احتیاط لازم ہے۔۔۔ کیا پاکستان نے تیسری جنگ میں کودنے کا فیصلہ کرلیا؟

حسینی

محفلین
x6732_50331544.jpg.pagespeed.ic.1gSdh-6ruO.jpg
 

حسینی

محفلین
پاکستانی صحافت میں حقائق سے زیادہ جذبات پر زور ہوتا ہے۔ اسلئے ہمیں اکثر جنگ میں کئی سال بعد گزر جانے کے بعد پتا چلتا ہے کہ: او ہائے! ہم تو حالت جنگ میں ہیں :)
تو کیا شام کی جنگ میں بھی پاکستان اپنا حصہ ڈال چکا ہے؟؟؟ کیا ہماری حکومت اور اداروں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا؟
 
پاکستانی صحافت میں حقائق سے زیادہ جذبات پر زور ہوتا ہے۔ اسلئے ہمیں اکثر جنگ میں کئی سال بعد گزر جانے کے بعد پتا چلتا ہے کہ: او ہائے! ہم تو حالت جنگ میں ہیں :)
پوری اردو بلکہ اسلامی صحافت کا یہی حال ہے ۔۔۔۔
 
اچھا لکھا ہے۔ لیکن کالم نگار کی ایک بات سے اختلاف کروں گا کہ شاید ان کے پاس معلومات نہ ہوں۔
"سعودی عرب کے تیل پیدا کرنے والے علاقوں میں شیعہ آبادی کی تعداد زیادہ ہے"
ایسا نہیں ہے۔
 

arifkarim

معطل
اچھا لکھا ہے۔ لیکن کالم نگار کی ایک بات سے اختلاف کروں گا کہ شاید ان کے پاس معلومات نہ ہوں۔
"سعودی عرب کے تیل پیدا کرنے والے علاقوں میں شیعہ آبادی کی تعداد زیادہ ہے"
ایسا نہیں ہے۔

تیل تو زمین کے نیچے سے نکل رہا ہے۔ اب اوپر شیعہ ہوں یا ڈنگر، کیا فرق پڑتا ہے؟ :)
 
تیل تو زمین کے نیچے سے نکل رہا ہے۔ اب اوپر شیعہ ہوں یا ڈنگر، کیا فرق پڑتا ہے؟ :)
کالم نگار نے شاید کوئی فرق نکالا ہو۔ :)
تیل سے مالا مال سعودی عرب کا مشرقی صوبہ تقریباً پونے 7 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ جس میں ایک سے نو لاکھ تک کی آبادی کے 6-7 شہر ہیں باقی تمام علاقہ مکمل طور پر صحرا پر مشتمل ہے۔ اس خطے کی کل آبادی 41 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ان میں اہل تشیع آبادی صرف 5سے 6 لاکھ ہے۔ صرف دو شہروں قطیف اور الا حساء میں شیعہ مسلمانوں کی آبادی سنی مسلمانوں سے زیادہ ہے۔
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
تیل تو زمین کے نیچے سے نکل رہا ہے۔ اب اوپر شیعہ ہوں یا ڈنگر، کیا فرق پڑتا ہے؟ :)
غلط مقابلہ۔ آپ سے ایسی توقع کم ہی ہوتی ہے
کالم نگار نے شاید کوئی فرق نکالا ہو۔ :)
تیل سے مالا مال سعودی عرب کا مشرقی صوبہ تقریباً پونے 7 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ جس میں ایک سے نو لاکھ تک کی آبادی کے 6-7 شہر ہیں باقی تمام علاقہ مکمل طور پر صحرا پر مشتمل ہے۔ اس خطے کی کل آبادی 41 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ان میں اہل تشیع آبادی صرف 5سے 6 لاکھ ہے۔ صرف دو شہروں قطیف اور الا حساء میں شیعہ آبادی سنی مسلمانوں سے زیادہ ہے۔
شیعہ کو آبادی اور سنی کو مسلمان کہنا بری بات ہے۔ آپ سے یہ توقع نہیں تھی
 
غلط مقابلہ۔ آپ سے ایسی توقع کم ہی ہوتی ہے

شیعہ کو آبادی اور سنی کو مسلمان کہنا بری بات ہے۔ آپ سے یہ توقع نہیں تھی
میں معذرت خواہ ہوں۔ ایسا دانستہ نہیں لکھا۔ دراصل کالم نگار نے لفظ آبادی لکھا تھا تو روانی میں، میں نے بھی وہی لکھ دیا۔ تدوین کر دی ہے۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کالم نگار کا سال 1965 کی جنگ اور اس ميں امريکی کردار کے حوالے سے کیا جانے والا دعوی بالکل درست نہيں ہے۔ واقعات کے تسلسل اور اور درست تناظر کو نظرانداز يا مخفی رکھ کے محض منتخب تاريخی حقائق کو اجاگر کرنے کی دانستہ کوشش کی گئ ہے۔
سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ اس ميں کوئ شک نہيں کہ اس وقت امريکی حکومت پاکستان اور بھارت دونوں کو عسکری مدد فراہم کر رہی تھی۔ ليکن بھارت کو اسلحے کی فراہمی اسے پاکستان پر برتری فراہم کرنے کی کوشش ہرگز نہيں تھی۔

سال 1963 ميں صدر کينيڈی کا يہ بيان اس معاملے پر امريکی موقف کو واضح کرتا ہے۔

"بھارت کو عسکری امداد فراہم کرنے کے ضمن ميں ہميں پاکستان کے ساتھ اپنے اشتراک کا بھی ادراک ہے۔ بھارت کو دی جانے والی تمام تر امداد کا مقصد چينی کميونسٹ بغاوت کو شکست دينا ہے۔ برصغير ميں چينی مداخلت بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ليے بھی خطرہ ہے اور اس سے نبردآزما ہونے ميں دونوں کا مشترکہ فائدہ ہے"۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ جب کشمير کے تنازعے اور دونوں ممالک کے مابين جاری جھڑپيں سال 1965 ميں ايک باضابطہ جنگ کی شکل اختيار کر گئيں تو امريکی حکومت کو بادل نخواستہ ہتھياروں کی فراہمی پر پابندی عائد کرنا پڑی تھی۔ ليکن يہ پابندی صرف پاکستان پر ہی نہيں بلکہ دونوں ممالک پر عائد کی گئ تھی۔

ستمبر 20 1965 کو اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل نے قرارداد نمبر 211 منظور کی تھی جس ميں جنگ بندی اور کشمير کے تنازعے کو بات چيت کے عمل سے طے کرنے کی ضرورت پر زور ديا گيا تھا۔ اقوام متحدہ کے اسی فيصلے کی تائيد ميں امريکہ اور برطانيہ نے دونوں فريقين کو اسلحے کی فراہمی بند کر دی تھی۔ چونکہ دونوں فريقين پر يکساں پابندی کی گئ تھی چانچہ تاريخی طور پر يہ دعوی بالکل غلط ہے کہ امريکہ نے پاکستان کے ساتھ دھوکہ کيا يا اس کا ساتھ چھوڑ ديا تھا۔

عسکری امداد سے متعلق پروگرام سال 1965 ميں پاک بھارت جنگ تک چلتا رہا ليکن جنگ کی بدولت صدر لينڈن بی جانسن نے اسلحے کی ترسيل پر پابندی عائد کی جو پاک بھارت کے درميان 1971 ميں ہونے والی جنگ ميں بھی برقرار رہی اور آخر کار سال 1975 ميں امريکی صدر فورڈ کی انتظاميہ نے اس پابندی کو اٹھايا۔

يہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ "ميوچل سيکورٹی ايکٹ" کے تحت پاکستان اس بات کا پابند تھا کہ امريکی ہتھيار کسی دوسرے ملک پر حملے کے ليے استعمال نہيں کرے گا۔ ان وجوہات کی بنا پر ستمبر 8 1965 کو دونوں فريقين پر امريکی حکومت کی جانب سے پابندی عائد کی گئ۔ اس کے ايک روز کے بعد امريکی وزارت خارجہ نے پاک بھارت تنازعے ميں غير جانب داری کا اعلان کر ديا۔

حقائق کو درست تناظر ميں ديکھنے کے ليے يہ بھی واضح کر دوں کہ سال 1954 سے لے کر 1965 تک کے درميانی عرطے ميں پاکستان کو ايک بلين ڈالرز سے زائد فوجی امداد فراہم کی گئ تھی۔ يہ امداد پاکستان کی دفاعی صلاحيتوں ميں اضافے کے ليے بہت موثر ثابت ہوئ کيونکہ اس کی بدولت فوج ميں نيا سازوسامان اور اسلحہ شامل کيا گيا، نئے فوجی اڈے قائم کيے گئے، پرانے اڈوں کی توسيع کی گئ اور دو نئے کور کمانڈز کو تشکيل ديا گيا۔

پاکستان کی وزارت خارجہ ميں خدمات سرانجام دينے والے شاہد ايم امين اپنی کتاب "پاکستان فارن پاليسی – اے ری اپريزل" ميں لکھتے ہيں کہ "يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ پاکستان کے قيام کے ابتدائ برسوں ميں ان معاہدوں کے توسط سے بہت خطيرامريکی عسکری اور معاشی امداد حاصل ہوئ اور جيسا کہ 1965 کی جنگ سے واضح ہوا کہ اسی بدولت بھارت سے مقابلہ کرنے کے ليے پاکستان کو خاطر خواہ تقويت ملی۔"

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
Top