اجنبی

anwarjamal

محفلین
،،،،،،، اجنبی ،،،،،

وہ سر سے پاؤں تک محبت ، جوانی اور رومانس کا شاہکار تھی مگر بدقسمتی سے اس کی شادی ایک ایسے شخص سے ہو گئی جو معمولات کا اسیر تھا ،،
صبح سات بجکر پانچ منٹ پر مجھے جگا دینا ، سات دس پر میں شاور لوں گا ، سات بیس پر ہم ناشتہ کریں گے ، سات پینتالیس پر میں آفس کے لیے روانہ ہوجاؤں گا کیونکہ سات پچپن پر کمپنی کی گاڑی اسٹاپ پر پہنچ جاتی ھے اگر میں ایک منٹ تھی لیٹ ہوا تو گاڑی نکل جائے گی ،، چار پینتالیس پر میں گھر لوٹ آؤں گا ، پانچ بجے تک مہمانوں کی آمد شروع ہوجائے گی ، چھ بجے ہم اپنی سالگرہ کا کیک کاٹیں گے ، آٹھ بجے تک مہمانوں کو رخصت کریں گے ، نو دس پر ہم اپنے پسندیدہ چینل سے فلم دیکھیں گے اور ٹھیک گیارہ بجے سو جائيں گے تاکہ اگلے روز سات بجے تک ہم بیدار ہو سکیں ،،،،،،،،،،،،،،،

لعنت ھے ،،،،
کبھی کبھی دل چاہتا تھا وہ اپنے شوہر سے پوچھے کہ تمہاری ماں نے تو آزاد جنا تھا پھر تمہیں وقت کا قیدی کس نے بنا دیا ،،،،،

اس طرح کے جملے وہ سوچ لیتی مگر بولتی نہیں تھی ،،، ماں باپ کی نصیحت تھی کہ جہاں جا رہی ہو وہاں زبان بند کر کے رہنا،، کامیاب ازدواجی زندگی کا راز ہی یہ ھے کہ بیوی کی زبان پر تالا پڑا رھے یا اگر کھلے بھی تو صرف جی حضوری کے لیے ،،،،،

کبھی کبھی وہ بڑی نرمی سے التجا کرتی ،، آج دفتر سے چھٹی کر لیں ناں ، کہیں سیر کے لیے چلتے ہیں ،، جواب ملتا کیا فائدہ خوامخواہ چھٹی کرنے کا ،،،
اگر وہ کہتی چلیں اوپر ٹیرس پر چل کر باتیں کرتے ہیں ،، جواب ملتا سو جاؤ ، دیر تک جاگنا صحت کے لیے ٹھیک نہیں ،،
وہ کہتی ہفتے میں کم از کم ایک دن تو معمولات سے ہٹ کر جیا کریں ،،،، تو جواب ملتا زندگی ڈسپلن ، قاعدے قانون اور نظم کا دوسرا نام ھے ، ہم کوئی درخت سے ٹوٹے آوارہ پتے نہیں جو ہوا کے ساتھ ادھر ادھر اڑتے پھریں ،،،

وہ رفتہ رفتہ شوہر کی طرف سے مایوس ہوتی گئی ،،بھلا وہ کونسا قاعدہ اور قانون ہے جو بیوی پر توجہ دینے کی بات نہیں کرتا ،،
اس کی لڑکپن کی شوخیاں ، شرارتيں اس کی گوری جلد کی رنگت کی طرح پھیکی پڑنے لگيں ،،،اس کی آنکھوں کی چمک اور رسیلے ہونٹوں کی ساری توانائیاں ناقدری کے دکھ سے بوجھل ہو کر لٹک گئيں ،،، قریب تھا کہ اس کا دل کائینات کی خوبصورتی سے خوشیاں کشید کرنے کے بجائے صرف دھڑکنے کے قابل رہ جاتا اسے معلوم ہوا کہ پڑوس میں کوئی افسانہ نگار آيا ھے ...

جانے یہ بات کس نے اسے بتائی تھی ،،، شاید ،، شوہر نے ،،، ایک دن وہ چھت پر گئی اور جھانک کر دیکھا ، پڑوس والے گھر میں ایک شخص اپنے چھوٹے سے لان میں بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا وہ تقریبا اس کی عمر جتنا ہی کوئی لڑکا معلوم ہوتا تھا ،،،، مسلسل دیکھے جانے پر لڑکے کی چھٹی حس نے اسے خبردار کیا ،،، اس نے قلم رکھ کر ارد گرد کے ماحول پر نظر دوڑائی ،،، یوں دونوں کی آنکھیں چار ہوگئيں ،،،
اف یہ تو وہی لڑکا ہے جسے وہ آج تک خوابوں میں دیکھتی آئی ھے ، وہی ناک نقشہ وہی بالوں کا اسٹائل ، وہی بھولپن ،وہی چہرے کی معصومیت ،،،،

عام طور پر قدرت شادی کے بعد کیوں مہربان ہوتی ھے ؟ اس نے ہر چیز پر قدرت رکھنے والے سے سوال کیا ،، اس کی ایک سہیلی کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا اسے بھی شادی کے بعد ہی آئیڈیل ملا تھا ،..

وہ بہانے بہانے سے چھت پر جانے لگی ، ایک دن بادل گرج رھے تھے گھنگھور گھٹائيں برس جانے کے لیے تیار کھڑی کسی واقعے کی منتظر تھیں جب افسانہ نگار بھی اپنی چھت پر آگیا،،، دونوں دیر تک آسمان کی طرف دیکھتے رہے ،،، گفتگو میں پہل اسی نے کی ،،،
کیا آج بہت بارش ہوگی ؟ اس نے پوچھا

کیا نہیں ہونی چاہئیے ؟ اس نے جواب میں پوچھا

ہونی چاہئیے ، بہت ہونی چاہئیے ،، اتنی کہ سارا شہر بارش کے پانی میں ڈوب جائے .

اس طرح تو تم بھی ڈوب جاؤ گی ،،

تو ڈوبنے سے کیا ہو گا ؟ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے کے بجائے بادلوں کی طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے انہی سے ہمکلام ہوں

ڈوبنے سے تم مر جاؤ گی ،،،

تو کیا پہلے میں زندہ ہوں ؟

میرے خیال سے ،،،، ہو ،،

یہ تمہارا خیال ھے یقین تو نہیں ناں

مجھے یقین ھے ،،

اس نے پہلی بار افسانہ نگار کے چہرے پر نظر ڈالی

خیال سے یقین تک کا سفر اتنی جلدی طے نہیں کرتے ،، اجنبی ،،

میرا نام شہزاد ھے .

چھوڑو ناموں میں کیا رکھا ھے ،،

دوسرے دن اس نے کہا افسانہ نگار تو میں ہوں مگر افسانوی باتیں تم کرتی ہو ،، کیا وجہ ھے اس کی ، کیا تم بھی میری طرح دکھی ہو پارٹنر ؟

پارٹنر ؟ اس نے زیر لب دھرایا

تم پارٹنر کسے کہتے ہو اجنبی ؟

اسے جسے اپنا سمجھ لیتا ہوں

کسی کو اپنا سمجھنے کے لیے تو برسوں چاہئیے ہوتے ہیں ،،، نہیں ؟

کسی پر اعتماد ہونا ہو تو ایک ہی ملاقات میں ہو جاتا ھے ورنہ ساری زندگی نہیں ہوتا

یہ تو کسی فلم کا ڈائیلاگ ھے ،،، ھے ناں ؟

ہاں !

کیا تم فلمیں بہت دیکھتے ہو اجنبی ؟

اجنبی ،،،،،، تم اجنبی کسے کہتی ہو ؟

اسے جسے اپنا سمجھ لیتی ہوں

ہاہاہا ،،، جسے اپنا سمجھتے ہیں اسے اجنبی تھوڑی کہتے ہیں

میں کہتی ہوں ،،،، کیونکہ آج تک جسے بھی اپنا سمجھا اس نے لاپرواہی اور اجنبیت ہی عطا کی بدلے میں ،،،

اونہوں ،،،، اتنے خوبصورت لبوں پر ایسی مایوسی کی باتیں ،،،،،کیا تمہارے ہزبینڈ تمہیں خوش نہیں رکھتے ؟

وہ وقت کے قیدی ہیں اگر میں تمہارے ساتھ چھت پر ہوں اور بے فکر ہو کر باتیں کر رہی ہوں تو اس کی صرف ایک وجہ ھے ،، پوچھو کیا

کیا ،،،،،؟

کیونکہ مجھے پتہ ھے کہ وہ پانچ بجے سے پہلے نہیں آئیں گے ،،،،،،، وہ کبھی نہیں آئے ،،،انہیں کبھی کام سے بے زاری نہیں ہوئی ،،، انہیں کبھی نئی نویلی دلہن کی اچانک یاد نہیں آئی ،،، وہ کبھی اس کے لیے بے چین نہیں ہوئے ،،، انہوں نے کبھی اس کے لیے وقت سے پہلے چھٹی نہیں کی ،،، اچانک اس کی آواز بھرا گئی اور آنسو خودبخود امڈ آنے لگے ،،،

افسانہ نگار اسکی اس کیفیت پر ہونٹ کاٹنے لگا ،،،

ایک بات بتاؤ اجنبی ،،،، اس نے آنسو صاف کیے ،،،
کیا تم بھی کبھی اپنے روزمرہ کے کاموں سے باہر نہیں نکلتے ؟

اگر ایسا ہوتا ،،، وہ کہنے لگا ،، تو میں تمہارے ساتھ یہاں نہ ہوتا ،،،، ہم ،، کوئی درخت سے جڑے ہوئے پتے تو نہیں کہ ایک ہی جگہ جمے رہیں ،،

اجنبی کے جانے کے بعد بھی وہ دیر تک وہیں کھڑی رہی ،، اسے اس لڑکے سے محبت ہو گئی تھی ،،،
اگلے روز اس نے کہا آؤ تمہیں اپنا گھر دکھاؤں ہم روزانہ چھت پہ کیوں کھڑے رہیں ،،،
دونوں سیڑھیاں طے کر کے نیچے اترے

یہاں تو زندگی کی ہر آسائش موجود ھے پھر بھی تم ناخوش ہو ،، پارٹنر ،، اجنبی نے گھر کے قیمتی سازوسامان پر نگاہ دوڑانے کے بعد شکوہ کیا

اس نے جواب دینے کے بجائے فریج کھولا اور ایک ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالی ،، پانی شیشے کے گلاس میں انڈیلا اور مہمان نوازی کی ابتدا کرتے ہوئے اسے پیش کیا

اجنبی نے گلاس نہیں لیا بولا ایک شعر یاد آرہا ھے

وگرنہ برف سی ٹھنڈک تمہیں جلا دے گی
گلاس لیتے ہوئے انگلیاں نہ چھو لینا

گلاس والی نے مسکرا کر موتی جیسے دانتوں کی جھلک دکھائی ،، کہا ،،، ہاں ؛ انگلیاں مت چھونا ،،، گلاس لے لو بس ،،

اجنبی نے انگلیاں چھو لیں اور پھر اسے برف سی ٹھنڈک نے جلا دیا اس نے گلاس میز پر رکھتے ہوئے اسے اپنی جانب کھینچا

کیا کر رہے ہو ،،،، اس نے احتجاج کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اجنبی کی گرم سانسوں اور ہونٹوں کے لمس نے خاموش کرا دیا

میں تمہارے ساتھ جینا چاہتی ہوں ،، مگر یہ دنیا ہمیں ایک ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دے گی ،،،،،،،،،
آج بھی وہ دونوں چھت پر کھڑے تھے

ہم ایک ساتھ جی نہیں سکتے ،،، مر تو سکتے ہیں .

ایسے وقت میں جب جینے کا مزہ آنے لگا ھے ؟ وہ اس کے قریب تر ہو گئی ،،،،

ہاں اس طرح چھپ چھپ کے ملنے سے تو بہتر ھے ایک ساتھ مر جائيں ،،، بالآخر ایک دن مر ہی تو جانا ھے ...

ٹھیک ھے ،،، مگر دنیا کے نام ایک خط لکھ کر مریں گے جس میں ہم بتائيں گے کہ ایسا کیوں کیا ،،،

تم اسے خط کہہ سکتی ہو ،،، وہ ایک آخری افسانہ ھے جو میں لکھ چکا ہوں ،،

کیا اس میں تم نے میرے دکھ لکھیں ہیں اجنبی ؟

ہاں ،،، بہت اچھی طرح ،،

ہممم ،،،، کچن میں ایک ایسا لیکوئڈ ھے جسے پینے سے ہم مر سکتے ہیں ،، لاؤں ،،

اس سے پہلے تمہیں میرا افسانہ پڑھ لینا چاہئیے ،، اس نے ہاتھ میں پکڑے کچھ کاغذات اس کی طرف بڑھائے

نہیں ،، میں نہیں پڑھوں گی ،،، ضرورت ھے کہ اسے میرا شوہر پڑھے ،، ان دونوں نے کیڑے مار لیکوئڈ پیا اور مر گئے

اگلے روز ہوش آیا تو سامنے شوہر کھڑا تھا

تمہارے لیے دن رات محنت کرتا ہوں ،، یہاں تمہیں کسی چيز کی کمی نہیں ،،، نہ کھانے کی ، نہ پینے کی ،،نہ پہننے اوڑھنے کی ،، پھر تم نے خودکشی کی کوشش کیوں کی ،،،،،

اس نے ماحول کا جائزہ لیا اور خود کوبیڈ پر زندہ سلامت پا کر عجیب طرح کی بے بسی محسوس کی

بتاؤ تو ،،، آخر تمہیں تکلیف کیا ھے ،، شوہر دبے دبے غصے میں اس سے پوچھ رہا تھا ،،

اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر زبان نے ساتھ نہ دیا ،،، ہکلا کر کہنے لگی ،،،آ،، آپ ،، نے ،، مجھے بچا ،، لیا ،، مم مگر ،، وہ ،،اج ،،، نبی ،،،،،،

کون اجنبی ،،،،،، شوہر نے گھورا

وہی جو پڑوس ميں رہتا ھے ،،

کیا ہو گيا ھے تمہیں ... پڑوس میں تو کوئی نہیں رہتا

رر ،،، رہتا ھے .،، سس ساتھ والے گھر میں ،،،

اف ،،،، ہمارے گھر کے ساتھ ایک ہی گھر ھے مگر وہ برسوں سے بند ھے .،، وہاں کوئی نہیں رہتا ،،،اور یہ کیا تم اول فول قسم کے افسانے لکھتی رہتی ہو شوہر نے اس کے سامنے کاغذات لہرائے ،،،، اسے حیرت ہوئی کہ تحریر اس کی اپنی کیسے ھے ،،،

،،کتنی بار کہا ھے کہ جب دل نہ لگے تو نماز پڑھو یا نوافل ادا کرو ،،، شکر ھے کل میں وقت سے پہلے ہی آگيا تھا ورنہ آج تمہارا جنازہ اٹھ رہا ہوتا ،،،

آپ وقت سے پہلے آگئے تھے ،، اس نے انتہائی حیرت سے پوچھا

ہاں ،،، کل میرا دل بار بار گھبرا رہا تھا ،،، اور تمہاری یاد آ رہی تھی ،،،
_______________
انور
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوبصورت افسانہ
پنچ لائن تو گویا حقیقت میں پنچ لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
Top