احتجاج ریکارڈ کروائیں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
10 اپریل کے فیصلے کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ عمران خان صاحب کو ایمانداری کے ساتھ ساتھ ایک اچھی ٹیم کی بھی ضرورت ہوگی تب ہی ایک کامیاب وزیراعظم بنیں گے
 

علی وقار

محفلین
مجھے بھی اِن کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں بس ایک دو ویڈیوزہی دیکھی تھیں۔
غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ اس قدر حتمیت سے بات کرنا مناسب نہیں۔ عام طور پر ایک دو باتیں کسی کی اتفاقاً درست نکل آئیں تو یار دوست انہیں مرشد مان لیتے ہیں۔ ہاں، اگر یہ ان کا سیاسی تجزیہ ہے تو الگ معاملہ ہے۔ سیاسی تجزیہ ان کا حق ہے۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
عمران والےخط کو بالکل ہی اہمیت کیوں نہ دی گئی ؟
یہ بات تو اس کی درست لگتی ہے کہ دیکھتے تو سہی کہ اصل میں تھا کیا ؟
سید صاحب! مراسلے میں وارننگ ہو گی مگر اس کی بنیاد پر آئین و قانون کو بلڈوز کرنے کا عمل درست نہیں تھا۔ بہر حال، اب اس ایشو پر خان صاحب مناسب فورمز تک شکایت پہنچا سکتے ہیں۔ ظفر ہلالی صاحب کو میں نے سنا، جو خان صاحب کے بڑے مداح اور پائے کے سفارت کار ہیں، ان کے بقول اس مراسلے کو نظرانداز کیا جانا بہتر تھا۔ ایسے معاملات ریاستوں کے مابین چلتے رہتے ہیں۔ ایسی دھمکیاں روٹین کا حصہ ہیں۔ خان صاحب نے معاملے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی بجائے اسے پاک امریکا جنگ بنا دیا جو کہ بجائے خود غلط رویہ تھا۔ اگر وہ عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے روز اول سے متحرک ہو جاتے تو شاید نتیجہ مختلف رہتا۔ اب بھی دیکھیے محض دو ووٹوں سے اپوزیشن کامیاب ہوئی۔ میرے نزدیک یہ خان صاحب کے لیے اچھا ہوا۔ اب وہ نئے سرے سے پارٹی کی نتظیم نو کر سکتے ہیں اور ایک بڑے سیاسی معرکے کے لیے پارٹی کو تیار کر سکتے ہیں۔ عوام میں ان کی مقبولیت اب بھی قائم و دائم ہے۔
 

زیک

مسافر
ویسے کیا خیال ہے وہ ملک زیادہ بڑا لطیفہ نہیں تھا جس کے ہارنے والے صدر نے اپنے ہی شہریوں سے اپنی ہی پارلیمنٹ پر حملہ کروا کے اپنے ہی لوگوں کو مروا دیا تھا؟
سالہا سال سے کہہ رہا ہوں ٹرمپ اور عمران میں کوئی فرق نہیں آج آپ بھی مان گئے
 

زیک

مسافر
سنا ہے آج کچھ جلسے جلوسوں میں کارکنان کی جانب سے فوج کو بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ اگر عمران خان یہ بیان دے دیں تو میں ان کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ جمہوری جدوجہد میں خوش آمدید کہوں گا۔
 

علی وقار

محفلین
سنا ہے آج کچھ جلسے جلوسوں میں کارکنان کی جانب سے فوج کو بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ اگر عمران خان یہ بیان دے دیں تو میں ان کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ جمہوری جدوجہد میں خوش آمدید کہوں گا۔
سیاسی لیڈر کی طرف سے ایسی جرات رندانہ دکھانا اور نعرہء مستانہ لگانامُشکل لگتا ہے بالخصوص اس تناظر میں کہ اقتدار میں آنے کے لیے پھر اسی در کے پھیرے لگانا پڑتے ہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
پہلی بات یہ ہے کہ ووٹنگ ہونی ہی نہیں چاھئیے
ووٹنگ اور اعتماد کا ووٹ لے کر ہی عمران خان وزیراعظم بنے تھے
اب صرف اِن کو پورے پانچ سال حکومت کرنے دینی چاھئیے تھی
پھر ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کرنا چاھئیے تھا
پھر تو آئین سے عدم اعتماد سے متعلق شقیں نکال دینی چاہئیں۔ خواہ مخواہ آئین کی کتاب پرنٹ کرتے ہوئے سیاہی کا ضیاع ہوتا ہو گا۔
 
سالہا سال سے کہہ رہا ہوں ٹرمپ اور عمران میں کوئی فرق نہیں آج آپ بھی مان گئے
یوتھیوسس ایک عالمگیر بیماری ہے جو کہیں بھی کسی بھی ملک کو اپنا شکار بنا سکتی ہے ۔۔۔ یہ ایک انتہائی خطرناک جرثومے سٹیفلوتبدلیوکس کے ذریعے پھیلتی ہے ۔۔۔ ایک بار یہ جرثومہ دماغ تک پہنچ جائے تو نیگلیریا فاؤلری کی طرح پھر یہ آہستہ آہستہ دماغ کا کو کھانا شروع کردیتا ہے۔ اسٹیج 5 یوتھیوسس پر تمام برین سیلز کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔۔۔اس مرض کا بجز احتیاط کوئی علاج نہیں ۔۔۔ صرف پاپیولزم سے دور رہ کر ہی اس سے بچا جا سکتا ہے۔
:)
 
سنا ہے آج کچھ جلسے جلوسوں میں کارکنان کی جانب سے فوج کو بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ اگر عمران خان یہ بیان دے دیں تو میں ان کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ جمہوری جدوجہد میں خوش آمدید کہوں گا۔
وہ تو مبینہ طور پر چپیڑ کھا کر بھی خاموشی سے نکل لیے، بیان کیا خاک دیں گے!۔۔۔
بیان دیا بھی تو ایک مخصوص شخصیت کے خلاف دے دیں گے (اگرچہ یہ ان کے یو ٹرنز میں ایک اور اضافہ ہوگا کیونکہ مذکورہ شخصیت کو وہ ماضی میں اس ادارے کی تاریخ کی سب سے زیادہ جمہوریت پسند شخصیت قرار دے چکے ہیں) ۔۔۔کیونکہ ان کی امیدیں اب بھی اسی ادارے کی ایک دوسری شخصیت کا فیض جاری ہونے پر ٹکی ہیں۔ سنا ہے وہ دوسری شخصیت بڑی اللہ لوک ہے۔ واللہ اعلم۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یوتھیوسس ایک عالمگیر بیماری ہے جو کہیں بھی کسی بھی ملک کو اپنا شکار بنا سکتی ہے ۔۔۔ یہ ایک انتہائی خطرناک جرثومے سٹیفلوتبدلیوکس کے ذریعے پھیلتی ہے ۔۔۔ ایک بار یہ جرثومہ دماغ تک پہنچ جائے تو نیگلیریا فاؤلری کی طرح پھر یہ آہستہ آہستہ دماغ کا کو کھانا شروع کردیتا ہے۔ اسٹیج 5 یوتھیوسس پر تمام برین سیلز کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔۔۔اس مرض کا بجز احتیاط کوئی علاج نہیں ۔۔۔ صرف پاپیولزم سے دور رہ کر ہی اس سے بچا جا سکتا ہے۔
:)
یہاں کسی قدر سلجھے ماحول میں بحث چل رہی ہے قبلہ، یہ ڈھکی چھپی گالم گلوچ براہِ مہربانی دیگر پلیٹ فارمز کے لیے ہی رہنے دیں۔
 
یہاں کسی قدر سلجھے ماحول میں بحث چل رہی ہے قبلہ، یہ ڈھکی چھپی گالم گلوچ براہِ مہربانی دیگر پلیٹ فارمز کے لیے ہی رہنے دیں۔
جی بہتر ۔۔۔ آپ کے حکم سے سرتابی کی مجال نہیں ۔۔۔ مگر سنجیدگی کا عالم یہاں یہ نظر آیا کہ کوئی فرما رہا تھا کہ عدم اعتماد کا ووٹ ہونا ہی غلط تھا ۔۔۔
خیر ۔۔۔ مزید کوئی سارکسٹک تبصرہ نہیں کروں گا اس لڑی میں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ملفوف گالم گلوچ کا الزام ٹھیک نہیں قبلہ ۔۔۔
کچھ الفاظ اتنے زیادہ استعمال ہو جاتے ہیں کہ وہ قبیح ہوتے ہوئے بھی کثرت استعمال سے قبیح لگتے نہیں۔ یوتھیا ان میں سے ایک ہے، ظاہر ہے گالی کو بدل کر حریفوں پر چسپاں کیا گیا ہے اور اچھے خاصے سنجیدہ حضرات بنا سوچے سمجھے اس کو استعمال کر جاتے ہیں۔
 
عمران والےخط کو بالکل ہی اہمیت کیوں نہ دی گئی ؟
یہ بات تو اس کی درست لگتی ہے کہ دیکھتے تو سہی کہ اصل میں تھا کیا ؟
یہ بات درست نہیں کہ مذکورہ خط کو بالکل اہمیت نہیں دی گئی۔
جتنی اس کی اہمیت تھی، خان صاحب کے واویلے کی وجہ سے اس سے بڑھ کر اس کو توجہ ملی۔
آپ یہاں خان صاحب کی روایتی غلط بیانی سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔
موصوف کا سب سے پہلا دعویٰ یہ تھا کہ ہمیں کسی بیرونی طاقت کی طرف سے بذریعہ خط ’’لکھ کر‘‘دھمکی دی گئی ہے۔
کوئی بھی ذی شعور اس دعوے کا کیا مطلب لے گا؟ یہی کہ کسی ملک نے ہمیں دھمکی آمیز خط بھیجا ہے۔۔۔ اسکے علاوہ کوئی مطلب اخذ کرنا ایسا ہی ہے جیسے انٹر کی اردو میں میرؔ کے اشعار کی تشریح زبردستی عشق حقیقی کے تناظر میں کی جاتی تھی۔
خیر، لیکن معاملہ خود حکومتی حلقوں نے صاف کر دیا کہ یہ خط کسی دوسرے ملک کا نہیں، بلکہ اپنے ہی سفیر کا سفارتی مراسلہ ہے۔ کیا یہیں سے خان صاحب کے دعوے کی نفی نہیں ہوگئی؟؟
خیر اس کو بھی چھوڑیں، خود 28 مارچ کو حکومتی وزرا اسد عمر اور فواد چوہدری نے کیا پریس کانفرنس کر کے یہ نہیں کہا تھا کہ حکومت اس خط کی مزید تحقیقات نہیں کروائے گی؟
کیوں؟؟؟ جب خود حکومت وقت ہی اس کی تحقیقات میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی تو کوئی اور اس ڈرامے کو سنجیدہ کیوں لیتا؟ حکومت کی اس غیر سنجیدگی کی وجہ یہ تھی کہ انہیں اس وقت بھی امید تھی کہ 1965 کی جنگ کی طرح غیب سےکچھ سبز پوش اس کی کمک کو آن پہنچیں گے۔ جب ایسا نہیں ہوا تو انہیں اس ڈرامے کو مزید بڑھاوا دینے کے لیے اور شور و غوغا کرنا پڑا۔
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کو بلا لیا گیا مگر اس اجلاس کے اعلامیے میں بھی (جو وزیر اعظم آفس سے جاری ہوا) کسی بیرونی سازش اور عدم اعتماد کی تحریک کے ربط کا تذکرہ تک نہیں کیا گیا۔
سابق وزیر اعظم کے دعووں میں اگر صداقت تھی تو عسکری حکام کے کھل ان کی تصدیق کرنے میں کیا امر مانع تھا؟ اس سے سوائے اس کے کوئی اور نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ خود پوری کی پوری عسکری قیادت بھی اس مبینہ سازش میں شریک ہے!
خان صاحب کے بقول 7 تاریخ کو انہیں دھمکی موصول ہوگئی تھی ۔۔۔ مگر امریکا سے ہمارے سفارتی تعلقات معمول کے مطابق چلتے رہے ۔۔۔ جس امریکی اہلکار پر دھمکی دینے کا الزام ہے، الزام لگانے والے سفیر صاحب اگلے ہفتے ان کو سفارت خانے کی تقریب میں نہ صرف مدعو کرتے ہیں بلکہ ان کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں ۔۔۔ اپنی میعاد مکمل کرنے بعد بھی مذکورہ سفیر صاحب امریکی انتظامیہ کا بھرپور شکریہ ادا کرتے ہیں۔ دریں اثنا ہمارے وزیر خارجہ امریکی وفد کو او آئی سی اجلاس میں بھی شریک کرتے ہیں اور مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔۔۔
اس دوران یہ دعوی بھی بارہا کیا جاتا ہے کہ مبینہ دھمکی ایک سرکاری مینٹنگ میں دی گئی تھی، ہمارے سفیر کو جس کے منٹس کی کاپی بھی تھمائی گئی تھی!
ان منٹس کی اصل کاپی کس کے پاس ہے؟ کسی نے دیکھی؟ میرا اشارہ اس سرکاری دستاویز کی جانب ہے جو مبینہ طور پر امریکی عہدیداروں نے ہمارے سفیر کو تھمائی تھی۔ اس کا اس سب رام کتھا میں کوئی ذکر تک نہیں!
اس سب سے بڑھ کر ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ آخر خان صاحب کی حکومت امریکا کے مفادات کے مخالف ایسا کون سا عظیم کام کر رہی تھی جس کی وجہ اسے خان صاحب کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی منصوبہ بندی بذریعہ محکمہ خارجہ کرنی پڑی ۔۔۔
کیا ایسے منصوبے خفیہ ہوتے ہیں یا اعلانیہ؟
ہندوستان کی مثال دیکھ لیں، جیسے ہی اس نے روس سے سستا تیل خریدنے کے لیے پر تولنا شروع کیے، امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے نئی دہلی میں بیٹھ کر کھلم کھلا اسے سنگین نتائج کی دھمکی دی۔ خان صاحب تو صرف ایک دورہ کر کے آئے تھے، جس کے آخر میں کوئی ٹھوس میٹریل پیشرفت نہیں ہوئی تھی۔ کیا پاکستان سے روس ایک مکعب فٹ بھی گیس خریدنے کی کوشش بھی کی تھی ۷ مارچ تک؟
الغرض اس کہانی میں اتنے جھول ہیں کہ کسی بھی ذی شعور کا اس پر یقین کرنا مشکل ہے۔
 
جو بھی نکالنا چاہتے تھے لیکن قانون کوئی نہیں ٹوٹا اس میں۔ وگرنہ سال ہا سال سے لاکھوں پینڈنگ کیسوں والی عدالتیں اس بار ایک منٹ کے التوا کے لیے بھی تیار نہیں تھیں اور اور اگر ایک منٹ کی بھی دیر ہوتی تو وہ تو سزا دینے کے لیے پہلے ہی سے عدالت کھولے بیٹھے تھے!
یہ کیس کوئی معمولی کیس نہیں تھا، آئینی مقدمہ تھا جسے عام سول یا فوجداری مقدمات پر قیاس کرنا ٹھیک نہیں ۔۔۔ ریاست کی بنیاد ہی آئین پر ہے، اور اس کیس میں عدالت حکومتی اقدامات کو آئین شکنی قرار دے چکی تھی۔ مستقبل کے طالع آزماؤں کے لیے ایک سخت نظیر قائم کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ عدالت اس ضمن کسی بھی قسم کی رعایت کا مظاہرہ نہ کرتی۔
 
پر موقع دینا چاھئیے تھا اور پورے پانچ سال حکومت کرنے دینی چاھئیے تھی حکومت جاتے جاتے اچھے پیکیج دیتی ہے لیکن اِس حکومت کو یہ موقع ہی نہ دیا
میرے بھائی ۔۔۔ فرسٹ پاسٹ دا پوسٹ سسٹم میں حق حکمرانی اس پارٹی کو حاصل ہوتا ہے جو اپنی سیاسی قوت کو زیادہ سے زیادہ مجتمع کر لے۔ اسی اصول کے تحت خان صاحب صرف تیس فیصد ووٹ لینے باوجود پچھلے پونے چار سال سے مسند اقتدار پر براجمان تھے ۔۔۔ اور (سلیکشن اور مینجمنٹ کے الزامات سے صرف نظر کرتے ہوئے) بالکل ٹھیک تھے۔ جونہی ان کے مخالفین نے اپنی قوت مجمتع کر لی، انہیں جمہوری اور آئینی حق حاصل ہوگیا کہ وہ چاہیں تو خان صاحب کو اقتدار سے باہر کر دیں ۔۔۔
یہ طریقہ ماضی کے اپنائے گئے طریقوں کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے اور عین ممکن تھا کہ خوشگوار طریقے سے انتقال اقتدار عمل میں آجاتا اگر خان صاحب گزشتہ برس سینٹ انتخابات کے بعد کہے گئے اپنے ہی الفاظ پر قائم رہتے۔
حکومت اگر ان تین سالوں میں انتقامی کاروائیوں کے بجائے اپنی کارکردگی سے مخالفین کو زیر کرنے کی پالیس اپناتی تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے۔
مسئلہ صرف خان صاحب کی آمرانہ طبیعت کا ہے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ جیسے کرکٹ ٹیم میں وہ قواعد و ضوابط کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی من مانی کر لیتے تھے، اقتدار میں بھی ایسا ہی کر سکیں گے اور ان کے مخالفین، ان کے پرانے ٹیم میٹس کی طرح، ان کی مسحورکن شخصیت سے مرعوب ہو کر بس منمناتے رہیں گے۔
کاش خان صاحب کو 11 لوگوں اور بائیس کروڑ لوگوں کو مینج کرنے میں فرق کرنا آتا!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک سوال یہ بھی ہے کہ جو اپوزیشن ساری کی ساری اس حکومت کو پہلے دن سے ہی تسلیم نہیں کرتی تھی وہ ساڑھے تین سال تک کیوں اکٹھے نہ ہو سکی ۔
یا کمیٹی آخر میں ملی تھی؟ :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ایک سوال یہ بھی ہے کہ جو اپوزیشن ساری کی ساری اس حکومت کو پہلے دن سے ہی تسلیم نہیں کرتی تھی وہ ساڑھے تین سال تک کیوں اکٹھے نہ ہو سکی ۔
یا پیسے کم تھے یا کمیٹی آخر میں ملی تھی؟ :)
مجھے تو لگتا ہے جو خان صاحب کو لائے وہی اکتا گئے۔ ورنہ کچھ بھی ہوتا "انہوں" نے اپوزیشن کو دن میں تارے دکھا دینے تھے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top