نور وجدان
لائبریرین
میرا عشق گستاخانہ
میرا جسم ضوخانہ
میرا دل ہے میخانہ
جل کر بھسم ہونا
آگ سے تن سلگانہ
میری آنکھ میں وضو
مل گیا ہدایت نامہ
کروں شکوہ ملحدانہ
تری نظر ہے کریمانہ
منظور جل کے مرجانا
اے میرے کبریاء جاناں
اب تو بنادے دل میخانہ
شروع ہوا ہےمسیحانہ
نظر ِ کرم ہو ہو تجلیانہ
اے جان !میری جانِ جاناں
سوال یہ ہے کہ عشق گستاخ کیوں ہوتا ہے ؟ کچھ ایسا درجہ عشق کو محب کی نگاہ میں حاصل ہو جاتا ہے کہ سب بے حجاب ہوجاتا ہے ، سارے نقاب اتر جانے کے بعد عشق کو خود پر قابو نہیں رہتا اور وہ رقص کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ ایک دن میں نے عشق سے پوچھا۔:
اے عشق ! اتنا تو بے قابو کر دیا ہے ۔۔!
اب ہوش میں کیوں رکھتے ہو۔۔؟
میخانہ کو پیمانہ میں کیوں بدلتے ہو۔
عشق ہوتا ہے نا گستاخ ۔۔۔
کر دی گستاخی ۔۔۔!
عشق بولا۔۔۔۔۔ میخانہ ہی پیمانہ اور پیمانہ میخانہ
فرق نہ جان تو دیوانے کا دیوانہ
مان جا تو اب! تیرا دل اب فقیرانہ
پی ، پی کر بھی ترا دل ہے کیا ویرانہ ۔۔!!
اے ذی وقار !
دونوں جہاں کے ابرار۔۔۔!
ایک دن میں نے سوچا کہ سلمان رشدی کی کتاب ''satanic verse '' پڑھوں اور اس کو پڑھنا ہی شروع کیا کہ فتوٰی لگ گیا کہ اس کو پڑھنے والا '' کافر '' ۔۔ ۔! کافر کون رہنا پسند کرتا ہے ، اس لیے میں نے اس کو چھوڑ دیا مگر آج سوچ رہی ہوں کہ پڑھ لیتی ۔۔۔ علم کا ایک دروازہ بند کر دیا۔۔۔۔ مجھے گستاخیوں کا شوق نہیں ۔۔۔ اے میرے حبیب ! مگر جو گستاخی کرتے ہیں ان کی باتوں سے حوالے لے کر سوچ لیتی کہ 'انسان'' گستاخ '' کیوں ہوتا ہے اور اس کی گستاخی کے بارے میں اگر کوئی تعریفی کلمات کہے ، لکھاری کی مدح سرائی کرے اور ''توہینِ رسالت ﷺ '' پر لکھی گئی بک کو '' نابل پرائز'' ملے تو لوگ تو اس کے متوالے ہوں گے نا۔۔! ان کی باتوں پر جذبات میں آکر میں جواب دوں گی تو وہ کہیں گے میں ''لغو'' بول رہی ۔۔۔ کیا ہم سب کا فرض نہیں ہے کہ سب مل کر علم کو اتنا پھیلا دیں کہ روشنی سے روشنی نکل کر اندھیروں کو مٹادے ۔۔۔!!! اس کے لیے ہم '' کفر '' کا مطالعہ ''ردِ کفر '' کے لیے کرنا ہوگا۔۔ !!!
سنو۔۔۔!
اے خاک۔۔۔!
مطالعہ کے لیے اور غور کے لیے دنیا کو وسعت دی گئ ہے مگر لوگ اس کو '' کم کم '' سمجھتے ہیں ۔ یہی بات تو قرانِ پاک میں بیان کی گئی کہ آنکھیں کھول اپنی ۔۔۔۔۔۔ فلک کی طرف دیکھ ۔۔ زمین پر قبر کو دیکھ ۔۔۔ بہتے دریا کی طغیانی دیکھ اور موجوں کی سمندر میں روانی دیکھ ، خاک سے نکلتا انسان دیکھ ۔۔۔۔ زمین سے نکلی ''حیات '' دیکھ ۔۔۔ اس کا مطالعہ پورا کرنا تو فرض ہے اور اس کی ادائیگی کے بعد دنیا کے علوم پڑھ ۔۔۔ اس لیے تو ''اقرا'' کا امر ہوا۔۔ اس کو پڑھ ۔۔ پہلے اس کو تو پڑھ۔۔۔!
اے خاک ۔۔!
راسخ العقیدہ رہ۔۔۔!
جب تیرا شجر مضبوط و تناور ہوجائے گا۔۔
پھر ان سب کا مطالعہ کر۔۔۔۔
کہ مطالعہ کے لیے تو تجھے پیدا کیا ۔۔۔
تجھے اشرف کیا گیا ۔۔۔
''مشرفی '' کی بنیاد ''علم '' ہے۔۔۔
اے خاک۔۔!راسخ العقیدہ رہ۔۔۔!
جب تیرا شجر مضبوط و تناور ہوجائے گا۔۔
پھر ان سب کا مطالعہ کر۔۔۔۔
کہ مطالعہ کے لیے تو تجھے پیدا کیا ۔۔۔
تجھے اشرف کیا گیا ۔۔۔
''مشرفی '' کی بنیاد ''علم '' ہے۔۔۔
دنیا والے دنیا کو تلاشتے رہ جائیں گے ۔۔۔! اور آخرت کے متوالے قرانِ پاک سے نشانیاں ڈھونڈ لیں گے ۔۔۔ اس کی وسعت تو ایک 'بحر بیکراں '' کے سینے میں سمائی کہ جس کے لیے ارشاد ہوا۔۔۔
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ۔ وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي۔ يَفْقَهُوا قَوْلِي۔
''اے میرے رب میرا سینہ کھول دے ۔ اورمیرا کام آسان کر ۔ اور میری زبان سے گرہ کھول دے۔ کہ میری بات سمجھ لیں''
جس کے اندر میرا '' کلام '' سما جائے ۔۔۔ اس کی حیثیت و مقام کا تعین دنیا والوں کے بس کی بات نہیں ۔۔۔۔!
دنیا والے ''سنت '' کی بات کرتے ہیں ۔۔۔!
دنیا والے''حدیث'' کی بات کرتے ہیں ۔۔۔!
حدیث کیا ہے ۔۔۔؟ جو اتنا شور مچا کر رکھا ہے ۔۔۔۔ !
سنت کیا ہے۔۔۔؟ کیوں اتنا شور مچا کر رکھا ہے۔۔۔۔!
دونوں کو ملا دو۔۔۔
جب دونوں ملیں گے ۔۔۔۔ !
ان کے '' ملنے'' سے ''راستہ'' سیدھا میرا محبوبﷺ کو جائے گا۔ اور''عملی قران '' کی جامہ تصویر کو '' کلام الہی '' سے ملا دو۔۔ جب سب مربوط ہوجائے گا ۔۔۔دنیا والے''حدیث'' کی بات کرتے ہیں ۔۔۔!
حدیث کیا ہے ۔۔۔؟ جو اتنا شور مچا کر رکھا ہے ۔۔۔۔ !
سنت کیا ہے۔۔۔؟ کیوں اتنا شور مچا کر رکھا ہے۔۔۔۔!
دونوں کو ملا دو۔۔۔
جب دونوں ملیں گے ۔۔۔۔ !
اے خاک۔۔!
کوئی رہے گا تب کافر۔۔۔؟
کیا نہ ہوں گے سب مومن۔۔۔؟
کوئی رہے گا تب کافر۔۔۔؟
کیا نہ ہوں گے سب مومن۔۔۔؟
اے مالکِ دو جہاں ۔۔!
کیسے ہوگا یہ کام۔۔۔؟ کون کرے گا یہ سب۔۔۔۔؟ کس کے پاس اتنا حوصلہ کہ وہ تفریق کو ختم کردے ۔۔ ذات و پات کا رنگ اور تفریق مٹادے ۔۔۔ ؟
مجبور ہوں سوال سے۔۔۔۔۔!
گستاخی کی مرتکب ۔۔۔!
کس سے کروں سوال پھر۔۔۔؟
کون دے گا جواب پھر۔۔۔۔؟
ارے میرے بندیا۔۔۔!گستاخی کی مرتکب ۔۔۔!
کس سے کروں سوال پھر۔۔۔؟
کون دے گا جواب پھر۔۔۔۔؟
'' سوال و جواب '' کی چھوڑ ۔۔
محبت کر۔۔۔!
دعا مانگ۔۔!
''شرحیں '' خود ہی کھل جاتی ہیں ۔۔۔!
سوال نہیں رہیں گے ۔۔۔!
جواب ہی جواب ہوں گے ۔۔!
اب کہ دل نے ٹھان لی ہے کہ اب تو آگے جانا ہے کہ اب پیچھے رہنا نہیں ہے ، بہت وقت کھو چکا ہے ۔۔ زندگی کا قیمتی وقت سب نے گستاخیوں میں ضائع کر دیا ہے ۔۔۔ محبت کیسے ہو گی ۔۔۔؟ ادب سے ۔۔! ادب ہی تو پہلی سیڑھی ہے جس سے علم کا دروازہ کھلتا ہے ۔ اس علم کی وجہ سے ''بدر'' کے قیدی آزاد ہوئے کہ وہ غلام جو علم میں فوقیت رکھتے ہیں وہ علم سکھا دیں ۔۔۔ مگر کوئی ادب کرتا ہی نہیں ہے ۔۔۔ کوئی اس کی طرف جاتا ہی نہیں ہیں ۔۔۔ کوئی طلب کی جستجو رکھے تو عطا بھی ہو۔ سیدھے اور سچے راستے کی سڑک پر کوئی کھڑا ہی نہیں ہے ، سب نے اپنی اپنی سڑک بنا لی ہے ۔۔ طلب کے دروازے۔۔۔۔، اور مجسم سب نے اپنے اپنے بنالیے ہیں ۔۔ دل جب صنم خانہ بن جائے تو کون بندگی کرے گا؟ بندگی کرتے نہیں اور مانگتے ہو دنیا کو اپنے لیے ۔۔ اپنی اپنی چاہتوں کو اپنا ایمان و قبلہ بنا کر جستجو کی طلب کرنا کیسا ۔۔۔!
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے کوئی راہرہ منزل ہی نہیں
عشق کا پہلا مقام ادب ہے ۔۔ جو ''ادب'' کرنا سیکھ جائیں گے وہی عشق کی طرف جائیں گے ۔۔۔ ادب سے محبتیں فروغ ہوتیں اور محبتوں کی انتہا۔۔۔ عشق ۔۔! اور عشق کیا ہے۔۔! عشق کبھی گستاخ نہیں ہوتا۔۔۔ ! یہ وہ سمندر ہے ، جس کی مٹھاس ادب کے جھرنوں سے محبت کے دریاؤں میں پھیلتی ہے اور محبت کی نرم نرم پھواریں سمندر میں لا کر پھینک دیتی ہیں ۔۔۔ ! سمندر کی موجیں مضطرب رہتی ہیں اور ان کا ''جلال '' سمندر کا وسعت میں '' جمال '' بن جاتا ہے ۔ عشق میں انسان کو دونوں کو وصول کرنا پڑتا ہے ۔ مگر محبت کوئی کرے تو۔۔۔! کوئی ادب کرے تو۔۔ جو عشق کرتے ہیں ۔۔ سوال گستاخ ہونے کے بجائے معصومانہ ہوجاتے ہیں ۔۔۔ ایسی گستاخیوں پر پیار آجاتا ہے
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔۔!
پھر بزم میں راز کی بات کہ دی۔۔!
بڑا بےادب ہو سزا چاہتا ہوں ۔۔!
محبت ، اے محبت ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
وجود کی نفی کر دے
اے محبت!سب کچھ ختم کردے
مٹادے! وجود کی خاک سے
سب نقش مادیت کے
مگر مادیت کو رہنے دے
اس طرح کہ۔۔۔۔۔۔!
دل اور روح اس مادے کے اندر
یکجا رہیں
جیسے پارہ اندر پیمانہ کے ۔۔!
دنیا میں سب سچا ہے
دنیا میں یہ وجود مایا
اس مایا نے کیا پانا
اگر جاں دے نہ نذرانہ
اور چھلکے نہ میخانہ ۔
میخانہ چھلکنے کو بے تاب ہے مگر وہ مقام پہنچا کہاں کہ چھلکے جام اور بکھر کر بھی بکھرے نا۔!!! حقایت عشق و محبت کو بیان کرنے کے لئے لفظ تھوڑے پڑ جاتے پیں۔ بس کچھ یاد رہتا ہے تو ۔۔۔۔۔دنیا میں یہ وجود مایا
اس مایا نے کیا پانا
اگر جاں دے نہ نذرانہ
اور چھلکے نہ میخانہ ۔
والیل ترے سایہ گیسو کا تراشا
والعصر تری نیم نگاہی کی ادا ہے
اس سفر کی جستجو ہے
بلبل بھی تو خوش گلو ہے
جس سفر میں وہ روبرو ہے
اس کی دید کی طلب میں
اکھیاں میری باوضو ہیں ۔
اب تو جنون کی حقایت میں
پھیلنی چار سو یہ خوشبو ہے
اس طرح سے مجھے پھونک دے
اے میرے عشق !
گل گل کو ملے میری خوشبو
رنگ رنگ نکھرے اس ضو سے
پراوانے کو بس شمع کی آرزو
آخری تدوین: