نوید ناظم
محفلین
اس دنیا میں بے شمار لوگ آباد ہیں اور ہر انسان اپنا الگ مزاج رکھتا ہے، ہر ایک کا کوئی نہ کوئی زاویہءِ نگاہ ہے جو کہ دوسرے لوگوں سے الگ ہو سکتا ہے۔ ہر کوئی ہر کسی سے متفق ہو سکا نہ کبھی ہو گا۔ یہ زندگی کا اپنا مزاج ہے کہ یہ ہر بات پر اتفاق نہیں چاہتی۔ بنانے والے نے نظام ایسا بنایا ہے کہ اس میں اختلافِ رائے کی گنجائش رکھ دی ہے۔ کسی کو دن پسند ہے تو کسی کو رات، کوئی گُل ہے تو کوئی مثلِ خار۔ کوئی قدرت کے جلوں پر قربان ہورہا ہے تو کوئی قدرت کی کاری گری سےانکار کرتا نظر آتا ہے۔ سب کا اپنا خیال ہے، سب کا اپنا عمل ہے اور پھر یہ کہ سب کی اپنی عاقبت ہے۔ ہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ جو وہ سمجھ رہا ہے وہی ٹھیک ہے، حتیّٰ کہ لوگ جھوٹ کو ابدی سچائی کے طور پر تسلیم کرلیتے ہیں اور ازلی سچائی کو ماننے سے انکار بھی کر دیتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ انسان جو مجھ سےاختلاف رکھتا ہے وہ اس اختلاف کی وجہ سے اپنا وہ احترام بھی کھو چکا جو قدرت نے اُسے انسان ہونے کے ناطے بخشا۔ ہم سچ اور جھوٹ کی بحث نہیں کر رہے، ہم صرف دوسروں کا نقطہ نظربیان کر رہے ہیں۔ ان سے اختلاف رکھنے کے باوجود ان کا احترام بحال رکھنے کی بات کر رہے ہیں۔ کیونکہ اگر انسانیت کا احترام نہ رہا تو انسان بھی نہیں رہیں گے۔ علماء بیان کرتے ہیں کہ ایک بار ایک عورت کے سر پر دوپٹہ نہ تھا' حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسے دوپٹہ دیا جائے، کہا گیا کہ یہ کافر ہے، جواب ارشاد ہوا کہ کافر ہے تو پھر کیا عورت تو ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہماری اپنوں سے نہیں بنتی، ہم غیروں سے کیا نبھائیں گے۔ ہم نے کسی کا سر کیا ڈھانپنا ہمیں دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے سے فرصت نہیں۔ لوگ ایک عمر ساتھ رہتے ہوئے گزار دیتے ہیں مگر دل میں ایک دوسرے کا احترام پیدا نہیں ہو پاتا۔ محبت کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت کی جاتی ہے، اخلاص کے نام پر دل میں ایک دوسرے کے خلاف بغض رکھا جاتا ہے اور طرفہ تماشا یہ کہ اس کا اظہار بھی سرِ بازار ہوتا ہے۔ دوسروں کی عزتِ نفس کو مجروح کر کے انسان سچائی اور اخلاص کے میدان میں سرخرو ہوتا رہتا ہے۔ چونکہ آدمی کی قدر ختم ہو رہی ہے اس لیے آدمیت کی قدریں بھی ختم ہو رہی ہیں۔ ہم نے اپنے مخالفین کی خامیوں ہی پر اکتفا کر لیا ہے اور ان کی خوبیوں سے نہ صرف یہ کہ صَرفِ نظر کیا بلکہ ماننے ہی سے انکار کر دیا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ خالق نے کسی انسان کو محض خامیوں کا پلندہ بنا کر پیدا کر دیا ہو اور نہ ایسا ہی ہو سکتا ہے کہ خالق انسان کو فرشتوں کی صورت دنیا میں بھیج دے۔ انسان میں خیر اور شر دونوں کی طرف میلان موجود رہتا ہے اور انسان اپنے اندر خیر اور شر کی یہ جنگ زندگی بھر لڑتا رہتا ہے۔ لہٰذا ہم کسی انسان کے بارے میں اُس وقت تک کوئی فیصلہ دینے کے مجاز نہیں ہیں جب تک کہ خود خالق اُس کے بارے میں فیصلہ نہ سنا دے۔ جب تک وہ دن نہ آ جائے کہ کہا جائے آج مجرم الگ ہو جائیں۔ درحقیقت کسی انسان پر اُس وقت تک انگلی نہیں اٹھانی چاہیے جب تک کہ ہاتھ گواہیاں نہ دینے لگ جائیں۔ ظاہر ہے کہ ہر کسی کی بات سے اتفاق نہیں ہو سکتا مگر اُس کا احترام تو بحال رکھا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ احترام بحال رہنا چاہیے، تا کہ اپنا بھرم بھی قائم رہ سکے!