Khaaki
محفلین
یار جتنے بھی ملے
مطلب کے سوا نہ ملے
سب میسر ہے شہر میں
بس سچی وفا نہ ملے
یہاں ہر فرد ہی رہزن
کوئی رہنما نہ ملے
کہر ہر جا ہی دکھے
پر باد صبا نہ ملے
جو بھی راحت ہے ملے
غم سے جدا نہ ملے
کوئی ہمدرد ملے
کہ جو بکا نہ ملے
کوئی تو اہل سخن
جام پیا نہ ملے
حسن ہر تھاہ ہی دکھے
فقط حیا نہ ملے
وفا ملے نہ ملے
مگر دغا نہ ملے
جو ہوں غرور کے پتلے
اُنہیں خدا نہ ملے
سب یہاں اکڑے ہوئے
کوئی گرا نہ ملے
کاش اس در کے سوا
کہیں گدا نہ ملے
وہ بدنصیب بہت ہے
جسے خدا نہ ملے
کھوٹے سب اہلِ جہاں
اِک کھرا نہ ملے
آئے گی موت ہی خاکی
اب دوا نہ ملے
مطلب کے سوا نہ ملے
سب میسر ہے شہر میں
بس سچی وفا نہ ملے
یہاں ہر فرد ہی رہزن
کوئی رہنما نہ ملے
کہر ہر جا ہی دکھے
پر باد صبا نہ ملے
جو بھی راحت ہے ملے
غم سے جدا نہ ملے
کوئی ہمدرد ملے
کہ جو بکا نہ ملے
کوئی تو اہل سخن
جام پیا نہ ملے
حسن ہر تھاہ ہی دکھے
فقط حیا نہ ملے
وفا ملے نہ ملے
مگر دغا نہ ملے
جو ہوں غرور کے پتلے
اُنہیں خدا نہ ملے
سب یہاں اکڑے ہوئے
کوئی گرا نہ ملے
کاش اس در کے سوا
کہیں گدا نہ ملے
وہ بدنصیب بہت ہے
جسے خدا نہ ملے
کھوٹے سب اہلِ جہاں
اِک کھرا نہ ملے
آئے گی موت ہی خاکی
اب دوا نہ ملے