اجازت

او جانے والے
چلے ہی جانا
ذرا رکو تو
ذرا، سُنو تو!
تمھاری خاطر جو لمحہ لمحہ بکھرتے آنسو جمع کئے تھے
جو درد سارے یُوں سہ لئے تھے
اُن آنسوؤں کا حساب لے لو
سلام کہہ دو جواب لے لو
چلے ہی جانا
ذرا رکو تو
ذرا، سُنو تو!
جو دِیپ دل کی اندھیر راہوں میں رفتہ رفتہ ہوئے تھے روشن
جو گیت کرتے تھے تیرے درشن
وہ گیت سارے وہ دِیپ سارے
جلا کے جانا بجھا کے جانا
نظر نظر سے مِلا کے جانا
چلے ہی جانا!
ذرا رکو تو
ذرا، سُنو تو!
قدم قدم پر بکھرتے پتے تمھاری یادیں کریں گے تازہ
یہ سب بہاریں بھی ساتھ لے لو!
چہکتے بلبل کا ساز لے لو
گُلوں کی رنگت کا راز لے لو
تمام منظر سراب کر دو
سبھی امنگوں کو خواب کر دو
سُنو!
یہ کارِ ثواب کر دو
چلے ہی جانا!
ذرا رکو تو
ذرا، سُنو تو!

(نوید رزاق بٹ)
 
اچھی نظم ہے، بس ’جمع‘ کا تلفظ غلط ہے۔ درست م پر جزم ہے

بے حد شکریہ سر۔ جمع میں واقعی م پر جزم ہونا چاہیے۔ میں کوشش کرتا ہوں اِس کو تبدیل کرنے کی۔ شاید اسطرح

تمہاری خاطر جو جشمِ تر نے ہزاروں آنسو گہر کئے تھے

اس کے علاوہ ایک اور نکتے پر آپ کی ہدایت درکار ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ 'جمع' میں ع پر زبر کی حرکت سے موجودہ مصرعہ ایسے ہی قائم رکھا جا سکے؟ جیسے اقبال کے اس شعر میں میں 'شمع' کے ع پر زبر پڑھتا ہوں

زندگی ہو مِری پروانے کی صورت یارب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب

بہت شکریہ :)
 
Top