اتنا عظیم ہوجا کہ منزل تجھے پکارے ۔۔۔۔۔!

نور وجدان

لائبریرین

میرا عشق گستاخانہ
میرا جسم ضوخانہ
میرا دل ہے میخانہ
جل کر بھسم ہونا
آگ سے تن سلگانہ
میری آنکھ میں وضو
مل گیا ہدایت نامہ
کروں شکوہ ملحدانہ
تری نظر ہے کریمانہ
منظور جل کے مرجانا
اے میرے کبریاء جاناں
اب تو بنادے دل میخانہ
شروع ہوا ہےمسیحانہ
نظر ِ کرم ہو ہو تجلیانہ
اے جان !میری جانِ جاناں
عشق سے گستاخی ہوگئ اور شرم سے سر جھک گیا۔ عشق نے ہجر سے وصل کی خاطر تن میں آگ جلا لی ۔ آگ ایسی جلی کہ پورے بدن کو جلا کر راکھ کر دیا۔ اور عشق سے توقع کیا ہو۔ جیسے لکڑی کی راکھ بچے ، کچھ عشق کی بربادی نے کچھ نہ چھوڑا۔ سب کچھ ختم ہوگیا۔ عشق کو حجاب نہ آیا اور گستاخ عشق نے نین سے نین ملا کر رقص کی بازی شروع کردی ۔ عشق بھڑکا کہ شعلہ کوندھا ۔ سب کچھ بھسم کر کے لے گیا ۔

سوال یہ ہے کہ عشق گستاخ کیوں ہوتا ہے ؟ کچھ ایسا درجہ عشق کو محب کی نگاہ میں حاصل ہو جاتا ہے کہ سب بے حجاب ہوجاتا ہے ، سارے نقاب اتر جانے کے بعد عشق کو خود پر قابو نہیں رہتا اور وہ رقص کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ ایک دن میں نے عشق سے پوچھا۔:

اے عشق ! اتنا تو بے قابو کر دیا ہے ۔۔!
اب ہوش میں کیوں رکھتے ہو۔۔؟
میخانہ کو پیمانہ میں کیوں بدلتے ہو۔
عشق ہوتا ہے نا گستاخ ۔۔۔
کر دی گستاخی ۔۔۔!

عشق بولا۔۔۔۔۔ میخانہ ہی پیمانہ اور پیمانہ میخانہ
فرق نہ جان تو دیوانے کا دیوانہ
مان جا تو اب! تیرا دل اب فقیرانہ
پی ، پی کر بھی ترا دل ہے کیا ویرانہ ۔۔!!
اس کی مستی کے آگے جواب کیا ۔۔۔؟ عشق تو وہ انتہا ہے ، جس کی انتہا ہی نہیں ۔ یہ وہ جگہ ہے جس کو کوئی پہنچ جائے تو مقام اس کا کبھی گرتا نہیں ہے ، اب مسئلہ یہ ہے محبت عشق کا درجہ حاصل کیسے کرے ، محبت کی قربانی اسے عشق کے درجے تک پہنچا دیتی ہے ۔ دل تو سوچ میں پڑ گیا کہ عشق کے درجہ تک کیسے پہنچا جائے ۔ عشق کا درجہ آسانی سے کہاں ملتا ہے کہ اس درجہ کو ''معراج'' والا جان سکتا ہے ۔

اے ذی وقار !
دونوں جہاں کے ابرار۔۔۔!
غارِ ثور سے لے کر تخت عرش کا سفر ! ہم اس سفر کی حکمتوں سے دور ہیں ۔۔ لاعلم کیوں ہیں ؟ لوگ جانے کیا کیا کہتے ہیں اس معراج کے بارے میں ۔۔۔۔! لوگوں کی چھوڑئے ۔۔ اے میرے محترم۔۔۔! عالم لوگ ہم سب کو گمراہ کیے دیتے ہوئے وصالِ یار کو ''مجاز حقیقتوں ''سے تشبیہ دے کر مسلک بنائے دیتے ہیں ۔۔ ایک '' مولانا'' اپنے مسلک کی حفاظت کے لیے ''دوسرے'' پر کیچڑ اچھالنے کے لیے ایسی ''لایعنی'' باتوں کو پھیلاتے ہیں ۔۔۔ میں نے جب یہ سب سنا تو میرے دل میں سوال پیدا ہوا۔۔۔ ''اگر یہ عالمِ دین ہیں تو دنیا کہاں جائے گی ، کیا سوچے گی ۔۔۔۔؟ بس ''تفرقانہ'' بڑھے گا۔۔۔ قتلِ عام بڑھے گا ۔۔ ہوتا تو یہی ہے نا۔۔۔!

ایک دن میں نے سوچا کہ سلمان رشدی کی کتاب ''satanic verse '' پڑھوں اور اس کو پڑھنا ہی شروع کیا کہ فتوٰی لگ گیا کہ اس کو پڑھنے والا '' کافر '' ۔۔ ۔! کافر کون رہنا پسند کرتا ہے ، اس لیے میں نے اس کو چھوڑ دیا مگر آج سوچ رہی ہوں کہ پڑھ لیتی ۔۔۔ علم کا ایک دروازہ بند کر دیا۔۔۔۔ مجھے گستاخیوں کا شوق نہیں ۔۔۔ اے میرے حبیب ! مگر جو گستاخی کرتے ہیں ان کی باتوں سے حوالے لے کر سوچ لیتی کہ 'انسان'' گستاخ '' کیوں ہوتا ہے اور اس کی گستاخی کے بارے میں اگر کوئی تعریفی کلمات کہے ، لکھاری کی مدح سرائی کرے اور ''توہینِ رسالت ﷺ '' پر لکھی گئی بک کو '' نابل پرائز'' ملے تو لوگ تو اس کے متوالے ہوں گے نا۔۔! ان کی باتوں پر جذبات میں آکر میں جواب دوں گی تو وہ کہیں گے میں ''لغو'' بول رہی ۔۔۔ کیا ہم سب کا فرض نہیں ہے کہ سب مل کر علم کو اتنا پھیلا دیں کہ روشنی سے روشنی نکل کر اندھیروں کو مٹادے ۔۔۔!!! اس کے لیے ہم '' کفر '' کا مطالعہ ''ردِ کفر '' کے لیے کرنا ہوگا۔۔ !!!

سنو۔۔۔!
اے خاک۔۔۔!
مطالعہ کے لیے اور غور کے لیے دنیا کو وسعت دی گئ ہے مگر لوگ اس کو '' کم کم '' سمجھتے ہیں ۔ یہی بات تو قرانِ پاک میں بیان کی گئی کہ آنکھیں کھول اپنی ۔۔۔۔۔۔ فلک کی طرف دیکھ ۔۔ زمین پر قبر کو دیکھ ۔۔۔ بہتے دریا کی طغیانی دیکھ اور موجوں کی سمندر میں روانی دیکھ ، خاک سے نکلتا انسان دیکھ ۔۔۔۔ زمین سے نکلی ''حیات '' دیکھ ۔۔۔ اس کا مطالعہ پورا کرنا تو فرض ہے اور اس کی ادائیگی کے بعد دنیا کے علوم پڑھ ۔۔۔ اس لیے تو ''اقرا'' کا امر ہوا۔۔ اس کو پڑھ ۔۔ پہلے اس کو تو پڑھ۔۔۔!
اے خاک ۔۔!
راسخ العقیدہ رہ۔۔۔!
جب تیرا شجر مضبوط و تناور ہوجائے گا۔۔
پھر ان سب کا مطالعہ کر۔۔۔۔
کہ مطالعہ کے لیے تو تجھے پیدا کیا ۔۔۔
تجھے اشرف کیا گیا ۔۔۔
''مشرفی '' کی بنیاد ''علم '' ہے۔۔۔
اے خاک۔۔!

دنیا والے دنیا کو تلاشتے رہ جائیں گے ۔۔۔! اور آخرت کے متوالے قرانِ پاک سے نشانیاں ڈھونڈ لیں گے ۔۔۔ اس کی وسعت تو ایک 'بحر بیکراں '' کے سینے میں سمائی کہ جس کے لیے ارشاد ہوا۔۔۔

رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ۔ وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي۔ يَفْقَهُوا قَوْلِي۔
''اے میرے رب میرا سینہ کھول دے ۔ اورمیرا کام آسان کر ۔ اور میری زبان سے گرہ کھول دے۔ کہ میری بات سمجھ لیں''

جس کے اندر میرا '' کلام '' سما جائے ۔۔۔ اس کی حیثیت و مقام کا تعین دنیا والوں کے بس کی بات نہیں ۔۔۔۔!
دنیا والے ''سنت '' کی بات کرتے ہیں ۔۔۔!
دنیا والے''حدیث'' کی بات کرتے ہیں ۔۔۔!
حدیث کیا ہے ۔۔۔؟ جو اتنا شور مچا کر رکھا ہے ۔۔۔۔ !
سنت کیا ہے۔۔۔؟ کیوں اتنا شور مچا کر رکھا ہے۔۔۔۔!
دونوں کو ملا دو۔۔۔
جب دونوں ملیں گے ۔۔۔۔ !​
ان کے '' ملنے'' سے ''راستہ'' سیدھا میرا محبوبﷺ کو جائے گا۔ اور''عملی قران '' کی جامہ تصویر کو '' کلام الہی '' سے ملا دو۔۔ جب سب مربوط ہوجائے گا ۔۔۔
اے خاک۔۔!
کوئی رہے گا تب کافر۔۔۔؟
کیا نہ ہوں گے سب مومن۔۔۔؟​

اے مالکِ دو جہاں ۔۔!

کیسے ہوگا یہ کام۔۔۔؟ کون کرے گا یہ سب۔۔۔۔؟ کس کے پاس اتنا حوصلہ کہ وہ تفریق کو ختم کردے ۔۔ ذات و پات کا رنگ اور تفریق مٹادے ۔۔۔ ؟
مجبور ہوں سوال سے۔۔۔۔۔!
گستاخی کی مرتکب ۔۔۔!
کس سے کروں سوال پھر۔۔۔؟
کون دے گا جواب پھر۔۔۔۔؟
ارے میرے بندیا۔۔۔!

'' سوال و جواب '' کی چھوڑ ۔۔
محبت کر۔۔۔!
دعا مانگ۔۔!
''شرحیں '' خود ہی کھل جاتی ہیں ۔۔۔!
سوال نہیں رہیں گے ۔۔۔!
جواب ہی جواب ہوں گے ۔۔!​


اب کہ دل نے ٹھان لی ہے کہ اب تو آگے جانا ہے کہ اب پیچھے رہنا نہیں ہے ، بہت وقت کھو چکا ہے ۔۔ زندگی کا قیمتی وقت سب نے گستاخیوں میں ضائع کر دیا ہے ۔۔۔ محبت کیسے ہو گی ۔۔۔؟ ادب سے ۔۔! ادب ہی تو پہلی سیڑھی ہے جس سے علم کا دروازہ کھلتا ہے ۔ اس علم کی وجہ سے ''بدر'' کے قیدی آزاد ہوئے کہ وہ غلام جو علم میں فوقیت رکھتے ہیں وہ علم سکھا دیں ۔۔۔ مگر کوئی ادب کرتا ہی نہیں ہے ۔۔۔ کوئی اس کی طرف جاتا ہی نہیں ہیں ۔۔۔ کوئی طلب کی جستجو رکھے تو عطا بھی ہو۔ سیدھے اور سچے راستے کی سڑک پر کوئی کھڑا ہی نہیں ہے ، سب نے اپنی اپنی سڑک بنا لی ہے ۔۔ طلب کے دروازے۔۔۔۔، اور مجسم سب نے اپنے اپنے بنالیے ہیں ۔۔ دل جب صنم خانہ بن جائے تو کون بندگی کرے گا؟ بندگی کرتے نہیں اور مانگتے ہو دنیا کو اپنے لیے ۔۔ اپنی اپنی چاہتوں کو اپنا ایمان و قبلہ بنا کر جستجو کی طلب کرنا کیسا ۔۔۔!

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے کوئی راہرہ منزل ہی نہیں


عشق کا پہلا مقام ادب ہے ۔۔ جو ''ادب'' کرنا سیکھ جائیں گے وہی عشق کی طرف جائیں گے ۔۔۔ ادب سے محبتیں فروغ ہوتیں اور محبتوں کی انتہا۔۔۔ عشق ۔۔! اور عشق کیا ہے۔۔! عشق کبھی گستاخ نہیں ہوتا۔۔۔ ! یہ وہ سمندر ہے ، جس کی مٹھاس ادب کے جھرنوں سے محبت کے دریاؤں میں پھیلتی ہے اور محبت کی نرم نرم پھواریں سمندر میں لا کر پھینک دیتی ہیں ۔۔۔ ! سمندر کی موجیں مضطرب رہتی ہیں اور ان کا ''جلال '' سمندر کا وسعت میں '' جمال '' بن جاتا ہے ۔ عشق میں انسان کو دونوں کو وصول کرنا پڑتا ہے ۔ مگر محبت کوئی کرے تو۔۔۔! کوئی ادب کرے تو۔۔ جو عشق کرتے ہیں ۔۔ سوال گستاخ ہونے کے بجائے معصومانہ ہوجاتے ہیں ۔۔۔ ایسی گستاخیوں پر پیار آجاتا ہے

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔۔!
پھر بزم میں راز کی بات کہ دی۔۔!
بڑا بےادب ہو سزا چاہتا ہوں ۔۔!
انسان کو منزلیں پانے کے لیے مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور ان مراحل سے گزرنا آسان کام کہا۔۔ اور خاکی مقید جب محبت کی لپیٹ میں آجاتا ہے ۔ تب تن کی نفی کا کلمہ شروع ہوتا ہے ،د ل کی زمین ہریالی ہوجاتی ہے ۔ اس میں پھولوں کی مہک سے پورا تن مہک اٹھتا ہے ۔۔ ایسی محبت تو خالق اپنے بندوں سے چاہتا ہے ۔ جب وہ محبت کرتے ہیں تو ان کو انعامات سے نوازتا ہے ۔ محبت میں انسان کی اپنی خواہش ختم ہوجاتی ہے اور عشق میں عاشق کی چاہت کے سوا کچھ رہتا نہیں ہے ۔ محبت اور عشق میں فرق کی دیوار ''ذات کی خواہش کی نفی '' ہے ۔ ذات کی مکمل نفی ''اثبات'' کے نغمے کو جنم دیتی ہے اور یہ نغمہ صدا گونجتا رہتا ہے ۔

محبت ، اے محبت ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
وجود کی نفی کر دے
اے محبت!سب کچھ ختم کردے
مٹادے! وجود کی خاک سے
سب نقش مادیت کے
مگر مادیت کو رہنے دے
اس طرح کہ۔۔۔۔۔۔!
دل اور روح اس مادے کے اندر
یکجا رہیں
جیسے پارہ اندر پیمانہ کے ۔۔!
ہستی جل رہی ہے کاغذ کے کالک سیاہی بن کر اڑ جائے گی ، اس سیاہی میں چھپی "ضو" جگہ جگہ پہنچے گی ۔ دل کا مادہ جتنا پگھل پگھل کر پیمانے میں پارہ کی طرح ٹوٹ کر بکھرا گا ۔ اسکی گرمائش جہاں کے سرد خانوں کو روشن و گرم ، تازہ کر دے گا۔ محبت جب یہ کام کر چکے گی تو عشق کا '' عین'' پالے گی ۔ ہر بڑا کام قربانی مانگتا ہے ۔دل سے تاریکی کے سارے پردے اٹھتے جا رہے ہیں ، جب عشق کی داستان اور قربانی کی بات سن لی تو سوچا۔۔۔

دنیا میں سب سچا ہے
دنیا میں یہ وجود مایا
اس مایا نے کیا پانا
اگر جاں دے نہ نذرانہ
اور چھلکے نہ میخانہ ۔
میخانہ چھلکنے کو بے تاب ہے مگر وہ مقام پہنچا کہاں کہ چھلکے جام اور بکھر کر بھی بکھرے نا۔!!! حقایت عشق و محبت کو بیان کرنے کے لئے لفظ تھوڑے پڑ جاتے پیں۔ بس کچھ یاد رہتا ہے تو ۔۔۔۔۔

والیل ترے سایہ گیسو کا تراشا
والعصر تری نیم نگاہی کی ادا ہے
سورج کی دن سے رخصتی بھی محبت میں ہوتی ہے اور رات کو حجاب عشق کے سارے نقاب ، بے نقاب ہو کر بھی پوشیدگی میں رہتے ہیں ۔ محبت و عشق میں کی دنیا باندھی و لونڈی ہوتی ہے ۔ اس کو اشارہ کرو ، یہ کبھی پاس بھی نہ پھٹکے گی ۔۔۔۔ ! اشاروں اور کنایوں کی گفتگو سورج و چاند ، دن اور رات سمجھنے لگتے ہیں ۔۔ تب محبوب کے لیے تشبیہات و استعارے شروع ہوجاتے ہیں ، اس کی گھنیری زلفوں کی شان کو بیان کرنے کے لیے رات کا حسن تھوڑا پڑ جاتا ہے ، اس کی نیم وا مست نگاہی مدہوش کرنے کا اختیار رکھتی ہے ، جیسے دنیا میں روشنی کا احساس باقی ہو ، عشق کا نشاط باقی ہو ، درد کا خمار باقی ہو اور باقی اگر کچھ ہو نہ ہو تو وہ اپنی ذات نہ باقی ہو،۔۔۔!!

اس سفر کی جستجو ہے
بلبل بھی تو خوش گلو ہے
جس سفر میں وہ روبرو ہے
اس کی دید کی طلب میں
اکھیاں میری باوضو ہیں ۔
اب تو جنون کی حقایت میں
پھیلنی چار سو یہ خوشبو ہے
اس طرح سے مجھے پھونک دے
اے میرے عشق !
گل گل کو ملے میری خوشبو
رنگ رنگ نکھرے اس ضو سے
پراوانے کو بس شمع کی آرزو
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
بلاشبہ اک خوبصورت پیرائے میں آگہی کے پیغام کو عام کرتی تحریر
املاء پر ذرا سی توجہ ۔۔۔۔قاری کو بھٹکنے سے محفوظ رکھتی
بہت دعائیں
 

نور وجدان

لائبریرین
بلاشبہ اک خوبصورت پیرائے میں آگہی کے پیغام کو عام کرتی تحریر
املاء پر ذرا سی توجہ ۔۔۔۔قاری کو بھٹکنے سے محفوظ رکھتی
بہت دعائیں
بہت شکریہ ۔۔۔۔۔ !
محترم !
بہت شکریہ ۔۔ بتانے کا۔۔۔ انشاء اللہ بفضل اللہ کے املاء کو غور سے دیکھا کروں گی ۔
 

بزم خیال

محفلین
ایک لازوال حقیقت ۔۔۔عشق حقیقی۔۔۔
عشق نہیں محتاج کسی عہد و پیماں
مشک کے پھیلنے کو نہیں پابندیء گلستاں
جب آفتاب و مہتاب ہی نہیں کرتے تفریق ِزیاں
نہیں ہے کوئی خدا اور بندے کے درمیاں
کبھی تو ہے باغباں اور کبھی بیاباں
آدمی کو میسر نہیں کہ وہ ہے کیا انساں
خونِ آنسو اور خوابِ حقیقت کا بیاں
کیسے بدل جاتا ہے کمیں کا عزتِ جہاں
اسی کے ہیں یہ سب ارض و سماں
وہی ہے یہاں اور وہی ہے وہاں
تڑپ دکھا چاہت کو پانے کی جاوداں
اتر آئے گا تیرے لیے فرشِ آسماں
نہیں ہے یہ کسی لیلی مجنوں کی داستاں
یہ تو ہے سچے عاشق کی تعظیمِ محبوبِ بیاں
پانے اور لوٹ جانے کا ہے تجھے گماں
یہ کچھ بھی نہیں بہت آگے ہیں وہ جہاں
الف اقرا ہی سے میرا علم وجود مہرباں
تیری رضا ہی سے رنگیں صحرا و ریگستاں
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک لازوال حقیقت ۔۔۔عشق حقیقی۔۔۔
عشق نہیں محتاج کسی عہد و پیماں
مشک کے پھیلنے کو نہیں پابندیء گلستاں
جب آفتاب و مہتاب ہی نہیں کرتے تفریق ِزیاں
نہیں ہے کوئی خدا اور بندے کے درمیاں
کبھی تو ہے باغباں اور کبھی بیاباں
آدمی کو میسر نہیں کہ وہ ہے کیا انساں
خونِ آنسو اور خوابِ حقیقت کا بیاں
کیسے بدل جاتا ہے کمیں کا عزتِ جہاں
اسی کے ہیں یہ سب ارض و سماں
وہی ہے یہاں اور وہی ہے وہاں
تڑپ دکھا چاہت کو پانے کی جاوداں
اتر آئے گا تیرے لیے فرشِ آسماں
نہیں ہے یہ کسی لیلی مجنوں کی داستاں
یہ تو ہے سچے عاشق کی تعظیمِ محبوبِ بیاں
پانے اور لوٹ جانے کا ہے تجھے گماں
یہ کچھ بھی نہیں بہت آگے ہیں وہ جہاں
الف اقرا ہی سے میرا علم وجود مہرباں
تیری رضا ہی سے رنگیں صحرا و ریگستاں



آگہی سے بھرپور ایک پیغام جس کو آپ نے یک لخت قلمبند کیا۔۔۔اور اس طرح سے دل کے جو راستے آپ پر کھلے ہیں ۔ اوروں کے بھی کاش کھل سکیں ، کاش میرے بھی لیے راہ کھل سکے ۔۔۔۔۔۔۔ آمین۔ خیال کی خوبصورتی آہنگ کے ساتھ کچھ اور مزہ دیتی کہ قران پاک کے اقراء سے لے کر آخر تک خیال کو آہنگ کے ساتھ ملا کر پڑھنے کا کہا گیا کہ اس کی سہج سہج کے تلاوت سے موسیقی پیدا ہو کے دل کے تاروں کو نرم کرکے انسانیت کو اچھائی کی طرف لے جائے گی ،،، اس کی برکت کہ آہنگ کا اتنا اثر ہے اگر سمجھ لیں تو تب ہم قران پاک کو اپنا کر چھوڑیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے آپ کا آخری شعر تو بہت پسند آیا ۔۔بہت عمدہ کہا کہ ماشاءاللہ کہنے کا حق بنتا ہے ۔۔اللہ کریں زورِ قلم اور زیادہ ۔۔ آپ کے لکھے ہوئے مشعلِ راہ لفظوں کو قید کی ضرورت بھی نہیں ۔۔ ماشاءاللہ
 

بزم خیال

محفلین
آگہی سے بھرپور ایک پیغام جس کو آپ نے یک لخت قلمبند کیا۔۔۔اور اس طرح سے دل کے جو راستے آپ پر کھلے ہیں ۔ اوروں کے بھی کاش کھل سکیں ، کاش میرے بھی لیے راہ کھل سکے ۔۔۔۔۔۔۔ آمین۔ خیال کی خوبصورتی آہنگ کے ساتھ کچھ اور مزہ دیتی کہ قران پاک کے اقراء سے لے کر آخر تک خیال کو آہنگ کے ساتھ ملا کر پڑھنے کا کہا گیا کہ اس کی سہج سہج کے تلاوت سے موسیقی پیدا ہو کے دل کے تاروں کو نرم کرکے انسانیت کو اچھائی کی طرف لے جائے گی ،،، اس کی برکت کہ آہنگ کا اتنا اثر ہے اگر سمجھ لیں تو تب ہم قران پاک کو اپنا کر چھوڑیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے آپ کا آخری شعر تو بہت پسند آیا ۔۔بہت عمدہ کہا کہ ماشاءاللہ کہنے کا حق بنتا ہے ۔۔اللہ کریں زورِ قلم اور زیادہ ۔۔ آپ کے لکھے ہوئے مشعلِ راہ لفظوں کو قید کی ضرورت بھی نہیں ۔۔ ماشاءاللہ
ماشاءاللہ آپ کمال لکھتی ہیں جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دل کے راستے کھلے ہیں۔ کہاں تک کھلے ہیں اہل نظر بخوبی جان لیتے ہیں۔ لفظ اپنی آزادی کے علم خود اٹھا کر چلتے ہیں اور شناسائی پا لیتے ہیں۔ پھولوں تک رسائی کانٹوں سے الجھے بنا ممکن نہیں ہوتی۔

گل میں خار کی طرح پیوست ہو جا
فقیری میں من و سلوی سے تنگدست ہو جا
وحدت الوجود سے قصص القرآن ہوا
ظہورِ عقل میں شعورِ ایمان سے دست بدست ہو جا​
 

بے الف اذان

محفلین
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔۔!
پھر بزم میں راز کی بات کہ دی۔۔!
بڑا بےادب ہو سزا چاہتا ہوں ۔۔!


ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں


بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

شاعر: علامہ محمد اقبال
 

نور وجدان

لائبریرین
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں


بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

شاعر: علامہ محمد اقبال
بہت شکریہ ۔۔ایسا میرے ذہن میں بھی تھا مگر میں اس کو یاداشت پر نہیں چھوڑتی ۔میں نے نیٹ پر سرچ کیا تھا ۔۔وہاں '' بھری '' نہیں تھا ۔۔ اقبال کے اشعار ہیں یہ ۔۔ کون نہیں جانتا جناب ۔۔ شکریہ شکریہ شکریہ
 

بے الف اذان

محفلین
بہت شکریہ ۔۔ایسا میرے ذہن میں بھی تھا مگر میں اس کو یاداشت پر نہیں چھوڑتی ۔میں نے نیٹ پر سرچ کیا تھا ۔۔وہاں '' بھری '' نہیں تھا ۔۔ اقبال کے اشعار ہیں یہ ۔۔ کون نہیں جانتا جناب ۔۔ شکریہ شکریہ شکریہ
لیکن ہم نے تو اس بار یادداشت پر ہی بھروسہ کیا ہے ۔ :)
 
Top