اجنبی شہر کے اجنبی راستے ، میری تنہائی پر مسکراتے رہے
میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا ، تم بہت دیر تک یاد آتے رہے
زہر ملتا رہا ، زہر پیتے رہے ، روز مرتے رہے ، روز جیتے رہے
زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی ، اور ہم بھی اسے آزماتے رہے
زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا ، زندگی کی طرف ایک دریچہ کھلا
ہم بھی گویا کسی ساز کے تار ہیں ، چوٹ کھاتے رہے ، گنگناتے رہے
سخت حالات کے تیز طوفان میں ،گِھر گیا تھا ہمارا جنونِ وفا
ہم چراغِ تمنا جلاتے رہے ، وہ چراغِ تمنا بجھاتے رہے
شاعر: نامعلوم