احتجاج ریکارڈ کروائیں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
پوری پلاننگ پہلے سے طے شدہ ہے۔۔۔
اب کی بار عمران خان کو دو تہائی اکثریت ’’دلوائی‘‘ جائے گی۔۔۔
خان صاحب آئیں گے صدارتی نظام لائیں گے۔۔۔
اور عدالت اس کام میں پوری طرح استعمال ہوگی!!!
اکثریت کا گمان یہی ہے کہ یہ جو سوانگ رچایا گیا ہے یہ سب اسی لیے کہ عمران خان جیسا نیٹ اینڈ کلین کریکٹر والا حکمران بھی اس ناقص اور پر عیب نظام میں نہیں چل سکتا اسی لیے اس نظام کو چلتا کرو اگر ملک چلانا ہے تو
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
باقی جماعتیں جو اکٹھی ہوئی ہیں انہیں اپنی سیاسی موت دکھائی دے رہی ہے اسی لیے وہ اکٹھی ہوئی ہیں۔ خان صاحب کے خط والے ڈرامے پر مجھے تو یقین نہیں ہے۔ کوئی یقین کرنا چاہے تو اس کی مرضی
 

علی وقار

محفلین
پوری پلاننگ پہلے سے طے شدہ ہے۔۔۔
اب کی بار عمران خان کو دو تہائی اکثریت ’’دلوائی‘‘ جائے گی۔۔۔
خان صاحب آئیں گے صدارتی نظام لائیں گے۔۔۔
اور عدالت اس کام میں پوری طرح استعمال ہوگی!!!
خان صاحب کو دو تہائی اکثریت دلوائی گئی تو مجھے لگتا ہے کہ وہ اس بار دو تہائی اکثریت دلوانے والوں کی گردن میں رسی فٹ کر دیں گے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ شاید دوسری بار یہ خطرہ مول نہیں لے گی۔ ویسے تو سب کو ہی کسی نہ کسی سطح پر بڑی سرکار کی طرف سے لالی پاپ دیا جاتا ہےمگر لگ رہا ہے کہ آخر میں جو دولہا برآمد ہو گا، اس کے پاس سادہ اکثریت بھی آ گئی تو وہ خود کو خوش قسمت تصور کرے۔ ہائبرڈ نظام ہی چلنے کی توقع ہے مگر نیوٹرل کے ظاہری ٹھپے کے ساتھ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ضروری اطلاع
اس قسم کی گفتگو صرف اسی فورم پر چل سکتی ہے۔ اسے فیس بک یا ٹوئیٹر پر آزمانے کی کوشش نہ کی جائے۔ ورنہ انجام کا خود ذمہ دار ہو گا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ضروری اطلاع
اس قسم کی گفتگو صرف اسی فورم پر چل سکتی ہے۔ اسے فیس بک یا ٹوئیٹر پر آزمانے کی کوشش نہ کی جائے۔ ورنہ انجام کا خود ذمہ دار ہو گا۔
آج کل فیس بک اور ٹوئیٹر پر ایسی ایسی گالیاں دی جا رہی ہیں کہ الامان الحفیظ۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
ضروری اطلاع
اس قسم کی گفتگو صرف اسی فورم پر چل سکتی ہے۔ اسے فیس بک یا ٹوئیٹر پر آزمانے کی کوشش نہ کی جائے۔ ورنہ انجام کا خود ذمہ دار ہو گا۔
آج کل فیس بک اور ٹوئیٹر پر ایسی ایسی گالیاں دی جا رہی ہیں کہ الامان الحفیظ۔۔۔
شکر ہم یہ دونوں استعمال نہیں کرتے۔۔۔
ویسے ہی گالیوں کا کافی بڑا ذخیرہ برابر میں رکھا پڑا ہے!!!
:p :p :p
 

محمد وارث

لائبریرین
بالکل۔۔۔ جس کے ہاتھ میں بندوق ہو اس کی گردن میں رسی ڈالنے کا سوچنا بھی بندے کو لندن بھجوا سکتا ہے۔ 😜
اجی کہاں صاحب،جدہ یا لندن تو معافی کے طور پر بھجوایا جاتا ہے، وگرنہ ایسی سوچ والے کو ملک عدم روانہ کر دیا جاتا ہے! :)
 

محمداحمد

لائبریرین
پوری پلاننگ پہلے سے طے شدہ ہے۔۔۔
اب کی بار عمران خان کو دو تہائی اکثریت ’’دلوائی‘‘ جائے گی۔۔۔
خان صاحب آئیں گے صدارتی نظام لائیں گے۔۔۔
اور عدالت اس کام میں پوری طرح استعمال ہوگی!!!

شدید معلوماتی :)
 

محمداحمد

لائبریرین
خان صاحب کو دو تہائی اکثریت دلوائی گئی تو مجھے لگتا ہے کہ وہ اس بار دو تہائی اکثریت دلوانے والوں کی گردن میں رسی فٹ کر دیں گے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ شاید دوسری بار یہ خطرہ مول نہیں لے گی۔ ویسے تو سب کو ہی کسی نہ کسی سطح پر بڑی سرکار کی طرف سے لالی پاپ دیا جاتا ہےمگر لگ رہا ہے کہ آخر میں جو دولہا برآمد ہو گا، اس کے پاس سادہ اکثریت بھی آ گئی تو وہ خود کو خوش قسمت تصور کرے۔ ہائبرڈ نظام ہی چلنے کی توقع ہے مگر نیوٹرل کے ظاہری ٹھپے کے ساتھ۔

میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اتحادیوں کے مرہونِ منت جو کرسی ملی ہے اُسے تو خان صاحب نے اتنی مشکل سے چھوڑا ہے۔ اگر دو تہائی اکثریت مل گئی تو الیکشن ہر پانچ سال بعد پانچ سال کے لئے ٹال دیا کریں گے۔ :) :) :)
 

علی وقار

محفلین
میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اتحادیوں کے مرہونِ منت جو کرسی ملی ہے اُسے تو خان صاحب نے اتنی مشکل سے چھوڑا ہے۔ اگر دو تہائی اکثریت مل گئی تو الیکشن ہر پانچ سال بعد پانچ سال کے لئے ٹال دیا کریں گے۔ :) :) :)
خان صاحب کو کچا سیاست دان سمجھنے والے خود بھی پچھتا رہے ہیں۔ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی دن میں تارے ضرور دکھائے ہیں۔ یہ الگ بات کہ کوئی مانے یا نہ مانے۔ یہ اس کی صوابدید ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اسی ضمن میں ایکسپریس نیوز کی خبر۔ دلچسپ دلائل کے ساتھ۔

اسپیکر رولنگ کیس کا فیصلہ محفوظ، آج ساڑھے سات بجے سنایا جائے گا

اسلام آباد: اسپیکر رولنگ ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا جوکہ افطاری کے بعد ساڑھے 7 بجے سنایا جائے گا جبکہ چیف جسٹس نے انتخابات کے لیے تجاویز مانگ لیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندو خیل شامل ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاست میں سب کا احترام ہے لیکن خدا قسم قوم قیادت کے لیے ترس رہی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ ایک بات تو واضح نظر آ رہی ہے رولنگ غلط ہے، دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہوگا، اسمبلی بحال ہوگی تو بھی ملک میں استحکام نہیں ہوگا اور ملک کو استحکام کی ضرورت ہے جبکہ اپوزیشن بھی استحکام کا کہتی ہے، قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں رولنگ کا دفاع نہیں کر رہا، میرا مدعا نئے انتخابات کا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا ہے، عدالت نے آئین کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت نے نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں اور ہم نتائج پر نہیں جائیں گے۔


اپوزیشن لیڈر شہباز شریف عدالت میں پیش

عدالت عظمیٰ میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہو جائے گی اور اسپیکر کی رولنگ کالعدم ہو تو اسمبلی کی تحلیل ازخود ختم ہوجائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں کمزور نہیں بلکہ مضبوط حکومت چاہیے۔

شہباز شریف نے کہا کہ اگر عدالت اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتی ہے تو نتیجتاً وزیر اعظم کے اقدامات ختم ہو جائیں گے اور اس کے نتیجے میں ختم کی گئی اسمبلی بحال ہوجائے گی، آئین کو جیسے توڑا گیا اور معطل کیا گیا وہاں نتائج بھی ہوں گے۔ عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے، پارلیمنٹ کو عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ حکومت 174 ووٹوں پر قائم تھی اور ہمارے ممبر 177 ہیں، آئین کی بحالی اور عوام کے لیے اپنا خون پسینہ بہائیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 2013 کے الیکشن میں آپ کی کتنی نشستیں تھیں؟ شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں 150 سے زائد نشستیں تھیں۔


جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اپوزیشن پہلے دن سے الیکشن کرانا چاہتی تھی، شہباز شریف نے کہا کہ مسئلہ آئین توڑنے کا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کی مرمت ہم کر دیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ عدم اعتماد اگر کامیاب ہوتی ہے تو اسمبلی کا کتنا دورانیہ رہے گا؟ شہباز شریف نے بتایا کہ ڈیڑھ سال پارلیمنٹ کا ابھی باقی ہے، اپنی اپوزیشن سے ملکر انتخابی اصلاحات کریں گے تاکہ شفاف الیکشن ہو سکے۔

نعیم بخاری کے دلائل

اٹارنی جنرل کے دلائل سے قبل اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے میٹنگ منٹس سپریم کورٹ میں پیش کیے تھے جس میں انشکاف ہوا کہ وزیر خارجہ اور مشیر قومی سلامتی اجلاس میں شریک نہیں تھے۔

میٹنگ منتس پیش کیے جانے کے بعد عدالت نے استفسار کیا کہ کیا فارن منسٹر بھی اس میٹنگ میں موجود تھے یا نہیں؟ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ نوٹس بھجوایا گیا تھا۔ عدالت نے پھر استفسار کیا کہ نوٹس تو چلا گیا، ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ قومی سلامتی میٹنگ میں موجود تھے یا نہیں؟ نعیم بخاری نے کہا کہ لگتا ہے اس میٹنگ میں موجود نہیں تھے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایڈوائزر قومی سلامتی معید یوسف کا نام بھی اس میں موجود نہیں ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا وزیر خارجہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں موجود تھے؟ وزیر خارجہ کے دستخط میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہے، کیا وزیر خارجہ کو اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر خارجہ کو پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں ہونا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معید یوسف کا نام بھی میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہا۔

نعیم بخاری نے فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈر بھی عدالت میں پیش کر دیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر رولنگ کی بجائے اپوزیشن سے جواب نہیں لینا چاہیے تھا؟ نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر بحث نہیں ہوتی۔
جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی بڑی مشکل سے 2 یا تین منٹ کی تھی، چیف جسٹس کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کیا پوائنٹ آف آرڈر پر اپوزیشن کو موقع نہیں ملنا چاہیے تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ رولنگ ڈپٹی اسپیکر نے دی جبکہ رولنگ پر دستخط اسپیکر کے ہیں، رولنگ پر ڈپٹی اسپیکر کے دستخط کہاں ہیں، پارلیمانی کمیٹی میٹنگ منٹس میں ڈپٹی اسپیکر کی موجودگی بھی ظاہر نہیں ہوتی۔ نعیم بخاری نے کہا کہ جو دستاویز پیش کی ہے وہ شاید اصلی والی نہیں ہے۔

دلائل کے آغاز میں جسٹس جمال مندوخیل نےنعیم بخاری سے استفسار کیا تھا کہ کیا اسپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟ نعیم بخاری نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اگر اسپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا تو کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا زیر التواء تحریک عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈر پر مسترد ہو سکتی ہے؟ نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر اسپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن اسپیکر کا اختیار ضرور ہے، اب نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا اور اب معاملے عوام کے پاس ہے، اس لیے سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیے۔

وکیل وزیراعظم امتیاز صدیقی کے دلائل

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی ہے، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن اناؤنس کر دے۔ الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا، یہ قومی مفاد ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل میں کہا کہ عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کاروائی میں مداخلت نہیں اور عدالت کے سامنے معاملہ ہاوس کی کارروائی کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے قومی مفاد کو دیکھنا ہے۔

امتیاز صدیقی نے دلائل میں کہا کہ ایوان کی کارروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے بلکہ عدالت پارلیمان کو اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کی کال دے کر 90 دن کے لیے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور اب وزیراعظم صدر کی ہدایات پر کام کر رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا کہ لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے رولنگ آ سکتی تھی، اس معاملے پر آپ کیا کہیں گے؟

وکیل وزیراعظم امتیاز صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی اسپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا اور پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی اور عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے۔

امتیاز صدیقی نے دلائل میں کہا کہ اسپیکر کو اگر معلوم ہو کہ بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے تو وہ قانون سے ہٹ کر بھی ملک کو بچائے گا اور اسپیکر نے اپنے حلف کے مطابق بہتر فیصلہ کیا جبکہ اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 69 کو ارٹیکل 127 سے ملاکر پڑھیں تو پارلیمانی کارروئی کو مکمل تحفظ حاصل ہے اور سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پر عمل کرنے کی پابند نہیں، جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ معذرت کےساتھ مائی لارڈ، 7 رکنی بینچ کے آپ پابند ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان میں آبزرویشنز ہیں اور عدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنز کی پابند نہیں۔


وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس نے اسفتسار کیا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کے پاس کوئی مٹیریل دستیاب تھا جس کی بنیاد پر رولنگ دی؟ کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟ ڈپٹی اسپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟

جواب میں وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نا کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے پاس ووٹنگ کے دن مواد موجود تھا جس پر رولنگ دی۔ استفسار کیا کہ وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ ڈپٹی اسپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن ووٹنگ کے دن رولنگ آئی۔ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ایوان ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ختم کر سکتا تھا لیکن وزیراعظم نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی۔
 

علی وقار

محفلین
رولنگ کی تو حسب توقع چھٹی ہوئی۔ اب عدالت نے صرف یہ فیصلہ کرنا ہے کہ رولنگ کے ما بعد اقدامات کو قانونی تحفظ دیا جائے یا نہیں۔ ساڑھے سات بجے فیصلہ آ جائے گا۔ ویسے عدالت کے لیے آسان راستہ یہ ہے کہ رولنگ کے ما بعد اقدامات کو کالعدم قرار دے تاہم اگر اندر کھاتے پارٹیوں نے کوئی ڈیل کر لی ہے تو پھر معاملہ عام انتخابات کی طرف جائے گا جس کے آثار فیصلے سے ہی نظر آ جائیں گے۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ عدالت روڈ میپ کیسے بنائے گی اس لیے غالب امکان ہے کہ شاید وہ رولنگ اور ما بعد اقدامات کو غلط قرار دے کر جان چھڑوا لے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ایک نیا احتجاج
حکومتِ وقت سے دست بستہ گذارش ہے کہ براہِ کرم امامِ عالی مقام حضرتِ حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم قربانی کی مثالوں کو خود پر چسپاں کرنے سے گریز فرمائیں۔

آپ کی بات سے بالکل متفق۔ سیاست میں مذہب کو بالکل بھی استعمال نہیں کرنا چاہییے، چاہے وہ ریاست مدینہ کا نام ہو یا امام حسین کا نام، یا اسلام خطرے میں ہے کا بیانیہ یا مدرسوں کے بچوں سے سڑکوں پر احتجاج کروانا، وغیرہ وغیرہ۔
20220407-181708.jpg

وارث بھائی میرے اعتراض کی یہ وجہ تھی۔ ان دونوں صاحبان کی اپنی اپنی جماعت پر اسی مثال کو چسپاں کرنے کی حرکات چیک کریں۔ کربلا کی عظیم قربانی کو کس انداز سے پیش کیا جا رہا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top