احتجاج ریکارڈ کروائیں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

صابرہ امین

لائبریرین
آپ کو يہ زبان مسئلہ معلوم ہوتاہے؟ يہ جو سارے اکھٹے ہو گئے ہيں ان کے ايک دوسرے کے بارے ميں کل تک کيسى غليظ زبان، تصاوير اور ويڈيوز استعمال کى ہيں۔ چور ، ڈاکو اور کرپٹ کے ليے مناسب الفاظ تو بتائيے۔ ان کى غيرت کا مسئلہ ہوتا تو آج يہ سب ملے نہ ہوتے۔
يہ تو گالياں کھا کر کب بد مزہ ہوتے ہيں۔ آئى کے، ان کے لوگوں اور تو اور فوج کو ان کى ٹاپ ليڈر شپ نے کيا کيا کہا ہے۔ مسئلہ غيرت کا تو ہے ہى نہیں ۔ کرپشن بچانے کے بہانے ہيں سب۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
آپ کو يہ زبان مسئلہ معلوم ہوتاہے؟ يہ جو سارے اکھٹے ہو گئے ہيں ان کے ايک دوسرے کے بارے ميں کل تک کيسى غليظ زبان، تصاوير اور ويڈيوز استعمال کى ہيں۔ چور ، ڈاکو اور کرپٹ کے ليے مناسب الفاظ تو بتائيے۔ ان کى غيرت کا مسئلہ ہوتا تو آج يہ سب ملے نہ ہوتے۔
يہ تو گالياں کھا کر کب بد مزہ ہوتے ہيں۔ آئى کے، ان کے لوگوں اور تو اور فوج کو ان کى ٹاپ ليڈر شپ نے کيا کيا کہا ہے۔ مسئلہ غيرت کا تو ہے ہى نہیں ۔ کرپشن بچانے کے بہانے ہيں سب۔

یہ زبان بھی مسئلہ ہے۔ اچھی زبان ایک باوقار وزیرِ اعظم کے لئے ضروری ہے۔

وزیرِ اعظم کے خطاب کو گلی محلے میں تکرار کرنے والے ان پڑھ لوگوں سے بہرحال بہتر ہونا چاہیے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آپ کو يہ زبان مسئلہ معلوم ہوتاہے؟ يہ جو سارے اکھٹے ہو گئے ہيں ان کے ايک دوسرے کے بارے ميں کل تک کيسى غليظ زبان، تصاوير اور ويڈيوز استعمال کى ہيں۔ چور ، ڈاکو اور کرپٹ کے ليے مناسب الفاظ تو بتائيے۔ ان کى غيرت کا مسئلہ ہوتا تو آج يہ سب ملے نہ ہوتے۔
يہ تو گالياں کھا کر کب بد مزہ ہوتے ہيں۔ آئى کے، ان کے لوگوں اور تو اور فوج کو ان کى ٹاپ ليڈر شپ نے کيا کيا کہا ہے۔ مسئلہ غيرت کا تو ہے ہى نہیں ۔ کرپشن بچانے کے بہانے ہيں سب۔
کچھ بھی ہو ایک سربراہِ مملکت کا یہ معیار نہیں کہ اس انداز سے بات کرے۔ ویسے بھی خان صاحب اور ان کے حواریوں کے اسی انداز نے اکثر معاملات خراب کیے ہیں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
کچھ بھی ہو ایک سربراہِ مملکت کا یہ معیار نہیں کہ اس انداز سے بات کرے۔ ویسے بھی خان صاحب اور ان کے حواریوں کے اسی انداز نے اکثر معاملات خراب کیے ہیں۔
یہ زبان بھی مسئلہ ہے۔ اچھی زبان ایک باوقار وزیرِ اعظم کے لئے ضروری ہے۔

وزیرِ اعظم کے خطاب کو گلی محلے میں تکرار کرنے والے ان پڑھ لوگوں سے بہرحال بہتر ہونا چاہیے۔
بات تو ٹھيک ہے اس ميں کوئى دو رائے نہيں۔ مگر يہ ماننے کو ہرگز تيار نہيں کہ يہ زبان کے مسئلہ کى وجہ سے ہے۔ يہ سب بھٹو، لياقت على خان اور بے نظير بھٹو کے ساتھ ہوا۔
بيگرز کانٹ بى چوزرز۔ يہ مسئلہ ہے
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بات تو ٹھيک ہے اس ميں کوئى دو رائے نہيں۔ مگر يہ ماننے کو ہرگز تيار نہيں کہ يہ زبان کا مسئلہ کى وجہ ہے۔ يہ سب بھٹو، لياقت على خان اور بے نظير بھٹو کے ساتھ ہو،
تحریکِ انصاف کی جہاں تک بات ہے وہ تو ہم کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ خان صاحب کے معاونِ خصوصی صاحب ایسی ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ اور خود خان صاحب کی اپنی زبان بھی اخلاق کے دائرے سے اکثر نکل جاتی ہے۔
بيگرز کانٹ بى چوزرز۔ يہ مسئلہ
اس پر تو کوئی شک نہیں۔
 
ہمارا نیا احتجاج اپوزیشن اور حکومتِ وقت دونوں سے ہے۔کہ اپوزیشن خدارا جمہوریت کو مانتی ہے تو اس کو پنپنے بھی دے۔ اور حکومتِ وقت سے یہ احتجاج ہے کہ اپنے بدزبان وزیروں کو سنبھالے۔ اور خود وزیراعظم صاحب بھی ذرا تمیز کا مظاہرہ فرمایں۔ کسی کو چوہے، ڈیزل اور کسی کو قاتل وغیرہ کے خطابات دینا بند کر کے نظامِ حکومت کی طرف توجہ فرمائیں۔
عمران خان کو اگر پتا ہے کہ میں ٹھیک ہوں اور ایمانداری سے اپنا کام کررہا ہوں تو جو وزیراعظم اِن کی ذیرِ نگرانی کام کررہے ہیں اُن کو اپنے ماتحت کام کروائے اُن کو ایک دائرے میں رکھے جب دیکھے کے کوئی بلاوجہ وجہ اپنی سیٹ کا فائدہ اُٹھا رکھا ہے تو اُس کو فوراً نکیل ڈالے
لیکن اب اِن باتوں کا کوئی فائدہ نہیں وزیراعظم خود ہی سارا نظام صدر کے حوالے کرچکے ہیں۔
 
کوئی شبہ نہیں کہ اُن کی یہ بڑی خامی ہے جس پر انہیں قابو پانا چاہیے۔
اور وزیراعظم کو ذیب نہیں دیتا کہ وہ ایسا احتجاجی اجتماع کرے بلکہ جو بھی بات کرنی ہو تو پاکستان ٹیلی وزن کا سہارا لے ۔ اور منظم اور سوچ سمجھ کر اپنی عوام سے خطاب کرے اور اِس بات کا خاص دھیان رکھا جائے کہ وہ وزیراعظم ہے
 

صابرہ امین

لائبریرین
آپ کو يہ زبان مسئلہ معلوم ہوتاہے؟ يہ جو سارے اکھٹے ہو گئے ہيں ان کے ايک دوسرے کے بارے ميں کل تک کيسى غليظ زبان، تصاوير اور ويڈيوز استعمال کى ہيں۔ چور ، ڈاکو اور کرپٹ کے ليے مناسب الفاظ تو بتائيے۔ ان کى غيرت کا مسئلہ ہوتا تو آج يہ سب ملے نہ ہوتے۔
يہ تو گالياں کھا کر کب بد مزہ ہوتے ہيں۔ آئى کے، ان کے لوگوں اور تو اور فوج کو ان کى ٹاپ ليڈر شپ نے کيا کيا کہا ہے۔ مسئلہ غيرت کا تو ہے ہى نہیں ۔ کرپشن بچانے کے بہانے ہيں سب۔
آپ کو اس میں کیا مضحکہ خیز بات نظر آئی؟ یہ بہت سارے پاکستانیوں کا نقطہ نظر ہے اور اظہار رائے کا احترام کرنا چاہئے ورنہ کون یہاں گفتگو کرے گا اگر بے جواز ریٹنگ دی جائے گی، زیک ۔ امید ہے محترمی آپ ریٹنگ واپس لے لیں گے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اقبال نے کہاتھا کہ میر کارواں کا رختِ سفر یہ ہے کہ ایک تو اس کی نگاہ بلند ہو، دوسرا اس کی زبان ایسی ہو کہ بولے تو پھول جھڑیں یعنی اس کا سخن دلنواز ہو، اور تیسرا اس کی ظاہری چال ڈھال میں شانِ استغنأ کچھ اس طرح سےدکھائی دے کہ دلوں کو موہ لے، گویا اس کی جاں پُرسوز ہو۔

نگہ بلند سخن دلنواز جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے بڑا کوئی لیڈر نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے بڑھ کر کسی کا حُسنِ اخلاق نہیں۔ خود قرانِ کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مکارم اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز بتایا گیاہے۔ انّکَّ لَعلیٰ خُلُقٍ عظیم۔ غرض ایک لیڈر کے لیے اخلاق کتنا ضروری ہے، یہ جاننے کے لیے کسی گہری بصیرت کی ضرورت نہیں۔

عمران خان واقعی لالچی نہیں۔ واقعی چور نہیں۔ واقعی اسے مال کی طمع نہیں۔ عمران واقعی وطن دشمن نہیں۔ واقعی غدار نہیں۔ عمران خان واقعی ملتِ اسلامیہ اور ملک کے لیے بے پناہ مخلص ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اتنی ساری خوبیوں کے باوجود عمران خان کا ہاتھ حسنِ اخلاق میں خاصا تنگ ہے۔

خوشاب کی پنجابی میں ایک محاورہ ہے جس کا ترجمہ اردو میں یہ ہے،

’’ یہ زبان آپ کو گھوڑے پر بھی بٹھاتی ہے اور یہ زبان آپ کو گدھے پر بھی بٹھاتی ہے۔‘‘

سو اگر عمران خان کو جانا پڑا تو اس کی وجہ یہ نہ ہوگی کہ اس نے بھلائی کے کام نہ کیے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ عمران خان نے بہت زیادہ سخت زبان استعمال کیے رکھی۔ حالانکہ درس یہ ہے کہ دشمن کے لیے بھی نازیبا زبان استعمال نہ کرو کیونکہ اس سے آپ کی اپنی شخصیت کی خوبصورتی کم ہوتی ہے۔ ایک مشہور شعر کا ایک مصرع ہےکہ، ’’بات کرنے سے قبیلےکا پتہ چلتا ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ والدین کی اوّلین تربیت بچے کی پوری زندگی پر حاوی ہوتی ہے۔ بداخلاقی اور نازیبا الفاظ کا استعمال کسی لیڈر کو زیب نہیں دیتا۔ کاش عمران خان اپنی تمنّا کے مطابق کام کرتا رہتا، لیکن مخالفین کے خلاف زبان بند رکھتا۔ خاموشی سے کرتا، جو بھی چاہ رہا تھا کہ اسے کرناہے۔ بس چُپ چاپ کرتا رہتا۔ بلاوجہ غلط زبان استعمال کرکے، اپنےآپ کو اتنا کمزور کرلیا۔ حالانکہ نگاہ بھی عمران کی بلند ہی ہے کہ پوری ملت کی بہبود پر نگاہ ہے اس کی۔ اور جاں بھی پرسوز ہی ہے، لیکن سخن بالکل بھی دلنواز نہیں ہے، بلکہ دل دکھانے والا ہے۔ :'(

بہرحال اگلی مرتبہ آنے کے لیے عمران خان کو اپنا یہ رویہ بدلنا ہوگا۔ وہ شخص جس کا جذبہ اسے قائدِ اعظم اور بھٹو جتنا بڑا لیڈر بنا سکتا تھا، فقط ایک عام سی انسانی کمزوری کی بنا پر خود کو سب سے چھوٹا لیڈر بنانے پر تُلا رہا۔ حکومت سے باہر آنے کےبعد، یا ہوسکے تو اب بھی، اگرعمران اپنے سخت اور نازیبا الفاظ کے لیے سرعام معذرت کرلے تو یکایک کایا پلٹ سکتی ہے۔ یقین جانیے ایسے بے لوث لیڈر کی قوم کو ضرورت تو ہے لیکن افسوس کہ ایسے اخلاق کے ساتھ قوم دیر تک اسے سہ نہ پائے گی۔

ادریس آزاد
 

علی وقار

محفلین
کرپشن بچانے کے بہانے ہيں سب۔
کرپشن تو اِس دور میں بھی جاری و ساری ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کرپشن کے حوالے سے بدترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے۔ عمران خان صاحب کرپٹ نہیں ہیں مگر ان کے ساتھ موجود ٹولے کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
 

سیما علی

لائبریرین
بہرحال اگلی مرتبہ آنے کے لیے عمران خان کو اپنا یہ رویہ بدلنا ہوگا۔ وہ شخص جس کا جذبہ اسے قائدِ اعظم اور بھٹو جتنا بڑا لیڈر بنا سکتا تھا، فقط ایک عام سی انسانی کمزوری کی بنا پر خود کو سب سے چھوٹا لیڈر بنانے پر تُلا رہا۔ حکومت سے باہر آنے کےبعد، یا ہوسکے تو اب بھی، اگرعمران اپنے سخت اور نازیبا الفاظ کے لیے سرعام معذرت کرلے تو یکایک کایا پلٹ سکتی ہے۔ یقین جانیے ایسے بے لوث لیڈر کی قوم کو ضرورت تو ہے لیکن افسوس کہ ایسے اخلاق کے ساتھ قوم دیر تک اسے سہ نہ پائے گی۔
صد فی صد آپکی تائید کرتے ہیں!!!!!بالکل اخلاق ہی انسان کو عرش پر پہنچا دیتا ہے اور یہی اخلاق فرش پر پھینک دیتا ہے ؀
خوبصورتی، توازن کا نام ہے۔ جس طرح انسانی جسم میں توازن ہے، اسی طرح انسان کے برتاؤ،طبیعت، اور مزاج میں بھی ایک توازن ہے۔ اگر توازن نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔سچ کہا کہ معذرت کایا پلٹ دیتی ہے ۔۔۔۔بے لوث لیڈر تو وقت کی ضرورت ہے پر بدتمیز کی نہیں ۔۔۔توبس حُسنِ خُلق یہ ہے کہ جسم فرشی ہو اور طبیعت عرشی ہو۔ اس ملاپ سے یہ ہوگا کہ بشری پیکر میں عرش چلتا پھرتا نظر آئے گا۔۔۔۔۔
 
اقبال نے کہاتھا کہ میر کارواں کا رختِ سفر یہ ہے کہ ایک تو اس کی نگاہ بلند ہو، دوسرا اس کی زبان ایسی ہو کہ بولے تو پھول جھڑیں یعنی اس کا سخن دلنواز ہو، اور تیسرا اس کی ظاہری چال ڈھال میں شانِ استغنأ کچھ اس طرح سےدکھائی دے کہ دلوں کو موہ لے، گویا اس کی جاں پُرسوز ہو۔

نگہ بلند سخن دلنواز جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے بڑا کوئی لیڈر نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے بڑھ کر کسی کا حُسنِ اخلاق نہیں۔ خود قرانِ کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مکارم اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز بتایا گیاہے۔ انّکَّ لَعلیٰ خُلُقٍ عظیم۔ غرض ایک لیڈر کے لیے اخلاق کتنا ضروری ہے، یہ جاننے کے لیے کسی گہری بصیرت کی ضرورت نہیں۔

عمران خان واقعی لالچی نہیں۔ واقعی چور نہیں۔ واقعی اسے مال کی طمع نہیں۔ عمران واقعی وطن دشمن نہیں۔ واقعی غدار نہیں۔ عمران خان واقعی ملتِ اسلامیہ اور ملک کے لیے بے پناہ مخلص ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اتنی ساری خوبیوں کے باوجود عمران خان کا ہاتھ حسنِ اخلاق میں خاصا تنگ ہے۔

خوشاب کی پنجابی میں ایک محاورہ ہے جس کا ترجمہ اردو میں یہ ہے،

’’ یہ زبان آپ کو گھوڑے پر بھی بٹھاتی ہے اور یہ زبان آپ کو گدھے پر بھی بٹھاتی ہے۔‘‘

سو اگر عمران خان کو جانا پڑا تو اس کی وجہ یہ نہ ہوگی کہ اس نے بھلائی کے کام نہ کیے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ عمران خان نے بہت زیادہ سخت زبان استعمال کیے رکھی۔ حالانکہ درس یہ ہے کہ دشمن کے لیے بھی نازیبا زبان استعمال نہ کرو کیونکہ اس سے آپ کی اپنی شخصیت کی خوبصورتی کم ہوتی ہے۔ ایک مشہور شعر کا ایک مصرع ہےکہ، ’’بات کرنے سے قبیلےکا پتہ چلتا ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ والدین کی اوّلین تربیت بچے کی پوری زندگی پر حاوی ہوتی ہے۔ بداخلاقی اور نازیبا الفاظ کا استعمال کسی لیڈر کو زیب نہیں دیتا۔ کاش عمران خان اپنی تمنّا کے مطابق کام کرتا رہتا، لیکن مخالفین کے خلاف زبان بند رکھتا۔ خاموشی سے کرتا، جو بھی چاہ رہا تھا کہ اسے کرناہے۔ بس چُپ چاپ کرتا رہتا۔ بلاوجہ غلط زبان استعمال کرکے، اپنےآپ کو اتنا کمزور کرلیا۔ حالانکہ نگاہ بھی عمران کی بلند ہی ہے کہ پوری ملت کی بہبود پر نگاہ ہے اس کی۔ اور جاں بھی پرسوز ہی ہے، لیکن سخن بالکل بھی دلنواز نہیں ہے، بلکہ دل دکھانے والا ہے۔ :'(

بہرحال اگلی مرتبہ آنے کے لیے عمران خان کو اپنا یہ رویہ بدلنا ہوگا۔ وہ شخص جس کا جذبہ اسے قائدِ اعظم اور بھٹو جتنا بڑا لیڈر بنا سکتا تھا، فقط ایک عام سی انسانی کمزوری کی بنا پر خود کو سب سے چھوٹا لیڈر بنانے پر تُلا رہا۔ حکومت سے باہر آنے کےبعد، یا ہوسکے تو اب بھی، اگرعمران اپنے سخت اور نازیبا الفاظ کے لیے سرعام معذرت کرلے تو یکایک کایا پلٹ سکتی ہے۔ یقین جانیے ایسے بے لوث لیڈر کی قوم کو ضرورت تو ہے لیکن افسوس کہ ایسے اخلاق کے ساتھ قوم دیر تک اسے سہ نہ پائے گی۔

ادریس آزاد
عمران خان صاحب اپنی طرف سے اچھے اقدامات کررہے تھے، جن میں بہت سے لوگوں کا نقصان ہورہا تھا ۔ رہی بات اخلاق کی تو تھوڑی بہت تلخ زبان استعمال کرنی پڑتی ہے ۔
ملک کے وزیراعظم کو پورا ملک چلانا ہوتا ہے ۔بات اگر گھر کی کریں تو گھر میں بھی کبھی کبھی سخت اقدامات اُٹھانے ہوتے ہیں جب ہی گھر چلتا ہے۔
نوٹ : یہ میری اپنی رائے ہے اِسی لئے سب کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
 
بہت ہی افسوس ہے!
ہمارے پاکستان کےایک صحافی اقرار الحسن کے ساتھ جو بھی ہوا یہ تو ایک ناموراور بہادر صحافی ہیں جب ہی اتنی تشہیر ہوبھی گئی اور تھوڑی بہت دل کو تسلی دینے کے لئے حکومت کی کاروائی بھی عمل میں آئی پانچ افسران کو معطل کیا گیا ۔ کیا یہ سب کرنے سے اقرار الحسن کے زخم ٹھیک ہوجائیں گے کیا اُن کی عزت واپس آجائے گی جو آئی بی والوں نے اُن کے ساتھ حرکت کی ۔ جیسا سلوک اقرارلحسن کے ساتھ اِن کرپٹڈ افسران نے کیا ہےایسا ہی سلوک اِن کے ساتھ ہونا چاھئیے ورنہ عمران خان صاحب کسی دن یہ آپ کو بھی کوئی نہ کوئی الزام میں پکڑ کر یہ حرکتیں کرسکتے ہیں اگر اِن ظالموں کو آج لگام نہ ڈالی گئی تو آگے ایسے اور بھی جرائم ہونگے اور اِن کے قصور وار آپ ہونگے اگر آپ اِن کے خلاف صحیح موقع پر صحیح ایکشن لیتے تو یہ ظلم رُک سکتا تھا۔
یہ بھی کسی کا بیٹا ہے کسی کا بھائی ہے یہ کسی کا شوہر ہےکیا اِس کو اپنی زندگی پیاری نہیں بالکل ہوگی یہ بس صرف پاکستان کی خاطر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کام کرتا ہے اللہ پاک اقرار الحسن کی زندگی میں برکت عطا فرمائے آمین
کسی سے سُنا تھا اقرارالحسن کے دو ساتھی ٹارچر کی وجہ سے شہید ہوچکے ہیں
 

زیک

مسافر
عمران خان صاحب اپنی طرف سے اچھے اقدامات کررہے تھے، جن میں بہت سے لوگوں کا نقصان ہورہا تھا ۔ رہی بات اخلاق کی تو تھوڑی بہت تلخ زبان استعمال کرنی پڑتی ہے ۔
اچھے کام، اخلاق اور بدزبانی کی بات تو بہت پیچھے رہ گئی۔ واضح ہے کہ خان کی حکومت اکثریت کھو چکی تھی۔ آئین کے مطابق عدم اعتماد کا ووٹ لازم تھا اور ووٹ سے پہلے اسمبلی توڑنا ناممکن۔ لیکن سپیکر اور خان نے آئین کی صاف خلاف ورزی کی۔ ظاہر ہے خان کے فینز کو یہ نظر نہیں آتا کیونکہ ان میں کوئی آئین، جمہوریت یا قانون کے حق میں کبھی نہیں رہا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھے کام، اخلاق اور بدزبانی کی بات تو بہت پیچھے رہ گئی۔ واضح ہے کہ خان کی حکومت اکثریت کھو چکی تھی۔ آئین کے مطابق عدم اعتماد کا ووٹ لازم تھا اور ووٹ سے پہلے اسمبلی توڑنا ناممکن۔ لیکن سپیکر اور خان نے آئین کی صاف خلاف ورزی کی۔ ظاہر ہے خان کے فینز کو یہ نظر نہیں آتا کیونکہ ان میں کوئی آئین، جمہوریت یا قانون کے حق میں کبھی نہیں رہا۔
بظاہر یہی لگتا ہے کہ آئین کی خلاف ورزی ہے اور صریح خلاف ورزی ہے لیکن یہ ون سائیڈڈ سٹوری ہے جس پر سارے آئین پرست ایمان لے آئے ہیں۔ دوسری طرف والے بھی یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ سارے کام آئین کے تابع اور آئینی شقوں کے مطابق کیے ہیں۔ اور کیا صحیح کیا غلط ہے اس کا فیصلہ پاکستانی سپریم کورٹ نے ابھی کرنا ہے لیکن ہم سب اپنا اپنا فیصلہ دراصل پہلے ہی کر چکے ہیں سو اس فیصلے کو بھی آدھے مانیں گے اور آدھے نہیں مانیں گے!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بظاہر یہی لگتا ہے کہ آئین کی خلاف ورزی ہے اور صریح خلاف ورزی ہے لیکن یہ ون سائیڈڈ سٹوری ہے جس پر سارے آئین پرست ایمان لے آئے ہیں۔ دوسری طرف والے بھی یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ سارے کام آئین کے تابع اور آئینی شقوں کے مطابق کیے ہیں۔ اور کیا صحیح کیا غلط ہے اس کا فیصلہ پاکستانی سپریم کورٹ نے ابھی کرنا ہے لیکن ہم سب اپنا اپنا فیصلہ دراصل پہلے ہی کر چکے ہیں سو اس فیصلے کو بھی آدھے مانیں گے اور آدھے نہیں مانیں گے!
آج تو ایک اور نیا کام ہو گیا۔ جس نے آئین نہیں توڑا وہ غدار کہلایا جا رہا ہے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ایک نیا احتجاج
حکومتِ وقت سے دست بستہ گذارش ہے کہ براہِ کرم امامِ عالی مقام حضرتِ حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم قربانی کی مثالوں کو خود پر چسپاں کرنے سے گریز فرمائیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top