نے کہا۔ کوئی بات نہیں۔ پھر دوسرے دن اُسے بتایا گیا کہ گھر کے مالک نے کہا ہے کہ وہ کل اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر اس درخت کو کاٹ دے گا۔ چڑیا کا جواب آج بھی کل والا ہی تھا۔ تیسرے دن چڑیا کے بچوں نے بتایا کہ آج گھر کا مالک کہہ رہا تھا کہ اب وہ خود ہی یہ درخت کاٹ دے گا۔ یہ سن کرچڑیا نے کہا کہ اب ہمیں گھر بدل لینا چاہیے کل ضرور یہ درخت کٹ جائے گا۔
 
Top