طالوت
محفلین
الکندی 873 - 801
ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی "عربوں کے فلسفی" کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ان کو یہ نام اس لیئے دیا گیا کہ انھوں نے فلسفہ کو مذہبی علماء کے لیے قابل قبول بنانے کے واسطے انتھک کوشش کی ۔۔ وہ اسلامی ارسطالیسی مکتب فلسفہ کے بانی اور منطق ، ریاضی ، طعبیعات اور موسیقی جیسے مختلف النوع مضامین پر 270 کتابوں کے مصنف تھے ۔۔ وہ قدیم فلسفیوں میں شمار ہونے والے واحد عرب مسلم فلسفی ہیں ۔۔۔ وہ پکے معتزلہ تھے ۔ انھوں نے تحریر کیا کہ سچائی آفاقی اور اعلٰی ترین ہوتی ہے۔۔ فلسفہ اس پیغام کی ایک اور شکل ہے جو پیغمبر لاتے رہے ہیں۔۔ الکندی کے نزدیک "سچائی" یا "حق" کے بہت واضح معنی تھے۔۔ وہ معنی جس کی تشریح افلاطون ، ارسطو اور دیگر یونانی حکماء کرتے رہے ہیں ۔۔ الکندی کے الفاظ میں دانشوروں کا کام "اس کو اپنی زبان کے رائج قواعد اور اپنے زمانے کےے دستور کے مطابق مقدور بھر مکمل کرنا ہے ، جس کو قدماء نے پوری طرح واضح نہیں کیا تھا"
معقولیت پسند ہونے کی حیثیت سے الکندی نے یہ تجویز پیش کی کہ مقدس کتاب کی ان عبارتوں کو ، جن کی لفظی تفسیر حقیقت کے خلاف ہو ، خرد مند انسانوں کی رہنمائی کے لیئے امثالیہ یا کنائیہ سمجھنا چاہیئے۔۔ سارے قدیم فلسفی ، بشمول الکندی یہ مانتے تھے کہ سچائیاں دو تھیں ، ایک سچائی احمق اور جاہل عوام الناس کے لیے تھی اور دوسری سچائی مہذب اور تعلیم یافتہ خواص کے لیئے۔ الکندی کی رائے میں اول الزکر صرف سادہ بتوں کو کو سمجھ سکتے تھے ، اس لیئے انھیں راغب کرنے کے لیے حوروں اور دیگر مادی چیزوں کے تصوارت ضروری تھے ۔ دوسری طرف آخر الزکر کو منطق اور تعقل سے نوازا گیا تاکہ وہ مقدس کتاب کے معانی کی گہرائیوں تک پہنچھ سکیں ۔۔ امثالی تفسیر کو جائز ثابت کرنے کے لیے الکندی نے عقلی دلائل پیش کیے۔۔
امثالی استدلال کی ایک مثال قران کی ایک آیت ہے ۔۔ اس آیت میں ایمان لانے والوں کو بتایا گیا ہے کہ سورج ، چاند ، تارے ، پہاڑ ، درخت اور درندے اللہ کو "سجدہ کرتے ہیں"
اس آیت کو سن کر ایک غیر مہذب یا ناشائستہ شخص کے سامنے یہ تصور ابھرتا ہے کہ تمام مخلوق واقعی سجدہ ریز ہوتی ہے ۔۔ لیکن الکندی ایک تفصیلی لسانی تشریح سے یہ دلیل دیتے ہیں کہ سجدہ کرنے سے مراد ہے حکم ماننا ، اس لیے عام پرستش کے تصور کا مطلب خدا کے احکام کی عام پیروی یا تابعداری ہے ۔۔ اس استدلال کو مزید وسعت دے کر الکندی کہتا ہے کہ ایک کائناتی قانون کا وجود ہے جس کی تعمیل مادے کی تمام جاندار اور گیر جاندار انواع پر فرض ہے، اسلیے الکندی کے نزدیک کوئی چیز جو بظاہر روز مرہ کے تجربے کے مطابق نہیں ہے ایک ایسی چیز میں تبدیل کی جاتی ہے جو معقول ہے اور اگر مناسب طریقے سے اس کی تفسیر کی جائے تو عقل کو بھاتی ہے۔۔۔
المامون کے دربار میں الکندی دنیا کے ثقافتی مرکز کا سب سے زیادہ چمکدار ستارہ تھا۔۔ اس کی علمی سرگرمیاں المامون کے بعد المتعصم اور پھر الواثق کی حکومتوں کے دوران اپنی پوری توانائی کے ساتھ قائم رہیں ، لیکن اس کے بعد جب راسخ العقیدہ سنی خلیفہ المتوکل تخت پر بیٹھا تو روشن خیالی کا طویل عید ختم ہو گیا ۔۔ نئے خلیفہ کو اس بات کا قائل کرنا چنداں مشکل نہ تھا کہ کہ یہ فلسفی بہت خطرناک عقائد کا حامل ہے ۔۔ متوکل نے جلد ہی الکندی کے ذاتی کتب خانے ، الکندیہ کو ضبط کرنے کا حکم دے دیا ۔۔ ساٹھ سالہ فلسفی کو سرعام 50 کوڑوں کی سزا دی گئی ہر کوڑے پر ہجوم خوشی کے نعرے لگاتا تھا۔۔
873 میں بہتر سال کی عمر میں وفات پانے سے بہت پہلے الکندی پر اداسی اور خاموشی کے دورے پڑنے لگے تھے ۔۔ گو اس کے ایک دوست نے کسی ترکیب سے اس کو کتب خانہ دلوا دیا تھا ، لیکن سر عام کوڑوں کی سزا کا قلق الکندی کے دل میں بیٹھ گیا تھا۔۔ وہ اسلامی دانشوروں کے گروہ کا پہلا دانشور تھا جو عقلیت پسندی کے خلاف مذہبی کٹر پن کے رد عمل کا شکار ہوا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمان اور سائنس از پرویز امیر علی ہود بھائی سے اقتباس
وسلام
ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی "عربوں کے فلسفی" کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ان کو یہ نام اس لیئے دیا گیا کہ انھوں نے فلسفہ کو مذہبی علماء کے لیے قابل قبول بنانے کے واسطے انتھک کوشش کی ۔۔ وہ اسلامی ارسطالیسی مکتب فلسفہ کے بانی اور منطق ، ریاضی ، طعبیعات اور موسیقی جیسے مختلف النوع مضامین پر 270 کتابوں کے مصنف تھے ۔۔ وہ قدیم فلسفیوں میں شمار ہونے والے واحد عرب مسلم فلسفی ہیں ۔۔۔ وہ پکے معتزلہ تھے ۔ انھوں نے تحریر کیا کہ سچائی آفاقی اور اعلٰی ترین ہوتی ہے۔۔ فلسفہ اس پیغام کی ایک اور شکل ہے جو پیغمبر لاتے رہے ہیں۔۔ الکندی کے نزدیک "سچائی" یا "حق" کے بہت واضح معنی تھے۔۔ وہ معنی جس کی تشریح افلاطون ، ارسطو اور دیگر یونانی حکماء کرتے رہے ہیں ۔۔ الکندی کے الفاظ میں دانشوروں کا کام "اس کو اپنی زبان کے رائج قواعد اور اپنے زمانے کےے دستور کے مطابق مقدور بھر مکمل کرنا ہے ، جس کو قدماء نے پوری طرح واضح نہیں کیا تھا"
معقولیت پسند ہونے کی حیثیت سے الکندی نے یہ تجویز پیش کی کہ مقدس کتاب کی ان عبارتوں کو ، جن کی لفظی تفسیر حقیقت کے خلاف ہو ، خرد مند انسانوں کی رہنمائی کے لیئے امثالیہ یا کنائیہ سمجھنا چاہیئے۔۔ سارے قدیم فلسفی ، بشمول الکندی یہ مانتے تھے کہ سچائیاں دو تھیں ، ایک سچائی احمق اور جاہل عوام الناس کے لیے تھی اور دوسری سچائی مہذب اور تعلیم یافتہ خواص کے لیئے۔ الکندی کی رائے میں اول الزکر صرف سادہ بتوں کو کو سمجھ سکتے تھے ، اس لیئے انھیں راغب کرنے کے لیے حوروں اور دیگر مادی چیزوں کے تصوارت ضروری تھے ۔ دوسری طرف آخر الزکر کو منطق اور تعقل سے نوازا گیا تاکہ وہ مقدس کتاب کے معانی کی گہرائیوں تک پہنچھ سکیں ۔۔ امثالی تفسیر کو جائز ثابت کرنے کے لیے الکندی نے عقلی دلائل پیش کیے۔۔
امثالی استدلال کی ایک مثال قران کی ایک آیت ہے ۔۔ اس آیت میں ایمان لانے والوں کو بتایا گیا ہے کہ سورج ، چاند ، تارے ، پہاڑ ، درخت اور درندے اللہ کو "سجدہ کرتے ہیں"
اس آیت کو سن کر ایک غیر مہذب یا ناشائستہ شخص کے سامنے یہ تصور ابھرتا ہے کہ تمام مخلوق واقعی سجدہ ریز ہوتی ہے ۔۔ لیکن الکندی ایک تفصیلی لسانی تشریح سے یہ دلیل دیتے ہیں کہ سجدہ کرنے سے مراد ہے حکم ماننا ، اس لیے عام پرستش کے تصور کا مطلب خدا کے احکام کی عام پیروی یا تابعداری ہے ۔۔ اس استدلال کو مزید وسعت دے کر الکندی کہتا ہے کہ ایک کائناتی قانون کا وجود ہے جس کی تعمیل مادے کی تمام جاندار اور گیر جاندار انواع پر فرض ہے، اسلیے الکندی کے نزدیک کوئی چیز جو بظاہر روز مرہ کے تجربے کے مطابق نہیں ہے ایک ایسی چیز میں تبدیل کی جاتی ہے جو معقول ہے اور اگر مناسب طریقے سے اس کی تفسیر کی جائے تو عقل کو بھاتی ہے۔۔۔
المامون کے دربار میں الکندی دنیا کے ثقافتی مرکز کا سب سے زیادہ چمکدار ستارہ تھا۔۔ اس کی علمی سرگرمیاں المامون کے بعد المتعصم اور پھر الواثق کی حکومتوں کے دوران اپنی پوری توانائی کے ساتھ قائم رہیں ، لیکن اس کے بعد جب راسخ العقیدہ سنی خلیفہ المتوکل تخت پر بیٹھا تو روشن خیالی کا طویل عید ختم ہو گیا ۔۔ نئے خلیفہ کو اس بات کا قائل کرنا چنداں مشکل نہ تھا کہ کہ یہ فلسفی بہت خطرناک عقائد کا حامل ہے ۔۔ متوکل نے جلد ہی الکندی کے ذاتی کتب خانے ، الکندیہ کو ضبط کرنے کا حکم دے دیا ۔۔ ساٹھ سالہ فلسفی کو سرعام 50 کوڑوں کی سزا دی گئی ہر کوڑے پر ہجوم خوشی کے نعرے لگاتا تھا۔۔
873 میں بہتر سال کی عمر میں وفات پانے سے بہت پہلے الکندی پر اداسی اور خاموشی کے دورے پڑنے لگے تھے ۔۔ گو اس کے ایک دوست نے کسی ترکیب سے اس کو کتب خانہ دلوا دیا تھا ، لیکن سر عام کوڑوں کی سزا کا قلق الکندی کے دل میں بیٹھ گیا تھا۔۔ وہ اسلامی دانشوروں کے گروہ کا پہلا دانشور تھا جو عقلیت پسندی کے خلاف مذہبی کٹر پن کے رد عمل کا شکار ہوا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمان اور سائنس از پرویز امیر علی ہود بھائی سے اقتباس
وسلام