عنوان توہین رسالت سے متعلق ہے اور ہمیشہ کی طرح آخر میں قرآن بمقابلہ حدیث کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اس سلسلے کی روک تھام کے لیے میری چند گذارشات ہیں۔
احادیث سے متعلق فاروق صاحب کے خیالات کا زیروبم مرتعش رہتا ہے اور کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر کبھی ان کا اعتراض احادیث کے متن کے حوالے سے ہوتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ایسی احادیث بھی ہیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین موجود ہے، شروع میں انہوں نے ایک کتاب کا حوالہ دیا جس میں تحقیق سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ احادیث میں قابل اعتراض مواد بھی پایا جاتا ہے، ایسے میں قسیم حیدر صاحب نے ان احادیث کے اقتباس کے ساتھ اپنی تحقیق پیش کرنا شروع کی اور ان اعتراضات کو رفو کرنا شروع کردیا۔ میں نے واضح طور پر اندازہ لگایا کہ فاروق صاحب نے قسیم صاحب کی اس بہترین کاوش کو ماننے سے ہی انکار کردیا اور عام فہم باتوں کو اس لیے رد کردیا کہ اگر ان کو مان لیا گیا تو پھر احادیث سے انکار کیسے ممکن ہوگا۔ یہ میرا اندازہ ہے ہوسکتا ہے کہ غلط ہو لیکن جو لوگ حقیقت جاننا چاہتے ہیں میں انہیں دعوت دوںگا کہ ان دھاگوں کا مطالعہ کریں جہاں قسیم صاحب نے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے جو متن کے لحاظ سے کیے گئے ہیں۔ قسیم صاحب کے اس سلسلے کا اختتام اس طرح ہوا کہ فاروق صاحب نے قسیم بھائ سے گذارش کی کہ آپ کی باتیں میرے پلے نہیں پڑتیںاور میری باتیں آپ نہیںسمجھتے لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ہم یہ سلسلہ بند کرکے قرآن فہمی کا سلسلہ شروع کریں۔ کیونکہ درایت کے لحاظ سے اعتراضات کا حال یہ دیکھ چکے تھے سو اب ان کے اعتراضات نے کروٹ بدلی اور درایت کی جگہ روایت نے لے لی۔ اس میں بھی کبھی یہ متواتر روایات کو تسلیم کرتے ہیں اور کبھی تو احادیث کے تمام سلسلے کو ہی من گھڑت قرار دے کر ایرانیوں سے منسوب کرکے قصہ تمام کردیتے ہیں۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ کبھی کبھی یہ موضوع کو ہائی جیک کرنے کے لیے ایسے تاریخی واقعات کا ذکر بھی کربیٹھتے ہیں جو خود انہیں کے فارمولے کے لحاظ سے ناقابل اعتبار ہوتے ہیں جیسا کہ اسی دھاگے میں ہوا۔ لیکن کیونکہ توہین رسالت کے حوالے سے یہ واقعات ان کے موقف کو تقویت دیتے ہیں لہٰذا انہوں نے یہ واقعات نقل کر ڈالے۔ اراکین محفل نے اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے "سنت کی آئینی حیثیت" برقیانے کا فیصلہ کیا جوکہ الحمدللہ پایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔ سنت کی آئینی حیثیت ایک منکر حدیث کے خطوط اور اس کے جوابات پر مشتمل ہے۔ آپ اس کا مطالعہ کیجیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ انکار حدیث کرنے والوں کے موقف تھالی کے بینگن کی طرح لڑھکتے پھرتے ہیں اور ہر معقول جواب کے بعد انکار حدیث کے لیے مزید نکات تلاشنے شروع کردیتے ہیں۔ منکرین احادیث کی اخلاقیات کا صحیح اندازہ آپ کو سنت کی آئینی حیثیت پڑھ کر ہی ہوگا۔ جب بات کسی صورت نہیں بنتی تو یہ کوسنے دینے شروع ہوجاتے ہیں کہ ملا قرآن کے بجائے احادیث کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ حالانکہ ساری امت اس بات پر متفق ہے کہ قرآن خدا کا آخری کلام ہے اور ہماری رہنمائ کا واحد ذریعہ۔ مسلم امت احادیث کو (نعوذباللہ) قرآن کے بمقابل نہیں سمجھتی۔ بلکہ امت کا موقف یہ ہے کہ یہ توصاحبِ قرآن کے ارشادات و اطوار ہیں جو کہ قرآن کی تشریح ہیں اور قرآن سے ہدایت اخذ کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ رہبر و رہنما ہونے کی حیثیت سےجو معاشرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترتیب دیا اور قرآن کے احکامات کو جس طرح عملی جامہ پہنایا کیا وہ اس قابل نہیں کہ عملی زندگی میں قرآن کی پیروی کرنے کے لیے اس سے مدد لی جائے؟ فارق صاحب یہ موقف اچھی طرح جانتے ہیں لیکن زبردستی اس “غلط فہمی“ کا شکار رہتے ہیں کہ احادیث کو قرآن کا درجہ دیا جاتا ہے۔ تو اب میری فاروق صاحب سے التماس ہے کہ وہ اپنے موقف کو بار بار بدلنے کی زحمت سے بچیں اور صاف صاف کہہ دیں کہ میں احادیث کو نہیں مانتا بھاویں کچھ ہوجاوے۔ مجھے امید ہے کہ اس کے بعد کوئ آپ کو دلیل سے احادیث کی حلت سمجھانے کی کوشش نہیں کرے گا اور آئے روز کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا۔
امید ہے کہ فاروق صاحب کو یہ آئیڈیا پسند آئیگا اور اس سے ان کو سہولت بھی ہوجائے گی۔ باقی اگر فارق صاحب کو میری پوسٹ میں کوئ “ذاتی حملہ“ نظر آئے تو میں ادب کے ساتھ پیشگی عرض کردوں کہ مجھے آپ کی ذات سے اعشاریہ ایک فیصد بھی اعتراض نہیں، میں یہاں صرف آپکے موقف کی بات کررہا ہوں۔ میں بحث و مباحث میں ذات پات کا قائل نہیں۔
آخر میں ایک بات یاد آگئی۔ ایک دفعہ ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم سے سنت و احادیث کی بابت پوچھا گیا انہوں نے کہا؛
“اگر کوئ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہتا کہ صاحب میں وحی پر تو ایمان لاتا ہوں لیکن آپ کے ذاتی احکامات کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ ان کو مانوں۔ ایسے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود ہوتے تو اس شخص کا کیا حال ہوتا؟“
خاور بلال صاحب، آپ کی گذارشات تو کہیں نطر نہ آئیں البتہ آپ کا میرے بارے میں جھوٹکا پلندہ ضرور نظر آیا۔ جو بیانات آپ نے دئے ہیں میرے بارے میں وہ آپ کا اپنا خیال ہے۔ میں نے احادیث اقوال و اعمال رسول کے بارے میں یہ بیانات نہیں کبھی نہیں دیے۔ اس کا ثبوت درج ہے۔ پیشتر درج ہے اور میرے دل میں ہے۔
میرا ذاتی اقوال و اعمال احادیث پر ایمان:
میں رسول اکرم کے اقوال و اعمال پر مکمل یقین رکھتا ہوں اور رسول اکرم کے حکم کے مطابق، ضوء القران یعنی قرآن کی روشنی میں رسول اللہ کے اقوال و اعمال رسول پر یقین رکھتا ہوں۔ کہ یہ میرے ذاتی ایمان کا حصہ ہے ۔لیکن اس کے علاوہ تمام تر انسانوں کے بیان کردہ بیانات کو انسانوں کے بیانات سمجھتا ہوں۔ جن کو پڑھنے میں احتیاط برتنا ضروری سمجھتا ہوں۔
ان انسانی بیانات پر میں ایمان مثل القرآن نہیں رکھتا اور موجودہ کتب روایات میں موجود کچھ روایات کو میں شبہ کی نظر سے دیکھتا ہوں خاص طور پر ان روایات کو جو واضح طور پر قران کے مخالف ہیں۔
میرے اس میں کبھی تبدیلی نہیںآئی لہذا یہ کہنا کہ میرا خیال بدلتا رہتا ہے آپ کے اپنے خیالات کی ایجاد ہے ۔
1۔ وہ کتب روایات جو بازار میں عام طور پر ملتی ہیں اور جن پر آپ کا ایمان مثل القران ہے۔ ان کتب روایات (چھپی ہوئی کتب یا برقیائی گئی کتب)۔ ان کتب کا اصل دستیاب نہیں ہے۔ اور اگر ہے تو فراہم کریں۔
2۔ اگر آپ ان کتب پر مثل قرآن یقین نہیں رکھتے تو پھر جھگڑا کیا ہےِ ؟ مان لیجئے کہ یہ کتب امتداد زمانہ کا شکار ہیں اور مجھے حیرانی نہ ہوگی کہ اگر یہ معلوم ہو کہ دشمنان اسلام نے ان کتب میں خاطر خواہ بد نیت اضافہ کیا ہے۔
اور اگر مثل القران ان کتب پر یقین رکھتے ہیں تو ان کی 1150 سالہ پرانی اصل کتب پیش کریں۔ تاک باقی مسلمانوں کو بھی فائیدہ ہو۔
آپ مجھے منکر الحدیث کہتے ہیں۔ بھائی یہ کیا ہوتا ہے؟ منکرالحدیث کی تعریف فرمائیے۔
آپ حضرات منکر الحدیث کا نعرہ بہت ہی ذوق و شوق سے لگاتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ منکر الحدیث کون ہے؟
منکر الحدیث وہ ہے جو رسول اکرم کی احادیث کا انکار کے اور اس کے برعکس دشمنان اسلام کی طرف سے جاری کردہ رسول اکرم سے منسوب کردہ روایات پر یقین رکھتا ہو۔
آس کی روشنی میں اپنے آُ کو دیکھئے کہ کیا آپ منکر الحدیث ہیں؟ کہ مخالف فرقوں کے پاس موجود روایات کا انکار کرتے ہیں اور دشمنان اسلام کی شامل کی ہوئی روایات پر مثل القران ایمان رکھتے ہیں۔ اور اگر نہ رکھتے ہوتے تو پھر نہ یہ بحث ہوتی اور نہ یہ دھاگے۔
آپ میں سے کوئی بھائی بھی اب تک ایک ایسی لسٹ نہیں پیش کرسکا مع سیفی اور باذوق کے کہ قرآن کے علاوہ جس پر آپ کا مثل القرآن یقین ہو بلکہ آپ خود بھی یہی بیان رکھتے ہیں کہ ہم ان کتب پر ایمان مثل القرآن نہیں رکھتے اور تمام کی تمام احادیث صحیح نہیں ہے اور کسی شیطان کی طرح مجھ سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ میں ان کتب پر ایمان مثل القرآن لے آؤں کے ایک نکتہ بھی ان کتب میں تبدیل نہیں ہوا ہے۔ لاحول ولا قوۃ ۔۔۔۔
یہ کتب روایات کا کھلا کھاتہ یقیناً ناقابل اعتبار کھاتہ ہے کہ جب دل چاہا کوئی روایت اس میں اپنی مرضی کی ڈال لی۔ اور جس سے چاہا انکار کردیا۔
جو کچھ قسیم حیدر نے لکھا اس سے میں متفق نہیں تھا۔ وہ سب کچھ ان کی اپنی ترجمانی تھی اور اپنا خیال تھا۔ انتہائی واہیات واقعات کو وہ اپنا رنگ دے کر جائز قرار دیتے رہے۔ اپنا رنگ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ایک سے زیادہ مشہور مفتیوں نے اس کتاب کو پڑھا اور اپنے بیانات سے نوازا کہ یہ اعتراضات درست ہیں۔ انمفتیاں کے نام اس کتاب میں درج ہیں۔ مزید یہ کہ اس سلسلے میں جس کتاب کا میں نے حوالہ دیا اس کو پنجاب ہائی کورٹ کے 9 رکنی بنچ نے ملاؤں کی طرف سے دائر کردہ رٹ میں سنا اور تمام دلائل سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ یہ کتاب سو فی صد درست ہے اور اور فیصلہ دیا کہ آج کی کتب روایات کو نامناسب اور اہانت آمیز مواد سے پاک کیا جائے۔ اور علماءاس طرف دھیان دیں ۔ اب میں کس کو زیادہ وزن دون آپ کے بیان کو یا ان مفتیوں اور ججوں کے بیانات کو ؟
بھائی قسیم حیدر ان ہی اہانت آمیز واقعات کو درست ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے جس سے مزید اہانت رسول ہوتی ہے۔ لہذا میں نے استدعا کی کہ وہ اپنا کام کریں اور میں اپنا۔ ان کے مناسب جوابات کے لئے یہ کتاب مع اعتراضات کے لئے موجود ہے ۔ اور پنجاب ہائی کورٹ کے مقدمے کے فیصلے کی کاپی میں پیش کرچکا ہوں۔
سیاسی روایات:
صرف سیاسی اور اجتماعی روایات کو دیکھئے، ذاتی روایات کو نہیں :
مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ جب روایات کے سلسلے میں مظبوط ، صحیح اور ضعیف کے ساتھ ساتھ کئی کلاسیفیکیشنز موجود ہیں تو آج روایات کی ایک بھی کتاب ایسی کیوں نہیں موجود جس پر تمام علماء (شیعہ اور سنی اور مزید جغرافیائی فرقوں) کا مکمل اعتماد ہو؟ ایک کتاب بھی ایسی نہیں جو ان رویات کو واضح طور پر صحیح ، اور ضعیف قرار دیتی ہو۔ کیسی مزے کی بات ہے کہ جب چاہتے ہیںکچھ ملا، اپنی مرضی سے رویات کو مظبوط اور ضعیف قرار دے لیتے ہیں۔ ایسا اس لئے کہ ان مولویت (ملاؤں کی سیاست ) کا اپنا ایک سیاسی حربہ ہے وہ یہ کہ جب ان بے ایمانوں کا اپنا کام نکلتا ہو تو اپنے مقصد کی حدیث مظبوط بن جاتی ہے اور جو واقعہ یا روایت ان کے راستے میں کھڑی ہوتی ہو تو ایک کمزور روایت بن جاتی ہے ۔ لاحول ولا قوۃ ۔۔۔
اس کے ایک بڑی مثال جہاد اور دہشت گردی کا فرق ہے۔ کہ جہاد جہاں اسلامی فلاحی ریاست کے دفاع کا نام ہے وہاں دہشت گردی "نظریاتی اختلاف پر قتل " کا نام ہے۔ جیسا کہ اس ہندو لڑکے کے قتل کی صورت میں کیا گیا۔ جس کا جواز کسی عدالت نے منظور نہیں کیا۔ ملاؤں نے اختلاف کو مٹانے کے لئے ایسی ایسی روایات پیش کی ہیں کہ جہاد اور دہشت گردی کا فرق مٹ گیا ہے۔ یہ ایک غیر منصفانہ اور قابل مذمت طرز عمل ہے ۔ جس کو جاری نہیں رکھا جاسکتا۔
جیسا کہ عرضکیا کہ میرے بارے میں یہ خیال آپ کا اپنا ہے۔ میرا نہیں ۔ میں اس رسول اکرم کی اس حدیث پر عمل کرتا ہوں کہ جب بھی آپ کو میری ( رسول اللہ صلعم) کچھ پیش کیا جائے اسے ضوء القرآن یعنی قرآن کی روشنی میں پرکھ لیجئے۔