محمد اجمل خان
محفلین
احساسِ ذمہ داری
دین سے دوری انسان کے ذہن میں منفی سوچ پیدا کرتی ہے۔ بعض مرد حضرات اپنے بیوی بچوں کو غصے میں کہہ دیتے ہیں:
’’میں نہ کماؤں تو تم سب بھوکے مر جاؤ‘‘۔
یہ منفی سوچ ہے اور اللہ کو ناراض کرنے والی بات ہے۔
سارے جہان کی پرورش کرنے والا اور سب کو رزق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ فرمایا:
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا ۔ ۔ ۔(6) سورة هود
’’زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو‘‘ ۔ ۔ ۔(6) سورة هود
اور یہ بھی فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ﴿٥٨﴾ سورة الذاريات
’’بیشک اﷲ ہی رزق دینے والا ہے، بڑی قوت والا (اور) زبردست ہے‘‘(5 سورة الذاريات
ہم اور آپ تو صرف وسیلہ بنے ہوئے ہیں۔
لہذا مثبت سوچ رکھیں۔
اپنے رب کو چیلنج نہ کریں۔
اور اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔
فرمانِ الٰہی ہے:
لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ﴿٧﴾ سورة الطلاق
’’اور کشادگي والا اپنی کشادگي کے مطابق خرچ کرے اور جس کے رزق میں تنگی ہے وہ اسی میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے کہ اللہ کسی نفس کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے جتنا اسے عطا کیا گیا ہے، عنقر یب اللہ تنگی کے بعد آسانی اور کشادگی پیدا کرے گا‘‘(7)۔ سورۃ الطلاق
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ امیر (حاکم) ہے، مرد اپنے گھر والوں پر حاکم ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے۔ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ (صحيح البخاري: 5200)
جب انسان اپنی ذمہ دارویوں کو سمجھتا ہے تو اسے انجام دینا آسان ہو جاتا ہے۔ اپنی بیوی، بچے اور والدین وغیرہ کی ضروریات پوری کرنا مثلا کھانا ، پینا ، کپڑا و رہائش وغیرہ، یہ سب کچھ آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر آج آپ کی رزق میں تنگی ہے تو مثبت انداز میں اپنی اخراجات کم کرنے کی اور اپنی آمدنی بڑھانے کی سوچئے۔ اگر آپ کسی اور وجہ سے پریشان ہیں تو اس کا حل ڈھونڈھیے۔ منفی سوچ کو ذہن میں لاکر اس کا غصہ اپنے گھروالوں پر نہ نکالیے۔ اور اللہ کی ناشکری اور نافرمانی کرنے سے بچئے۔
جب آپ اپنی ذمہ دارویوں کو سمجھیں گے تو آپ میں مثبت سوچ پیدا ہوگا اور آپ کو منفی سوچ سے نجات ملے گی۔ مثبت سوچ آپ کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے بچائے گا اور آپ کو ایک اچھا انسان بننے میں مدد دے گا۔ نتیجتاً آپ اپنے گھر والوں سے اچھے اخلاق سے پیش آ سکیں گے۔
یاد رکھئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں‘‘۔ (سنن ترمذي، حدیث نمبر: 3895)
اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
”ایمان میں سب سے کامل مومن وہ ہے جو سب سے بہتر اخلاق والا ہو، اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو“۔ (سنن ترمذي، حدیث نمبر: 1162)
لہذا بہترین اخلاق والے انسان بننے کے لیے ہمیں اپنے گھروں میں اچھا برتاؤ کرنا ضروری ہے جو کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا مقرر کردہ ذمہ داریوں کو پوری کرنے سے ہی ممکن ہے۔ جب انسان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہے تو اس میں مثبت سوچ پیدا ہوتی ہے۔ مثبت سوچ سے کام میں لگن اور ذمہ داریوں کو پوری کرنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔
دین سے دوری انسان کے ذہن میں منفی سوچ پیدا کرتی ہے۔ بعض مرد حضرات اپنے بیوی بچوں کو غصے میں کہہ دیتے ہیں:
’’میں نہ کماؤں تو تم سب بھوکے مر جاؤ‘‘۔
یہ منفی سوچ ہے اور اللہ کو ناراض کرنے والی بات ہے۔
سارے جہان کی پرورش کرنے والا اور سب کو رزق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ فرمایا:
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا ۔ ۔ ۔(6) سورة هود
’’زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو‘‘ ۔ ۔ ۔(6) سورة هود
اور یہ بھی فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ﴿٥٨﴾ سورة الذاريات
’’بیشک اﷲ ہی رزق دینے والا ہے، بڑی قوت والا (اور) زبردست ہے‘‘(5 سورة الذاريات
ہم اور آپ تو صرف وسیلہ بنے ہوئے ہیں۔
لہذا مثبت سوچ رکھیں۔
اپنے رب کو چیلنج نہ کریں۔
اور اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔
فرمانِ الٰہی ہے:
لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ﴿٧﴾ سورة الطلاق
’’اور کشادگي والا اپنی کشادگي کے مطابق خرچ کرے اور جس کے رزق میں تنگی ہے وہ اسی میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے کہ اللہ کسی نفس کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے جتنا اسے عطا کیا گیا ہے، عنقر یب اللہ تنگی کے بعد آسانی اور کشادگی پیدا کرے گا‘‘(7)۔ سورۃ الطلاق
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ امیر (حاکم) ہے، مرد اپنے گھر والوں پر حاکم ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے۔ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ (صحيح البخاري: 5200)
جب انسان اپنی ذمہ دارویوں کو سمجھتا ہے تو اسے انجام دینا آسان ہو جاتا ہے۔ اپنی بیوی، بچے اور والدین وغیرہ کی ضروریات پوری کرنا مثلا کھانا ، پینا ، کپڑا و رہائش وغیرہ، یہ سب کچھ آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر آج آپ کی رزق میں تنگی ہے تو مثبت انداز میں اپنی اخراجات کم کرنے کی اور اپنی آمدنی بڑھانے کی سوچئے۔ اگر آپ کسی اور وجہ سے پریشان ہیں تو اس کا حل ڈھونڈھیے۔ منفی سوچ کو ذہن میں لاکر اس کا غصہ اپنے گھروالوں پر نہ نکالیے۔ اور اللہ کی ناشکری اور نافرمانی کرنے سے بچئے۔
جب آپ اپنی ذمہ دارویوں کو سمجھیں گے تو آپ میں مثبت سوچ پیدا ہوگا اور آپ کو منفی سوچ سے نجات ملے گی۔ مثبت سوچ آپ کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے بچائے گا اور آپ کو ایک اچھا انسان بننے میں مدد دے گا۔ نتیجتاً آپ اپنے گھر والوں سے اچھے اخلاق سے پیش آ سکیں گے۔
یاد رکھئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں‘‘۔ (سنن ترمذي، حدیث نمبر: 3895)
اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
”ایمان میں سب سے کامل مومن وہ ہے جو سب سے بہتر اخلاق والا ہو، اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو“۔ (سنن ترمذي، حدیث نمبر: 1162)
لہذا بہترین اخلاق والے انسان بننے کے لیے ہمیں اپنے گھروں میں اچھا برتاؤ کرنا ضروری ہے جو کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا مقرر کردہ ذمہ داریوں کو پوری کرنے سے ہی ممکن ہے۔ جب انسان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہے تو اس میں مثبت سوچ پیدا ہوتی ہے۔ مثبت سوچ سے کام میں لگن اور ذمہ داریوں کو پوری کرنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔
-ٌلہذا اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنے اندر مثبت سوچ پیدا کریں۔ مثبت سوچ سے ہی انسان اچھے اخلاق والا بن سکتا ہے۔
اصول: ذمہ داریوں کو سمجھنا، مثبت سوچ کیلیے ضروری ہے۔