طارق شاہ
محفلین
غزل
بُھولے افسانے وَفا کے یاد دِلواتے ہُوئے
تم تو، آئے اور دِل کی آگ بھڑکاتے ہُوئے
موجِ مَے بَل کھا گئی، گُل کو جمَائی آ گئی
زُلف کو دیکھا جو اُس عارض پہ لہراتے ہُوئے
بے مروّت یاد کر لے، اب تو مُدّت ہو گئی !
تیری باتوں سے دِلِ مُضطر کو بہلاتے ہُوئے
نیند سے اُٹھ کر کسی نے اِس طرح آنکھیں مَلِیں
صُبح کے تارے کو دیکھا آنکھ جھپکاتے ہُوئے
ہم تو اُٹّھے جاتے ہیں، لیکن بتا دے اِس قدر
کِس کے دَر کی خاک چھانیں تیرے کہلاتے ہُوئے
جھاڑ کر دامن، اثرؔ جس بزم سے اُٹھ آئے تھے !
آج پِھر دیکھے گئے حضرت اُدھر جاتے ہوئے
اثرؔ لکھنوی