اثر کے پیچھے دلِ حزیں نے نشان چھوڑا نہ ہر کہیں کا ۔ شبلی نعمانی

فرخ منظور

لائبریرین
اثر کے پیچھے دلِ حزیں نے نشان چھوڑا نہ ہر کہیں کا
گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا

بھلی تھی تقدیر یا بری تھی یہ راز کس طرح سے عیاں ہو

بتوں کو سجدے کئے ہیں اتنے کہ مٹ گیا سب لکھا جبیں کا

وہی لڑکپن کی شوخیاں ہیں وہ اگلی ہی سی شرارتیں ہیں

سیانے ہوں گے تو ہاں بھی ہو گی ابھی تو سِن ہے نہیں نہیں کا

یہ نظم آئیں، یہ طرز بندش، سخنوری ہی فسوں گری ہے

کہ ریختہ میں بھی تیرے شبلی مزہ ہے طرزِ علی حزیں کا

(علامہ شبلی نعمانی)
 

فاتح

لائبریرین
کہ ریختہ میں بھی تیرے شبلی مزہ ہے طرزِ علی حزیں کا
واہ واہ واہ ۔ بہت شکریہ قبلہ
ذرا دیکھیے گا کہ ذیل کے مصرع میں آئین کی بجائے آئیں تو نہیں۔
یہ نظم آئیں، یہ طرز بندش، سخنوری ہی فسوں گری ہے​
 

فرخ منظور

لائبریرین
کہ ریختہ میں بھی تیرے شبلی مزہ ہے طرزِ علی حزیں کا
واہ واہ واہ ۔ بہت شکریہ قبلہ
ذرا دیکھیے گا کہ ذیل کے مصرع میں آئین کی بجائے آئیں تو نہیں۔
یہ نظم آئیں، یہ طرز بندش، سخنوری ہی فسوں گری ہے​

شکریہ فاتح صاحب۔ ہے تو آئین ہی لیکن آپ کہتے ہیں تو آئیں کر دیتا ہوں۔ شاید کتابت کی غلطی ہو۔
 
Top