احباب دانش سے اصلاح کی درخواست ہے

Khaaki

محفلین
یار جتنے بھی ملے
مطلب کے سوا نہ ملے

سب میسر ہے شہر میں
بس سچی وفا نہ ملے

یہاں ہر فرد ہی رہزن
کوئی رہنما نہ ملے

کہر ہر جا ہی دکھے
پر باد صبا نہ ملے

جو بھی راحت ہے ملے
غم سے جدا نہ ملے

کوئی ہمدرد ملے
کہ جو بکا نہ ملے

کوئی تو اہل سخن
جام پیا نہ ملے

حسن ہر تھاہ ہی دکھے
فقط حیا نہ ملے

وفا ملے نہ ملے
مگر دغا نہ ملے

جو ہوں غرور کے پتلے
اُنہیں خدا نہ ملے

سب یہاں اکڑے ہوئے
کوئی گرا نہ ملے

کاش اس در کے سوا
کہیں گدا نہ ملے

وہ بدنصیب بہت ہے
جسے خدا نہ ملے

کھوٹے سب اہلِ جہاں
اِک کھرا نہ ملے

آئے گی موت ہی خاکی
اب دوا نہ ملے
 

عظیم

محفلین
میرے خیال میں آپ کو عروض کے بارے میں تھوڑی معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
یار جتنے بھی ملے
فاعلاتن فاعلن پر تقطیع ہو رہا ہے
اور
یہاں ہر فرد ہی رہزن
مفاعیلن مفاعیلن پر تقطیع ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ آپ کے تمام اشعار میں قافیہ اور ردیف درست ہے صرف وزن کا مسئلہ ہے کسی ایک بحر میں نہیں ہیں اشعار۔
 

Khaaki

محفلین
میرے خیال میں آپ کو عروض کے بارے میں تھوڑی معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
یار جتنے بھی ملے
فاعلاتن فاعلن پر تقطیع ہو رہا ہے
اور
یہاں ہر فرد ہی رہزن
مفاعیلن مفاعیلن پر تقطیع ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ آپ کے تمام اشعار میں قافیہ اور ردیف درست ہے صرف وزن کا مسئلہ ہے کسی ایک بحر میں نہیں ہیں اشعار۔
جی اس بارے میں کچھ خاص علم نہیں میرا از راہ کرم کوئی ذریعہ ہی بتا دیں
 
Top