احرار الہند نے حکومت اور طالبان کو چیلنج کر دیا، دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی

احرار الہند نے حکومت اور طالبان کو چیلنج کر دیا، دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی

14 مارچ 2014 (21:01)

ہنگو (مانیٹرنگ ڈیسک) احرار الہند نے پشاور اور کوئٹہ میں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، احرار الہند کے سربراہ عمر قاسمی نے کہا ہے کہ ان کا مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں۔ نجی ٹی وی جیو نیوز نے غیر ملکی خبر ایجنسی کے حوالے سے بتایا ہے کہ احرار الہند کے سربراہ نے عمر قاسمی نے غیر ملکی میڈیا سے بات چیت میں کوئٹہ اور پشاور میں ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ ان کا کالعدم تحریک طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان نے دونوں کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے غیر ملکی خبر ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ اور پشاور میں ہونے والے بم دھماکوں کی مذمت کرتے ہیں، ملا فضل اللہ کے حکم کے پابند ہیں، حملے ہم نے نہیں کئے۔

http://www.dailypakistan.com.pk/national/14-Mar-2014/82985
 
بے معنیٰ جنگ بندی

ڈان اخبارتاریخ اشاعت 17 مارچ, 2014 اداریہ

اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ ۔۔۔ یہ تمام شہر کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد حملوں کی زد میں آئے اور ان سب کی ذمہ داری ٹی ٹی پی سے علیحدگی اختیار کرنے والے نام نہاد گروہ احرارالہند نے قبول کی۔ اور اس کے بعد بھی، حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان معمول کے مطابق مذاکراتی عمل جاری و ساری ہے۔ یہاں سوالوں کے دو علیحدہ علیحدہ مجموعے ہیں جو پاکستان مسلم لیگ ۔ نون اور ٹی ٹی پی کو مخاطب کرتے ہیں۔

شروعات کرتے ہیں ٹی ٹی پی سے۔ اگر حملے علیحدہ ہونے والے ایک ایسے گروہ نے کیے جو قومی رسائی کا حامل ہے، تو پھر یہ خیال اس لیے نامعقول ہے کہ احرارالہند نے جتنے حملوں کی ذمہ داری قبول کی، ان میں طریقہ کار اور انداز وہی تھا جو ٹی ٹی پی کا طرّہ امتیاز ہے، لہٰذا بنا کسی ثبوت کے، کس طرح ان حملوں پر ٹی ٹی پی کے اعلانِ لاتعلقی کو قبول کرلیں؟

یہ پیش نظر رہے کہ کم از کم ٹی ٹی پی اس بات سے انکاری نہیں ہے کہ آج جو عناصر احرارالہند کی تشکیل کرتے ہیں وہ کبھی اس کے نیٹ ورک کا حصہ تھے۔ یہ عسکریت پسند گروہ اس حیثیت میں ہے کہ واضح کرسکے کہ یہ کون سا گروہ ہے، یہ کس طرح کارروائیاں کرتا ہے اور اس کے ارکان کہاں کہاں ہیں؟

عسکریت پسندوں کی یہ ایک ایسی دھندلی دنیا ہے کہ جہاں تمام گروہ اور ان کے طریقہ کار، ریشم کی دوڑ میں بُنے دھاگوں کی مانند ایک دوسرے میں پیوست ہیں اور ان تمام کے درمیان باقاعدہ تعاون جاری ہے۔ اس تناظر میں، مثال کے طور پر ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ احرار الہند کا تعلق لشکرِ جھنگوی سے ہو اور وہ موخرالذکر کی قومی رسائی استعمال کررہا ہو۔

اگر اس صورت میں یہی بات ہے تو پھر یقیناً ٹی ٹی پی کے پاس ایسی معلومات ہوں گی جو اُس سے الگ ہوجانے والے ایک ایسے نام نہاد گروپ کا خاتمہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں، جو بدستور تشدد پر آمادہ ہے۔

اعلانِ جنگ بندی صرف اُسی صورت میں بامعنیٰ ثابت ہوسکتا ہے جب ٹی ٹی پی بھرپور قوت کے ساتھ یقین دلائے کہ اس کی تشکیل کرنے والے، موجودہ اور سابقہ گروہوں میں وہ کون کون سی تنظیمیں شامل ہیں جو شرائط کی پاسداری کررہی ہیں۔

اگر کوئی گروہ اس کی حدود سے قدم باہر نکال لے لیکن ٹی ٹی پی پھر بھی بڑی آسانی سے دعویٰ کرے کہ وہ مذاکرات پر پُرعزم اور جنگ بندی کی پابند ہے تو بہر طور، یہ صورتِ قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔

جب بھی حکومت کی طرف سے کمزوری دکھائی گئی یہ شیر ہوئے لیکن خود حکومت یہ بھی دیکھ چکی کہ جب جب اس نے سختی دکھائی، عسکریت پسندوں نے فوراً ردِ عمل دیا۔ حکومت کے لیے سب سے اصلی اور زیادہ بنیادی سوال مذاکرات کے ذریعے امن کے قیام پر ہے، بار بار پلٹ کر سامنے آنے والا یہ سوال ہمیشہ کی طرح اب بھی بدستور منتظرِ جواب ہے۔

اگر احرارالہند واقعی ٹی ٹی پی سے الگ ہونے والا ایسا گروہ ہے، جس کے اپنے الگ مقاصد ہیں تو پھر اس کے زور پکڑنے کی اصل وجہ عسکریت پسندوں کو برداشت اور انہیں گنجائش فراہم کرنے کی، طویل عرصے سے جاری ریاستی پالیسی ہے۔

بہت شروع میں، جب ریاست نے پہلے پہل غیر ریاستی عناصر کی پذیرائی اور انہیں اسپانسر کرنے کا سلسلہ شروع کیا، تب ہی دھڑے بندیوں اور ایسے نئے نئے گروہوں تشکیل اور ان کا پھیلاؤ ظاہر ہوگیا تھا جو اپنی سرپرست تنظیم کے مقابلے میں، کہیں زیادہ زہریلی اور تشدد کی طرف زیادہ مائل تھیں۔

اس کے بعد، مسئلہ علیحدہ ہوجانے والے یہ آزاد گروہ نہ تھے بلکہ ریاست کی وہ رضامندی تھی جو ان کے ساتھ بطور ایک جائز شراکت دار کے، سلوک روا کرتی تھی۔ اگر عسکریت پسندی کو پاکستان کے اندر، ریاستی ڈھانچے کے ساتھ بقائے باہمی کی اجازت دی جاتی ہے، تو پھر پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کا مذاکراتی جاپ، مفاہمت کی پالیسی سے بس ذرا سا ہی مختلف ہوگا۔

یہ طریقہ نہ تو ماضی میں کارگر ثابت ہوا نہ ہی آگے کام کرے گا۔

(بشکریہ ڈان اردو)

http://urdu.dawn.com/news/1003284/17mar14-editorial-1
 
Top