آج تو ایک اور نیا کام ہو گیا۔ جس نے آئین نہیں توڑا وہ غدار کہلایا جا رہا ہے
اس ملک میں غدار کون نہیں ہے؟ اور کس کو نہیں کہا گیا؟
مثال کے طور پر فضل الرحمٰن صاحب اور ان کے والد گرامی مولانا مفتی محمود صاحب عرصہ دراز تک سیاستدانوں کی زبانوں پر غدار رہے بالخصوص اس بیانیے کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے خوب اچھالا۔ اور آج کل سوشل میڈیا پر پرانی اخباروں کے تراشے گردش میں ہیں جن میں فضل الرحمٰن صاحب نواز شریف اور مسلم لیگ کو انڈین ایجنٹ اور غدار قرار دیتے ہیں۔
کہنا یہ چاہتا ہوں کہ 1947ء سے لے کر اب تک پاکستان میں غدراری کے الزام سے کوئی نہیں بچا، جو آج کل ساتھی ہیں وہ ماضی میں ایک دوسرے کو غدار کہتے آئے ہیں اور جو آج کل ایک دوسرے کو غدار کہہ رہے ہیں ممکن ہے کل ایک دوسرے کے ساتھی ہوں۔
سو یہ نیا کام نہیں ہے، جو اصل نیا کام ہوا ہے وہ یہ ہے کہ غدار کہہ کر آئین کو استعمال کیا گیا ہے، یہ واقعی نیا کام ہے اور غلط بھی ہے۔ باؤنسر تو باؤلر نے بڑا زور دار مارا ہے کہ حریف کا جبڑا ہلا دیا ہے لیکن ہے یہ نو بال۔