احادیث کی تحقیق اور محدثین کی خدمات

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

قرآن مجید کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے حدیث کی ضرورت اور اس کی تحقیق و تدوین و تشریح کے لئے کی جانے والی کوششوں پر کوئی گفتگو اگر کی جائے تو انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں برصغیر سے اٹھنے والی انکارِ حدیث تحریک کا ذکر بھی آئے گا۔

مولوی عبداللہ چکڑالوی (م:1915ء)
خواجہ احمد دین امرتسری (م:1936ء)
اسلم جیراج پوری (م:1955ء)
عنایت اللہ مشرقی (م:1964ء)
نیاز فتح پوری (م:1966ء)
تمنا عمادی (م:1972ء)
غلام جیلانی برق (م:1985ء)
غلام احمد پرویز (م:1985ء)
وغیرہ نے احادیث کی حجیت کے متعلق جو شکوک و شبہات پھیلائے تھے ، ان کی حقیقت اب کھل چکی ہے۔

حجتِ حدیث ، تاریخ ، کتابتِ حدیث اور صحیح احادیث پر اعتراض کے جواب میں اردو ، انگریزی اور عربی وغیرہ زبانوں میں بہت سی کتابیں چھپ چکی ہیں۔
خود جناب غلام جیلانی برق آخر عمر میں انکارِ حدیث ک نظریات سے یکسر تائب ہو گئے تھے اور بطور کفارہ انہوں نے ایک کتاب تاریخِ حدیث سے متعلق لکھی ، جس میں محدثین کی خدمات کا تعارف کرایا ہے۔

جب احادیث کے انکار کے لئے کوئی گنجائش باقی نہ رہی اور ان کی حجت ، ضرورت ، اہمیت اور استناد سے متعلق شکوک و شبہات بےمعنی ہو گئے تو بعض لوگوں نے ذخیرہ احادیث کی ازسرنو تحقیق اور جانچ کی دعوت دی۔
ان کا کہنا یہ ہے کہ :
محدثین کے اصول و قواعد کے مطابق جو احادیث صحیح ہیں (مثلاً بخاری و مسلم کی احادیث) ، ان کی بھی ازسرنو تحقیق ہونی چاہئے۔ کیونکہ ان کے بقول ، ان میں سے بہت سی احادیث قرآن کے خلاف ، عقل کے خلاف اور سائینسی حقائق کے خلاف ہیں۔

آزادی سے قبل حیدرآباد دکن میں ڈاکٹر سید عبداللطیف نے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز سے ایک کتابچہ شائع کیا تھا جس میں ۔۔۔۔
احادیث کے ازسرنو جانچ کے متعلق برصغیر کے علماء کو دعوتِ فکر دی گئی تھی۔
کسی مستند عالم نے اس کی تائید نہیں کی بلکہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے ڈاکٹر صاحب کو جو کچھ تحریر کیا وہ برصغیر کی انکارِ حدیث تاریخ پر ایک تازیانے سے کم نہیں۔

سید سلیمان ندوی (رح) نے لکھا تھا :
یہ کام محدثین نے کر دیا ہے !
اور احادیث کی تحقیق کے اصول جس طرح علمی انداز میں محدثین نے مرتب کر دئے ہیں آج تک روایات کو جانچنے کے لئے ان سے بہتر اصول و قواعد کسی قوم نے وضع نہیں کئے ، پھر کس بنیاد پر محدثین کی تحقیق سے روگردانی کی دعوت دی جا رہی ہے؟!


اقتباس از مضمون : محمد عزیر شمس
روزنامہ "اردو نیوز(سعودی عرب)" ، ہفتہ واری سپلیمنٹ "روشنی" ، 21۔مارچ 2008ء۔
 
درج ذیل آیات کو دیکھئے اور وضاحت فرمائیے کہ جب لوگ رسول اللہ سے سوالات کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم خود سے جواب کیوں‌نہیں دیتے تھے؟ وہ اللہ تعالی کے جواب کا انتظار کیوں فرماتے تھے؟ کیا اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر رسول اکرم ان امور کے جواب نہیں‌دے سکتے تھے ؟ اگر ایسا ہے تو کیوں؟ کیا اللہ تعالی نعوذ‌باللہ اتنے نا سمجھ ہیں کہ وہ لاکھوں روایات قرآن میں‌لکھنا ہی بھول گئے اور پھر آپ کے "نبیوں" کو 250 سال بعد ایران میں پیدا کیا کہ ارے یہ روایتیں تو اللہ تعالی قرآن میں‌درج کرنا ہی بھول گئے تھے، ، ذرا قرآن کو اپ ڈیٹ کرلینا، ان روایات کو بھی شامل کرلینا اور اور ہاں ان روایات کو لکھنا نہیں 1200 سال تک بس یاد کرلینا۔ اور ہاں کوئی اصل کتاب بھی نہیں‌ رکھنا ان روایات کی ؟؟؟

صاحب پہلے کوئی کتاب لائیے جو اصل میں بخاری کی لکھی ہوئی ہو، مسلم کی لکھی ہوئی ہو، یا کسی بھی اور محدث جن پر آپ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ کتب لکھی تھیں۔ جب یہ اصل کتب سامنے ہوں‌تو پھر اس پر بات کریں گے۔ ان غائب کتب روایات پر اتنا یقین؟ صاحب، جب کسی ایسی کتاب کا آج تک وجود نہیں ہے جو بخاری، مسلم وغیرہ نے لکھی ہوں تو کیوں وقت ضائع کرتے ہیں ان من گھڑت کہانیوں پر؟ کچھ قرآن ہی پڑھ لیا کریں۔ قرآن سے اتنی نفرت کیسی؟ کچھ تو ہے جس کی یہ پردہ داری ہے؟


[AYAH]2:186[/AYAH] اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہئے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تاکہ وہ راہِ (مراد) پاجائیں

[AYAH]2:189[/AYAH] (اے حبیب!) لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: یہ لوگوں کے لئے اور ماہِ حج (کے تعیّن) کے لئے وقت کی علامتیں ہیں، اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم (حالتِ احرام میں) گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی تو (ایسی الٹی رسموں کی بجائے) پرہیزگاری اختیار کرنا ہے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ

[AYAH]2:215[/AYAH] آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں: جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بیشک اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے

[AYAH]2:217[/AYAH] لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: اس میں جنگ بڑا گناہ ہے اور اﷲ کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجدِ حرام (خانہ کعبہ) سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اﷲ کے نزدیک (اس سے بھی) بڑا گناہ ہے، اور یہ فتنہ انگیزی قتل و خون سے بھی بڑھ کر ہے اور (یہ کافر) تم سے ہمیشہ جنگ جاری رکھیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر (وہ اتنی) طاقت پاسکیں، اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اور پھر وہ کافر ہی مرے تو ایسے لوگوں کے دنیا و آخرت میں (سب) اعمال برباد ہو جائیں گے، اور یہی لوگ جہنمی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

[AYAH]2:219[/AYAH] آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ (دنیوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے، اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں: جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)، اسی طرح اﷲ تمہارے لئے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو

[AYAH]2:220[/AYAH] (تمہارا غور و فکر) دنیا اور آخرت (دونوں کے معاملات) میں (رہے)، اور آپ سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: ان (کے معاملات) کا سنوارنا بہتر ہے، اور اگر انہیں (نفقہ و کاروبار میں) اپنے ساتھ ملا لو تو وہ بھی تمہارے بھائی ہیں، اور اﷲ خرابی کرنے والے کو بھلائی کرنے والے سے جدا پہچانتا ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا، بیشک اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے

[AYAH]2:222[/AYAH] اور آپ سے حیض (ایامِ ماہواری) کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: وہ نجاست ہے، سو تم حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کش رہا کرو، اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جایا کرو، اور جب وہ خوب پاک ہو جائیں تو جس راستے سے اﷲ نے تمہیں اجازت دی ہے ان کے پاس جایا کرو، بیشک اﷲ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے

[AYAH]4:153[/AYAH] (اے حبیب!) آپ سے اہلِ کتاب سوال کرتے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے (ایک ہی دفعہ پوری لکھی ہوئی) کوئی کتاب اتار لائیں، تو وہ موسٰی (علیہ السلام) سے اس سے بھی بڑا سوال کر چکے ہیں، انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اﷲ (کی ذات) کھلم کھلا دکھا دو، پس ان کے (اس) ظلم (یعنی گستاخانہ سوال) کی وجہ سے انہیں آسمانی بجلی نے آپکڑا (جس کے باعث وہ مرگئے، پھر موسٰی علیہ السلام کی دعا سے زندہ ہوئے)، پھر انہوں نے بچھڑے کو (اپنا معبود) بنا لیا اس کے بعد کہ ان کے پاس (حق کی نشاندہی کرنے والی) واضح نشانیاں آچکی تھیں، پھر ہم نے اس (جرم) سے بھی درگزر کیا اور ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو (ان پر) واضح غلبہ عطا فرمایا

[AYAH]5:4[/AYAH] لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں، آپ (ان سے) فرما دیں کہ تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور وہ شکاری جانور جنہیں تم نے شکار پر دوڑاتے ہوئے یوں سدھار لیا ہے کہ تم انہیں (شکار کے وہ طریقے) سکھاتے ہو جو تمہیں اﷲ نے سکھائے ہیں، سو تم اس (شکار) میں سے (بھی) کھاؤ جو وہ (شکاری جانور) تمہارے لئے (مار کر) روک رکھیں اور (شکار پر چھوڑتے وقت) اس (شکاری جانور) پر اﷲ کا نام لیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے

[AYAH]5:101[/AYAH] اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جبکہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تم پر (نزولِ حکم کے ذریعے ظاہر (یعنی متعیّن) کر دی جائیں گی (جس سے تمہاری صواب دید ختم ہو جائے گی اور تم ایک ہی حکم کے پابند ہو جاؤ گے)۔ اللہ نے ان (باتوں اور سوالوں) سے (اب تک) درگزر فرمایا ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بردبار ہے

[AYAH]5:102 [/AYAH] بیشک تم سے پہلے ایک قوم نے ایسی (ہی) باتیں پوچھی تھیں، (جب وہ بیان کر دی گئیں) پھر وہ ان کے منکر ہوگئے

[AYAH]7:187 [/AYAH] یہ آپ سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے؟ فرما دیں کہ اس کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہے، اسے اپنے (مقررہ) وقت پر اس (اللہ) کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین (کے رہنے والوں) پر (شدائد و مصائب کے خوف کے باعث) بوجھل (لگ رہی) ہے۔ وہ تم پر اچانک (حادثاتی طور پر) آجائے گی، یہ لوگ آپ سے (اس طرح) سوال کرتے ہیں گویا آپ اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں، فرما دیں کہ اس کا علم تو محض اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کو) نہیں جانتے

[AYAH]8:1 [/AYAH] (اے نبئ مکرّم!) آپ سے اَموالِ غنیمت کی نسبت سوال کرتے ہیں۔ فرما دیجئے: اَموالِ غنیمت کے مالک اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کو درست رکھا کرو اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اگر تم ایمان والے ہو

کیا دوسرے رسولوں کو اپنی طرف سے کہنے کا حق تھا؟
[AYAH]11:46[/AYAH] ارشاد ہو: اے نوح! بیشک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے، پس مجھ سے وہ سوال نہ کیا کرو جس کا تمہیں علم نہ ہو، میں تمہیں نصیحت کئے دیتا ہوں کہ کہیں تم نادانوں میں سے (نہ) ہو جانا

[AYAH]17:85[/AYAH] اور یہ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، فرما دیجئے: روح میرے رب کے اَمر سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے

[AYAH]18:83[/AYAH] اور (اے حبیبِ معظّم!) یہ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں، فرما دیجئے: میں ابھی تمہیں اس کے حال کا تذکرہ پڑھ کر سناتا ہوں

[AYAH]20:105[/AYAH] اور آپ سے یہ لوگ پہاڑوں کی نسبت سوال کرتے ہیں، سو فرمادیجئے: میرا رب انہیں ریزہ ریزہ کر کے اڑا دے گا

[AYAH]25:57[/AYAH] آپ فرما دیجئے کہ میں تم سے اس (تبلیغ) پر کچھ بھی معاوضہ نہیں مانگتا مگر جو شخص اپنے رب تک (پہنچنے کا) راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے (کرلے)

[AYAH]33:63[/AYAH] لوگ آپ سے قیامت کے (وقت کے) بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجئے: اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، اور آپ کو کس نے آگاہ کیا شاید قیامت قریب ہی آچکی ہو

[AYAH]43:14[/AYAH] اور یقیناً یہ (قرآن) آپ کے لئے اور آپ کی امت کے لئے عظیم شرف ہے، اور (لوگو!) عنقریب تم سے پوچھا جائے گا (کہ تم نے قرآن کے ساتھ کتنا تعلق استوار کیا)
 

باذوق

محفلین
کیا اللہ تعالی نعوذ‌باللہ اتنے نا سمجھ ہیں کہ وہ لاکھوں روایات قرآن میں‌لکھنا ہی بھول گئے ...... اور ہاں کوئی اصل کتاب بھی نہیں‌ رکھنا ان روایات کی ؟؟؟
جواب : یہاں
اور پھر آپ کے "نبیوں" کو 250 سال بعد ایران میں پیدا کیا
جواب : یہاں
صاحب پہلے کوئی کتاب لائیے جو اصل میں بخاری کی لکھی ہوئی ہو، مسلم کی لکھی ہوئی ہو، یا کسی بھی اور محدث جن پر آپ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ کتب لکھی تھیں۔ جب یہ اصل کتب سامنے ہوں‌تو پھر اس پر بات کریں گے۔ ان غائب کتب روایات پر اتنا یقین؟ صاحب، جب کسی ایسی کتاب کا آج تک وجود نہیں ہے جو بخاری، مسلم وغیرہ نے لکھی ہوں تو کیوں وقت ضائع کرتے ہیں ان من گھڑت کہانیوں پر؟ کچھ قرآن ہی پڑھ لیا کریں۔ قرآن سے اتنی نفرت کیسی؟ کچھ تو ہے جس کی یہ پردہ داری ہے؟
جواب : یہاں
[AYAH]2:186[/AYAH] / [AYAH]2:189[/AYAH] / [AYAH]2:215[/AYAH] / [AYAH]2:217[/AYAH] / [AYAH]2:219[/AYAH] / [AYAH]2:220[/AYAH] / [AYAH]2:222[/AYAH] / [AYAH]4:153[/AYAH] / [AYAH]5:4[/AYAH] / [AYAH]5:101[/AYAH] / [AYAH]5:102 [/AYAH] / [AYAH]7:187 [/AYAH] / [AYAH]8:1 [/AYAH]
کیا دوسرے رسولوں کو اپنی طرف سے کہنے کا حق تھا؟
[AYAH]11:46[/AYAH] / [AYAH]17:85[/AYAH] / [AYAH]18:83[/AYAH] / [AYAH]20:105[/AYAH] / [AYAH]25:57[/AYAH] / [AYAH]33:63[/AYAH] / [AYAH]43:14[/AYAH]
جواب : یہاں
 
حقیقت: اصل قول و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ قرآن حکیم کے مطابق ہوگی۔

فراہم کئے گے جوابات بہت ہی بچکانہ جوابات ہیں۔
قرآن بحیثیت ایک کتاب رسول اکرم کی زبان سے ادا ہو درست۔ کتب روایات کو قرآن کے مشابہ قرار دینا ، غلط۔
قران کے رسول اکرم صلعم کی زبان سے ادائیگی کے بعد سے آج تک کے حوالے موجود ہیں۔ لیکن ان کتب روایات کے حوالے چند سو سال پہلے ختم ہو جاتے ہیں۔ جن علماء‌ سے یہ کتب روایات منسوب کی جاتی ہیں ان کی اصل بھی موجود نہیں۔ بخاری ہی چند سو سال پیشتر اپنی ضخامت کھو بیٹھتی ہے۔ اور چھوٹی چھوٹی جلدوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ یہ من گھڑت کہانیاں صرف سنی سنائی پر چل رہی ہیں۔ کیا یہ روایات مکمل طور پر آج درست ہیں اور کیا قول و سنت رسول اکرم نے ادا کئے اس کی صحت میں ان کتب کے علما خود بھی کھوئے ہوئے ہیں۔ بیشتر کہانیان۔ ان کتب میں تردیدی کہانیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ حتی کہ یہ کتب روایات قرآن کریم کی بھی تردید کرتی ہیں۔

قرآن جن امور کے بارے میں اختلافی رویہ رکھتا ہے اور درج ذیل اقدامات سے واضح طور پر منع فرماتا ہے وہاں ان کتب روایات کا واضح اور واحد مقصد درج ذیل مقاصد حاصل کرنا لگتا ہے ، لیکن ان کتب روایات کے ماننے والے کبھی ان امور پر بحث نہیں کریں گے بلکہ پوچھنے والے کو قرآن اور حدیث کی بحث میں الجھا دیتے ہیں۔ جبکہ قرآن اور سنت بالکل برحق ہے۔ اور سنت قرآن کے مطابق ہے۔

دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کتب روایات کا مقصد درج ذیل ہے:
1۔ عورتوں کا استحصال کیا جاسکے۔ انکو تعلیم سے محروم رکھا جاسکے۔ تعلیم صرف چند لوگوں تک محدود ہو تاکہ حکومت پر قبضہ رہے۔
2۔ کثرت ازدواج (حرم) نکاح یا بناء‌ نکاح‌کے عورتوں کو جانوروں کی طرح برتا جاسکے۔
3۔ غلامی کو فروغ دیا جاسکے۔ تاکہ چند لوگ سب کی قسمت کے مالک ہوں۔
4۔ عام آدمی کو بس عبادت تک الجھا کر محدود رکھا جائے اور حکومت کے پاس بھی نہ پھڑکنے دیا جاسکے۔ تاکہ عام آدمی سیاست میں‌شریک نا ہوسکے۔
5۔ فرد واحد کی حکومت کو فروغ‌ دیا جاسکے تاکہ جس کی مدد سے "مُلائی سیاست" جاری رکھی جاسکے۔
6۔ اپنی مرضی کے قوانین ' روایات ' کے نام پر بنائے جاسکیں۔ حتی کہ قرآن کو بھی جھٹلایا جاسکے۔ اپنی خامیوں کی بناء پر آج "مُلائی فتوے" کسی بھی عدالت میں قابل قبول نہیں
7۔ انتخابات کے بجائے اندرونی طور پر اپنے من پسند نمائندے براجمان کئے جاسکیں۔ جن کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنے والے کا سر قلم کیا جاسکے۔
8۔ اپنے ہر قبیح ‌قدم کو چاہے وہ قرآن کے مخالف ہی کیوں‌نہ ہو جائز قرار دیا جاسکے۔ کسی بھی قسم کی مخالفت کی سزا موت۔

حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی کتب روایت اس شکل میں جس شکل میں اور ترتیب میں آج پائی جاتی ہے اس جیسی کتب 400 سال پرانی ‌بھی دستیاب نہیں ہیں۔ یہ کتب روایات پچھلی چند صدیوں کی پیداوار ہیں۔ قول رسول کے خلاف قرآن کو دور دور رکھنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ اصل علماء جن سے یہ کتب منسوب کی جاتی ہیں اگر آج کی ان کتب کو دیکھیں‌تو صرف حیران ہیہوں گے کہ یہ میں نے لکھی تھیں ؟؟؟؟‌

قرآن مسلسل اپنے آپ کو ایک کسوٹی قرار دیتا ہے، حتمی قرار دیتا ہے۔ اور یہ کتب مسلسل یہ کہتی ہیں کہ قرآن سے ہٹ‌کر بحث کرنا چاہئیے۔ گویا یہ کتب قرآن مخالف ہیں۔ جس کتاب نے صاحب قرآن کوصاحب قرآن اور رسول بنایا، جس کتاب کو نازل کرنے کے لئے اللہ تعالی نے رسول اکرم صلعم سے وعدہ نبوت لیا ۔ ان کتب روایات میں رسول اکرم اپنے صحابہ کو ہدایت کرتے ہیں کہ قرآن سے دور رہنا؟؟؟ چہ معنی دارد؟

جو صاحب بھی ان کتب کے بارے میں اپنی رائے دیں۔ ایک 500، یا 600 یا 700 سال سے لیکر 1250 سال پرانی کسی بھی قسم کی کوئی اصل کتب روایات کا ایک لنک ہی پیش کردیں کہ یہ رہی وہ اصل کتاب جس سے اس صدی کی یہ نئی کتاب چھپی ہے۔ قرآن انسانوں کے معاملے میں صرف آنکھ دیکھی گواہی قبول کرتا ہے، سنی سنائی گواہی کسی عدالت میں قابل قبول نہیں۔ چونکہ یہ کتب انسانوں کی لکھی ہوئی ہیں لہذا اصل دیکھنا ضروری ہے۔ قرآن کی اصل نا بھی ہوتی تو ہم اس کو قرآن مانتے کہ یہ اللہ کا فرمان ہے۔ جبکہ باقی کتب روایات انسانوں کی لکھی ہوئی کتب ہیں اس لئے آنکھوں‌سے ان اصل کتب کا دیکھنا ضروری ہے۔ اصل کتاب دکھائیے تو پھر ہم کو گواہی قبول ہے ورنہ سنی سنائی ناقابل قبول۔

گو کہ اس کی ضرورت نہیں ہے لیکن پھر بھی پیش خدمت ہیں۔
عثمانی قرآن کے لنکس
http://www.irfi.org/articles/articles_401_450/oldest_quran_in_the_world.htm

ایک اور پرانا عثمانی قرآن کا نسخہ۔
http://wings.buffalo.edu/sa/muslim/img/isl/pages/quran3.html

700 سال پرانا قرآن
http://www.islamicfinder.org/gallery/displayimage.php?album=27&pos=0

800 سال پرانا قرآن
http://onelightcinema.blogspot.com/2007/10/800-year-old-quran-sells-for-record.html

آپ کو یہ جان کر نہایت مسرت ہوگی کہ صرف 400 سال پرانی کوئی بھی کتاب روایت ، آج کی کسی بھی کتب روایات سے نہیں ملتی جلتی۔۔۔ پھر کس منہہ سے ان کتب کی درستگی اور اصل لکھنے والوں سے ان کتب کو منسوب کیا جاتا ہے؟

ان کتب روایات میں اور "‌غیر مسلموں "‌ کی کتب میں کیا فرق رہ گیا کہ پچھلے ہزار سال پرانے نسخے ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ قرآن حکیم درستگی کا معیار کسی بھی قسم کی تبدیلی سے مبراء‌ہونے کو قرار دیتا ہے۔ جبکہ ان کتب روایات میں کسی بھی قسم کی ترتیب یا مواد وقت کے ساتھ ساتھ یکساں نہیں۔ سو سال پرانی کتاب کے نسخے جن کو یہ لوگ خود پیش کرتے ہیں انہی کے بیشتر حصوں کو یہ جھٹلاتے ہیں :) خود ملا ان کتب پر آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں ۔ یہی ملا ہونے کے سب سے بڑی نشانی ہے ۔ دین ملا ، فساد فی سبیل اللہ۔

حقیقت: اصل قول و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ قرآن حکیم کے مطابق ہوگی۔
 
جناب سیفی صاحب۔ یہ دھاگہ اس بحث کے لئے موزوں ہے جو آپ 22 سالہ مزدور کے قتل کے دھاگے میں کرنا چاہتے ہیں۔

آپ کا درج ذیل جملہ درست نہیں ہے۔
اور ہر جگہ فاروق صاحب اسی نظریہ کا پرچار کرتے پھرتے ہیں کہ کتبِ احادیث جھوٹی ہیں اور صرف قرآن ہی مسلمان کے تمام دینی امور کے لئے کافی ہے۔

آپ کتب احادیث کے الفاظ کتب روایات سے بدل دیجئے۔ یہ جملہ درست ہو جائے گا۔

کتب روایات ہر فرقہ کی الگ ہیں ، ان میں کہیں کہیں اقوال و اعمال رسول بھی ہیں جو کہ قران کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔ لیکن اس میں سے بیشتر روایات سنی سنائی ہیں۔ وہ اس لئے کہ ہر سو سال پیچھے جانے پر ان کتب کی ضخامت کم تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ متن تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے اور ترتیب تبدیل ہوجاتی ہے۔ مختلف فرقے ان کتب کے مختلف ایڈیشنز پر یقین رکھتے ہیں جبکہ دوسرا فرقہ دوسرے فرقہ کی کتب کو جھٹلاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آپ کس فرقہ کی کتب روایات کے کس ایڈیشن پر یقین رکھتے ہیں۔ جو لوگ آپ سے پہلے مجھ سے قرآن و حدیث کی روایتی بحث کرنے میں مصروف رہے ہیں ، ان کو جب ان کی ہی 100 سال کے قریب پرانی چھپی ہوئی کتب سے روایات پیش کی گئی تھیں تو انہوں نے خود ہی ان روایات کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔

آپ نے اب تک ایک بار بھی نہیں‌بتایا کہ آپ کا اپنا ایمان کن کتب پر ہے؟ اور ان کتب کے کس ایڈیشن پر ہے؟ تو ذہن میں‌رکھئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور اعمال کی بات نہیں کررہے ہیں بلکہ پچھلے 1250 سالوں میں ہم اس کو ریکارڈ‌کرنے اور اس کی صحت پر بات کررہے ہیں۔ جو کہ ایک ناقابل اعتماد طریقہ ثابت ہوتا ہے۔ لوگ عموماًَ یہ دعوی کرتے ہیں کہ بخاری و مسلم نے یہ کتب ڈھونڈھ کر اکٹھی کی تھیں، ان سے سوال یہ ہے کہ وہ اصل کتب یا ان کتب کی نقل کہاں‌دریافت ہے جن میں اصل بخاری و مسلم کی جمع شدہ حدیثیں‌ تھیں۔ اور اگر وہ کتب دستیاب نہیں تو پھر کونسی کتب قابل قبول ہیں ؟ ان کے ورژن اور ایڈیشن کے بارے میں مطلع فرمائیے ، اور ساتھ میں وہ لسٹ ‌بھی فراہم کیجئے کہ ان کتب میں سے کونسی روایات آپ کو قابل قبول ہیں اور وہ جو آپ کو ناقابل قبول ہے ، جب یہی پتہ نہ ہو کہ کس کتاب کی بات ہورہی ہے تو پھر بحث کیسی۔ انشاء اللہ بہت جلد آپ یہ دریافت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ ایسی کتب کے ان گنت ورژن اور ان گنت ‌ایڈیشنز موجود ہیں جن پر ہر فرقہ " صحیح بخاری "‌ اور "صحیح مسلم"‌ کی مہر لگاتا ہے۔ اور ان کتب میں موجود سے بیشتر روایات کو "غلط مسلم"‌اور " غلط بخاری " قرار دیتا ہے۔ کوئی غلط کی جگہ ضعیف کا لفظ‌استعمال کرتا ہے تو کوئی کچھ اور۔

کچھ مخصوص‌اسلام نما فرقے، درج ذیل آیات کو اس مد میں پیش کرتے ہیں کہ رسول اکرم پر جو وحی نازل ہوئی وہ مکمل طور پر قرآن میں‌ شامل نہیں بلکہ قرآن نعوذ باللہ نامکمل ہے باقی وحی شدہ آیات رسول اکرم نے اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو بتا دی تھیں جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔ اور کتب احادیث میں بعد میں‌ریکارڈ‌ ہوئی لیکن ذرا فرق رہ گیا کیمیا گری میں۔ ایسا یقین رکھنا رسول اکرم پر الزام رکھنے کے مترادف ہے کہ وہ مکمل قرآن لکھوا نہ سکے ، قرآن کی 6236 آیات کے بعد بھی لاکھوں یا ہزاروں‌ وحی شدہ آیات باقی تھیں جو ان کتب میں‌ بعد میں شایع ہوئیں۔ نعوذ‌ باللہ۔ پھر ایسا یقین رکھنا اللہ تعالی پر شک کرنے کے مترادف ہے کہ وہ اپنی وحی شدہ آیات کی حفاظت نہیں فرما سکے۔ کچھ آیات قرآن میں‌شامل ہوپائیں اور باقی آیات ادھر ادھر رہ گئی تھیں جو 250 سال بعد بخاری و مسلم نے جمع کیں اور پھر ان کی بھی حفاظت نہ ہوسکی؟ وہ اصل کتب بھی دستیاب نہیں جو بخاری و مسلم نے لکھی تھیں؟ بہت ممکن ہے کہ بخاری و مسلم ان کتب کو دیکھیں تو پہچان بھی نہ پائیں

تو پھر درج ذیل آیات کا مطلب کیا ہوا؟

[AYAH]53:3[/AYAH] [ARABIC]وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى [/ARABIC]
اور نہیں بولتا ہے وہ اپنی خواہشِ نفس سے۔
[AYAH]53:4[/AYAH] [ARABIC] إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى [/ARABIC]
نہیں ہے یہ کلام مگر ایک وحی، جو نازل کی جارہی ہے۔

اگر دین مکمل نہں تھا، ان باقی رہ گئی آیات پر مشتمل 6 کتب 250 سال بعد کے پیغمبران نے لکھنی تھیں‌ تو پھر خدا کیا جلد بازی میں (نعوذ‌باللہ) نے رسول اکرم کی زندگی میں‌ ہی یہ کیوں‌کہہ گیا؟
[ARABIC]حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ بِالْأَزْلاَمِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ [ARABIC]الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا [/ARABIC]فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ[/ARABIC]
تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا، اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لئے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم پانسوں (یعنی فال کے تیروں) کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرو (یا حصے تقسیم کرو)، یہ سب کام گناہ ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین (کے غالب آجانے کے باعث اپنے ناپاک ارادوں) سے مایوس ہو گئے، سو (اے مسلمانو!) تم ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک (اور پیاس) کی شدت میں اضطراری (یعنی انتہائی مجبوری کی) حالت کو پہنچ جائے (اس شرط کے ساتھ) کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو (یعنی حرام چیز گناہ کی رغبت کے باعث نہ کھائے) تو بیشک اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

نا خدا یہ بات جلدی میں‌کہہ گیا اور نہ ہی یہ غلط ہے کہ رسول اللہ صرف وحی کی صورت میں عطا کردہ آیات قرآن میں اہتمام سے شامل کرتے تھے اور لکھوا لیتے تھے۔ اسی دھاگہ میں میں نے وہ آیات بھی شامل کی ہیں جو اس قسم کی ہیں۔

سورۃ البقرۃ:2 , آیت:189 (اے حبیب!) لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں:

یہ درجن سے ریادہ آیات جن کو یہان اس سے پیشتر دیا گیا ہے ، ثبوت ہے کہ رسول صرف وحی ہی قرآن میں شامل کرتے تھے۔ لہذا وہ کچھ نہیں‌کہتے ما سوائے وحی کہ ایک درست آیت ہے اور اس کا مطلب یہ نہیں‌کہ قرآن نا مکمل ہے یا کچھ امور وا ٰآیات ‌قرآن میں شامل ہونے سے رہ گئی تھیں جن کو بعد میں کتب روایات میں‌شامل کیا گیا۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
کتب روایات ہر فرقہ کی الگ ہیں ، ان میں کہیں کہیں اقوال و اعمال رسول بھی ہیں جو کہ قران کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔ لیکن اس میں سے بیشتر روایات سنی سنائی ہیں۔ وہ اس لئے کہ ہر سو سال پیچھے جانے پر ان کتب کی ضخامت کم تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ متن تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے اور ترتیب تبدیل ہوجاتی ہے۔ مختلف فرقے ان کتب کے مختلف ایڈیشنز پر یقین رکھتے ہیں جبکہ دوسرا فرقہ دوسرے فرقہ کی کتب کو جھٹلاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آپ کس فرقہ کی کتب روایات کے کس ایڈیشن پر یقین رکھتے ہیں۔ جو لوگ آپ سے پہلے مجھ سے قرآن و حدیث کی روایتی بحث کرنے میں مصروف رہے ہیں ، ان کو جب ان کی ہی 100 سال کے قریب پرانی چھپی ہوئی کتب سے روایات پیش کی گئی تھیں تو انہوں نے خود ہی ان روایات کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔
جی جناب اگر یہی صورت حال قرآن پاک پر کوئی اپلائی کریں اور تفاسیر کے بارے میں یہی کہے جو آپ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتے ہیں تو ( نعوذ باللہ من ذلک) تو کیا قرآن مجید مشکوک ہو جائے گا کیونکہ تفاسیر کی توبیس بیس اور سو سو (100 ) جلدیں ملتی ہیں اور جس طرح اب ہو بھی رہا ہے کہ یہ آیات صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک محدود تھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو کام کئے تھے وہ قرآن سے ہٹ کر کئے تھے ؟
- [ARABIC]حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ حَرِيزِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ
عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَهْلِيِّ وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنْ السَّبُعِ وَلَا لُقَطَةُ مُعَاهِدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُ فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُ فَلَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ
[/ARABIC] ( الحدیث ابوداؤد و الدارمی)
ترجمہ: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار ! بے شک مجھے دیا گیا ہے قرآن اور اس جیسا اس کےساتھ ، خبردار قریب ہے کہ کوئی آدمی پیٹ بھر کے کھانے والا اپنے صوفہ سیٹ پر تکیہ لگانے والا ہو کہے گا لازم ہے تم پر یہ قرآن پس جو تم اس میں پاؤ گے حلال اس کو حلال سمجھو اور جو اس میں پاؤ حرام تو اس کو حرام سمجھو اور بے شک جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا ہے وہ اس جیسا ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے حرام کیا ہے ۔
 
واجد صاحب شکریہ۔
قرآن کی تفاسیر کی مثال بہت اچھی ہے لیکن کسی طور بھی کتب روایات سے نہیں ملتی جلتی۔ میں نے نیچے ایک دوسرا تھریڈ کاپی کرکے جواب دیا ہے۔ قرآں کی تفاسیر میں تبدیلی، قرآن کے اصل متن میں تبدیلی نہیں ہے۔ کوئی کیسی بھی تفسیر لکھ دے اصل قرآن اپنی جگہ موجود ہے۔ لوگوں کی کتب روایات (‌احادیث و اعمال رسول نہیں ) کو قرآن کے مساوی کرنے کا کیا مقصد ہے؟ کیا ان کتب پر ایمان مثل القرآن رکھنا ہے کہ ان میں‌کوئی تبدیلی ہی واقع نہیں ہوئی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 250 سال بعد ان اقوال میں تبیدلی آنا، اضافہ ہونا، تعداد و ترتب و متن تبدیل ہوتے رہنا، آپ کے خیال میں کس بات کی علامت ہے؟ پھر اہانت رسول سے پر واقعات کا ان کتب میں پایا جانا کس بات کی علامت ہے؟
 
عنوان توہین رسالت سے متعلق ہے اور ہمیشہ کی طرح آخر میں قرآن بمقابلہ حدیث کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اس سلسلے کی روک تھام کے لیے میری چند گذارشات ہیں۔

احادیث سے متعلق فاروق صاحب کے خیالات کا زیروبم مرتعش رہتا ہے اور کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر کبھی ان کا اعتراض احادیث کے متن کے حوالے سے ہوتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ایسی احادیث بھی ہیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین موجود ہے، شروع میں انہوں نے ایک کتاب کا حوالہ دیا جس میں تحقیق سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ احادیث میں قابل اعتراض مواد بھی پایا جاتا ہے، ایسے میں قسیم حیدر صاحب نے ان احادیث کے اقتباس کے ساتھ اپنی تحقیق پیش کرنا شروع کی اور ان اعتراضات کو رفو کرنا شروع کردیا۔ میں نے واضح طور پر اندازہ لگایا کہ فاروق صاحب نے قسیم صاحب کی اس بہترین کاوش کو ماننے سے ہی انکار کردیا اور عام فہم باتوں کو اس لیے رد کردیا کہ اگر ان کو مان لیا گیا تو پھر احادیث سے انکار کیسے ممکن ہوگا۔ یہ میرا اندازہ ہے ہوسکتا ہے کہ غلط ہو لیکن جو لوگ حقیقت جاننا چاہتے ہیں میں انہیں دعوت دوں‌گا کہ ان دھاگوں کا مطالعہ کریں جہاں قسیم صاحب نے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے جو متن کے لحاظ سے کیے گئے ہیں۔ قسیم صاحب کے اس سلسلے کا اختتام اس طرح ہوا کہ فاروق صاحب نے قسیم بھائ سے گذارش کی کہ آپ کی باتیں میرے پلے نہیں پڑتیں‌اور میری باتیں آپ نہیں‌سمجھتے لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ہم یہ سلسلہ بند کرکے قرآن فہمی کا سلسلہ شروع کریں۔ کیونکہ درایت کے لحاظ سے اعتراضات کا حال یہ دیکھ چکے تھے سو اب ان کے اعتراضات نے کروٹ بدلی اور درایت کی جگہ روایت نے لے لی۔ اس میں بھی کبھی یہ متواتر روایات کو تسلیم کرتے ہیں اور کبھی تو احادیث کے تمام سلسلے کو ہی من گھڑت قرار دے کر ایرانیوں سے منسوب کرکے قصہ تمام کردیتے ہیں۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ کبھی کبھی یہ موضوع کو ہائی جیک کرنے کے لیے ایسے تاریخی واقعات کا ذکر بھی کربیٹھتے ہیں جو خود انہیں کے فارمولے کے لحاظ سے ناقابل اعتبار ہوتے ہیں جیسا کہ اسی دھاگے میں ہوا۔ لیکن کیونکہ توہین رسالت کے حوالے سے یہ واقعات ان کے موقف کو تقویت دیتے ہیں لہٰذا انہوں نے یہ واقعات نقل کر ڈالے۔ اراکین محفل نے اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے "سنت کی آئینی حیثیت" برقیانے کا فیصلہ کیا جوکہ الحمدللہ پایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔ سنت کی آئینی حیثیت ایک منکر حدیث کے خطوط اور اس کے جوابات پر مشتمل ہے۔ آپ اس کا مطالعہ کیجیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ انکار حدیث کرنے والوں کے موقف تھالی کے بینگن کی طرح لڑھکتے پھرتے ہیں اور ہر معقول جواب کے بعد انکار حدیث کے لیے مزید نکات تلاشنے شروع کردیتے ہیں۔ منکرین احادیث کی اخلاقیات کا صحیح اندازہ آپ کو سنت کی آئینی حیثیت پڑھ کر ہی ہوگا۔ جب بات کسی صورت نہیں بنتی تو یہ کوسنے دینے شروع ہوجاتے ہیں کہ ملا قرآن کے بجائے احادیث کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ حالانکہ ساری امت اس بات پر متفق ہے کہ قرآن خدا کا آخری کلام ہے اور ہماری رہنمائ کا واحد ذریعہ۔ مسلم امت احادیث کو (نعوذباللہ) قرآن کے بمقابل نہیں سمجھتی۔ بلکہ امت کا موقف یہ ہے کہ یہ توصاحبِ قرآن کے ارشادات و اطوار ہیں جو کہ قرآن کی تشریح ہیں اور قرآن سے ہدایت اخذ کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ رہبر و رہنما ہونے کی حیثیت سےجو معاشرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترتیب دیا اور قرآن کے احکامات کو جس طرح عملی جامہ پہنایا کیا وہ اس قابل نہیں کہ عملی زندگی میں قرآن کی پیروی کرنے کے لیے اس سے مدد لی جائے؟ فارق صاحب یہ موقف اچھی طرح جانتے ہیں لیکن زبردستی اس “غلط فہمی“ کا شکار رہتے ہیں کہ احادیث کو قرآن کا درجہ دیا جاتا ہے۔ تو اب میری فاروق صاحب سے التماس ہے کہ وہ اپنے موقف کو بار بار بدلنے کی زحمت سے بچیں اور صاف صاف کہہ دیں کہ میں احادیث کو نہیں مانتا بھاویں کچھ ہوجاوے۔ مجھے امید ہے کہ اس کے بعد کوئ آپ کو دلیل سے احادیث کی حلت سمجھانے کی کوشش نہیں کرے گا اور آئے روز کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا۔

امید ہے کہ فاروق صاحب کو یہ آئیڈیا پسند آئیگا اور اس سے ان کو سہولت بھی ہوجائے گی۔ باقی اگر فارق صاحب کو میری پوسٹ میں کوئ “ذاتی حملہ“ نظر آئے تو میں ادب کے ساتھ پیشگی عرض کردوں کہ مجھے آپ کی ذات سے اعشاریہ ایک فیصد بھی اعتراض نہیں، میں یہاں صرف آپکے موقف کی بات کررہا ہوں۔ میں بحث و مباحث میں ذات پات کا قائل نہیں۔

آخر میں ایک بات یاد آگئی۔ ایک دفعہ ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم سے سنت و احادیث کی بابت پوچھا گیا انہوں نے کہا؛
“اگر کوئ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہتا کہ صاحب میں وحی پر تو ایمان لاتا ہوں لیکن آپ کے ذاتی احکامات کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ ان کو مانوں۔ ایسے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود ہوتے تو اس شخص کا کیا حال ہوتا؟“

خاور بلال صاحب، آپ کی گذارشات تو کہیں نطر نہ آئیں البتہ آپ کا میرے بارے میں جھوٹ‌کا پلندہ ضرور نظر آیا۔ جو بیانات آپ نے دئے ہیں میرے بارے میں وہ آپ کا اپنا خیال ہے۔ میں نے احادیث اقوال و اعمال رسول کے بارے میں یہ بیانات نہیں کبھی نہیں دیے۔ اس کا ثبوت درج ہے۔ پیشتر درج ہے اور میرے دل میں ہے۔

میرا ذاتی اقوال و اعمال احادیث پر ایمان:
میں رسول اکرم کے اقوال و اعمال پر مکمل یقین رکھتا ہوں اور رسول اکرم کے حکم کے مطابق، ضوء القران یعنی قرآن کی روشنی میں رسول اللہ کے اقوال و اعمال رسول پر یقین رکھتا ہوں۔ کہ یہ میرے ذاتی ایمان کا حصہ ہے ۔لیکن اس کے علاوہ تمام تر انسانوں کے بیان کردہ بیانات کو انسانوں کے بیانات سمجھتا ہوں۔ جن کو پڑھنے میں احتیاط برتنا ضروری سمجھتا ہوں۔

ان انسانی بیانات پر میں ایمان مثل القرآن نہیں رکھتا اور موجودہ کتب روایات میں موجود کچھ روایات کو میں شبہ کی نظر سے دیکھتا ہوں خاص طور پر ان روایات کو جو واضح طور پر قران کے مخالف ہیں۔

میرے اس میں کبھی تبدیلی نہیں‌آئی لہذا یہ کہنا کہ میرا خیال بدلتا رہتا ہے آپ کے اپنے خیالات کی ایجاد ہے ۔

1۔ وہ کتب روایات جو بازار میں عام طور پر ملتی ہیں اور جن پر آپ کا ایمان مثل القران ہے۔ ان کتب روایات (‌چھپی ہوئی کتب یا برقیائی گئی کتب)‌۔ ان کتب کا اصل دستیاب نہیں ہے۔ اور اگر ہے تو فراہم کریں۔

2۔ اگر آپ ان کتب پر مثل قرآن یقین نہیں رکھتے تو پھر جھگڑا کیا ہےِ ؟ مان لیجئے کہ یہ کتب امتداد زمانہ کا شکار ہیں اور مجھے حیرانی نہ ہوگی کہ اگر یہ معلوم ہو کہ دشمنان اسلام نے ان کتب میں خاطر خواہ بد نیت اضافہ کیا ہے۔

اور اگر مثل القران ان کتب پر یقین رکھتے ہیں تو ان کی 1150 سالہ پرانی اصل کتب پیش کریں۔ تاک باقی مسلمانوں کو بھی فائیدہ ہو۔
آپ مجھے منکر الحدیث کہتے ہیں۔ بھائی یہ کیا ہوتا ہے؟ منکرالحدیث کی تعریف فرمائیے۔

آپ حضرات منکر الحدیث کا نعرہ بہت ہی ذوق و شوق سے لگاتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ منکر الحدیث کون ہے؟
منکر الحدیث وہ ہے جو رسول اکرم کی احادیث کا انکار کے اور اس کے برعکس دشمنان اسلام کی طرف سے جاری کردہ رسول اکرم سے منسوب کردہ روایات پر یقین رکھتا ہو۔

آس کی روشنی میں اپنے آُ کو دیکھئے کہ کیا آپ منکر الحدیث ہیں؟ کہ مخالف فرقوں کے پاس موجود روایات کا انکار کرتے ہیں اور دشمنان اسلام کی شامل کی ہوئی روایات پر مثل القران ایمان رکھتے ہیں۔ اور اگر نہ رکھتے ہوتے تو پھر نہ یہ بحث ہوتی اور نہ یہ دھاگے۔

آپ میں سے کوئی بھائی بھی اب تک ایک ایسی لسٹ نہیں پیش کرسکا مع سیفی اور باذوق کے کہ قرآن کے علاوہ جس پر آپ کا مثل القرآن یقین ہو بلکہ آپ خود بھی یہی بیان رکھتے ہیں کہ ہم ان کتب پر ایمان مثل القرآن نہیں رکھتے اور تمام کی تمام احادیث صحیح نہیں ہے اور کسی شیطان کی طرح مجھ سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ میں ان کتب پر ایمان مثل القرآن لے آؤں کے ایک نکتہ بھی ان کتب میں تبدیل نہیں ہوا ہے۔ لاحول ولا قوۃ ۔۔۔۔

یہ کتب روایات کا کھلا کھاتہ یقیناً ناقابل اعتبار کھاتہ ہے کہ جب دل چاہا کوئی روایت اس میں اپنی مرضی کی ڈال لی۔ اور جس سے چاہا انکار کردیا۔

جو کچھ قسیم حیدر نے لکھا اس سے میں متفق نہیں تھا۔ وہ سب کچھ ان کی اپنی ترجمانی تھی اور اپنا خیال تھا۔ انتہائی واہیات واقعات کو وہ اپنا رنگ دے کر جائز قرار دیتے رہے۔ اپنا رنگ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ایک سے زیادہ مشہور مفتیوں نے اس کتاب کو پڑھا اور اپنے بیانات سے نوازا کہ یہ اعتراضات درست ہیں۔ انمفتیاں کے نام اس کتاب میں درج ہیں۔ مزید یہ کہ اس سلسلے میں جس کتاب کا میں نے حوالہ دیا اس کو پنجاب ہائی کورٹ کے 9 رکنی بنچ نے ملاؤں کی طرف سے دائر کردہ رٹ میں سنا اور تمام دلائل سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ یہ کتاب سو فی صد درست ہے اور اور فیصلہ دیا کہ آج کی کتب روایات کو نامناسب اور اہانت آمیز مواد سے پاک کیا جائے۔ اور علماء‌اس طرف دھیان دیں ۔ اب میں کس کو زیادہ وزن دون آپ کے بیان کو یا ان مفتیوں اور ججوں کے بیانات کو ؟

بھائی قسیم حیدر ان ہی اہانت آمیز واقعات کو درست ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے جس سے مزید اہانت رسول ہوتی ہے۔ لہذا میں نے استدعا کی کہ وہ اپنا کام کریں اور میں اپنا۔ ان کے مناسب جوابات کے لئے یہ کتاب مع اعتراضات کے لئے موجود ہے ۔ اور پنجاب ہائی کورٹ کے مقدمے کے فیصلے کی کاپی میں پیش کرچکا ہوں۔

سیاسی روایات:
صرف سیاسی اور اجتماعی روایات کو دیکھئے، ذاتی روایات کو نہیں :
مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ جب روایات کے سلسلے میں مظبوط ، صحیح اور ضعیف کے ساتھ ساتھ کئی کلاسیفیکیشنز موجود ہیں تو آج روایات کی ایک بھی کتاب ایسی کیوں نہیں موجود جس پر تمام علماء (‌شیعہ اور سنی اور مزید جغرافیائی فرقوں) کا مکمل اعتماد ہو؟ ایک کتاب بھی ایسی نہیں جو ان رویات کو واضح طور پر صحیح ، اور ضعیف قرار دیتی ہو۔ کیسی مزے کی بات ہے کہ جب چاہتے ہیںکچھ ملا، اپنی مرضی سے رویات کو مظبوط اور ضعیف قرار دے لیتے ہیں۔ ایسا اس لئے کہ ان مولویت (‌ملاؤں کی سیاست ) کا اپنا ایک سیاسی حربہ ہے وہ یہ کہ جب ان بے ایمانوں کا اپنا کام نکلتا ہو تو اپنے مقصد کی حدیث مظبوط بن جاتی ہے اور جو واقعہ یا روایت ان کے راستے میں کھڑی ہوتی ہو تو ایک کمزور روایت بن جاتی ہے ۔ لاحول ولا قوۃ ۔۔۔

اس کے ایک بڑی مثال جہاد اور دہشت گردی کا فرق ہے۔ کہ جہاد جہاں اسلامی فلاحی ریاست کے دفاع کا نام ہے وہاں دہشت گردی "نظریاتی اختلاف پر قتل " کا نام ہے۔ جیسا کہ اس ہندو لڑکے کے قتل کی صورت میں کیا گیا۔ جس کا جواز کسی عدالت نے منظور نہیں کیا۔ ملاؤں نے اختلاف کو مٹانے کے لئے ایسی ایسی روایات پیش کی ہیں کہ جہاد اور دہشت گردی کا فرق مٹ گیا ہے۔ یہ ایک غیر منصفانہ اور قابل مذمت طرز عمل ہے ۔ جس کو جاری نہیں رکھا جاسکتا۔

جیسا کہ عرض‌کیا کہ میرے بارے میں یہ خیال آپ کا اپنا ہے۔ میرا نہیں ۔ میں اس رسول اکرم کی اس حدیث پر عمل کرتا ہوں کہ جب بھی آپ کو میری ( رسول اللہ صلعم) کچھ پیش کیا جائے اسے ضوء القرآن یعنی قرآن کی روشنی میں پرکھ لیجئے۔
 

طالوت

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

قرآن مجید کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے حدیث کی ضرورت اور اس کی تحقیق و تدوین و تشریح کے لئے کی جانے والی کوششوں پر کوئی گفتگو اگر کی جائے تو انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں برصغیر سے اٹھنے والی انکارِ حدیث تحریک کا ذکر بھی آئے گا۔

مولوی عبداللہ چکڑالوی (م:1915ء)
خواجہ احمد دین امرتسری (م:1936ء)
اسلم جیراج پوری (م:1955ء)
عنایت اللہ مشرقی (م:1964ء)
نیاز فتح پوری (م:1966ء)
تمنا عمادی (م:1972ء)
غلام جیلانی برق (م:1985ء)
غلام احمد پرویز (م:1985ء)
وغیرہ نے احادیث کی حجیت کے متعلق جو شکوک و شبہات پھیلائے تھے ، ان کی حقیقت اب کھل چکی ہے۔

حجتِ حدیث ، تاریخ ، کتابتِ حدیث اور صحیح احادیث پر اعتراض کے جواب میں اردو ، انگریزی اور عربی وغیرہ زبانوں میں بہت سی کتابیں چھپ چکی ہیں۔
خود جناب غلام جیلانی برق آخر عمر میں انکارِ حدیث ک نظریات سے یکسر تائب ہو گئے تھے اور بطور کفارہ انہوں نے ایک کتاب تاریخِ حدیث سے متعلق لکھی ، جس میں محدثین کی خدمات کا تعارف کرایا ہے۔

جب احادیث کے انکار کے لئے کوئی گنجائش باقی نہ رہی اور ان کی حجت ، ضرورت ، اہمیت اور استناد سے متعلق شکوک و شبہات بےمعنی ہو گئے تو بعض لوگوں نے ذخیرہ احادیث کی ازسرنو تحقیق اور جانچ کی دعوت دی۔
ان کا کہنا یہ ہے کہ :
محدثین کے اصول و قواعد کے مطابق جو احادیث صحیح ہیں (مثلاً بخاری و مسلم کی احادیث) ، ان کی بھی ازسرنو تحقیق ہونی چاہئے۔ کیونکہ ان کے بقول ، ان میں سے بہت سی احادیث قرآن کے خلاف ، عقل کے خلاف اور سائینسی حقائق کے خلاف ہیں۔

آزادی سے قبل حیدرآباد دکن میں ڈاکٹر سید عبداللطیف نے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز سے ایک کتابچہ شائع کیا تھا جس میں ۔۔۔۔
احادیث کے ازسرنو جانچ کے متعلق برصغیر کے علماء کو دعوتِ فکر دی گئی تھی۔
کسی مستند عالم نے اس کی تائید نہیں کی بلکہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے ڈاکٹر صاحب کو جو کچھ تحریر کیا وہ برصغیر کی انکارِ حدیث تاریخ پر ایک تازیانے سے کم نہیں۔

سید سلیمان ندوی (رح) نے لکھا تھا :



اقتباس از مضمون : محمد عزیر شمس
روزنامہ "اردو نیوز(سعودی عرب)" ، ہفتہ واری سپلیمنٹ "روشنی" ، 21۔مارچ 2008ء۔
باقی گفتگو ایک طرف کہ فاروق سرور خان کے بےشمار اعتراضات ہیں اور انتہائی مضبوط ہیں ۔ میں آپ کی توجہ سید سلیمان ندوی کے اس اقتباس کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو آپ نے کوٹ کیا ہے۔
سید سلیمان ندوی مرحوم نے بےشمار روایات کو رد کیا ، شبلی مرحوم کی پیش کردہ روایات کو رد کیا ان پر حاشئیے چڑھائے ۔ روایات پر نئے سرے سے تنقید کی ۔اور پھر اس بات کا کیا جائے جب محدثین ایک دوسرے کی مخالفت میں ایک ہی راوی کو سچا بھی جھوٹا بھی کہہ رہے ہوں ۔ زبانی دعوے اور بات ہیں اور دلیل اور چیز ۔ ساتھ ہی میں گزارش کروں گا کہ ڈاکٹر غلام جیلانی مرحوم کا جو تائب ہونا آپ بیان کر رہے ہیں اس کی ذرا تفصیل فراہم کر دیں ۔ کیونکہ روایات پر اعتراض کرنے والوں میں داکٹر صاحب کا کام سب سے زیادہ مدلل اور بہترین ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ انھوں نے اس سے تائب ہوتے ہوئے کیا کہا کیا وہ اس پر راضی ہو گئے کہ روایات قران پر حاکم ہو گئیں یا روایات کو وحی الہی کا درجہ مل گیا یا سبھی روایات خصوصا بخاری و مسلم رسولی تفسیر مان لی گئیں ۔
وسلام
وسلام
 
آپ کا درج ذیل جملہ درست نہیں ہے۔
اور ہر جگہ فاروق صاحب اسی نظریہ کا پرچار کرتے پھرتے ہیں کہ کتبِ احادیث جھوٹی ہیں اور صرف قرآن ہی مسلمان کے تمام دینی امور کے لئے کافی ہے۔

آپ کتب احادیث کے الفاظ کتب روایات سے بدل دیجئے۔ یہ جملہ درست ہو جائے گا۔
گویا ترمیم شدہ جملہ۔ جو آپ کے نزدیک قابلِ قبول ھے۔کچھ یوں ھوگا :

"اور ہر جگہ فاروق صاحب اسی نظریہ کا پرچار کرتے پھرتے ہیں کہ کتبِ روایات جھوٹی ہیں اور صرف قرآن ہی مسلمان کے تمام دینی امور کے لئے کافی ہے۔"
یعنی آپ کے نزدیک کتبِ روایات جھوٹی ھیں، لیکن کتبِ احادیث جھوٹی نہیں ھیں۔ ۔ الحمدللہ جھگڑا ھی ختم ھو گیا۔ لگے ھاتھوں ان کتبِ احادیث کے نام ھی بتا دیجئے تاکہ ھم انھی کا مطالعہ کیا کریں:battingeyelashes:
 

طالوت

محفلین
باقی گفتگو ایک طرف کہ فاروق سرور خان کے بےشمار اعتراضات ہیں اور انتہائی مضبوط ہیں ۔ میں آپ کی توجہ سید سلیمان ندوی کے اس اقتباس کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو آپ نے کوٹ کیا ہے۔
سید سلیمان ندوی مرحوم نے بےشمار روایات کو رد کیا ، شبلی مرحوم کی پیش کردہ روایات کو رد کیا ان پر حاشئیے چڑھائے ۔ روایات پر نئے سرے سے تنقید کی ۔اور پھر اس بات کا کیا جائے جب محدثین ایک دوسرے کی مخالفت میں ایک ہی راوی کو سچا بھی جھوٹا بھی کہہ رہے ہوں ۔ زبانی دعوے اور بات ہیں اور دلیل اور چیز ۔ ساتھ ہی میں گزارش کروں گا کہ ڈاکٹر غلام جیلانی مرحوم کا جو تائب ہونا آپ بیان کر رہے ہیں اس کی ذرا تفصیل فراہم کر دیں ۔ کیونکہ روایات پر اعتراض کرنے والوں میں داکٹر صاحب کا کام سب سے زیادہ مدلل اور بہترین ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ انھوں نے اس سے تائب ہوتے ہوئے کیا کہا کیا وہ اس پر راضی ہو گئے کہ روایات قران پر حاکم ہو گئیں یا روایات کو وحی الہی کا درجہ مل گیا یا سبھی روایات خصوصا بخاری و مسلم رسولی تفسیر مان لی گئیں ۔
وسلام
وسلام
وہ کیا کہتے ہیں دلی ہنوز دور است !
وسلام
 
Top