محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
گرمیوں کا ایک دن تھا، سورج سر سے ڈھل چکا تھا۔ اور وہ گلی کے نکڑ پر ایک بجلی کے کھمبے سے اپنی سائیکل ٹیک لگائے پچھلے دو گھنٹے سے کھڑا تھا۔ گلی میں واقع ایک دفتر پر مسلسل آنکھیں ٹکائی ہوئیں تھیں۔ سڑک پر گاڑیاں رکشے رواں دواں تھے جس گلی کی نکڑ پر وہ موجود تھا اس گلی میں بھی لوگ آ جا رہے تھے۔ لوگ آتے اور اس کے پاس سے گزر جاتے مگر وہ تھا کہ ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، جیسے اس کی روح کو وہیں قید کر لیا گیا ہو۔ پسینہ بہہ بہہ کر اس کے کپڑوں میں جذب ہوتا جا رہا تھا۔ اس میں ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ اس دفتر میں جا کر اپنا تعارف پیش کرے اور بتائے کہ مجھے چاچا چراغ دین نے بھیجا ہے۔ کل رات ہی چاچا ان کے گھر آیا تو اس کی اماں نے منتیں کرتے ہوئے کہا کہ بھیا میرے بیٹے کو کسی کام پر لگا دو، سارا سارا دن آوارہ پھرتا رہتا ہے اور ہر ایک سے اکھڑا اکھڑا رہتا ہے، اگر یہ کام کرے گا تو چار پیسے بھی گھر آتے رہیں گے اور شاید اس کا مزاج بھی کچھ بدل جائے۔ وہ احساسِ کمتری کا شکار ایک سترہ اٹھارہ سال کا نوجوان تھا، جسے تعلیم کے مواقع میسر نہ ہوئے، اس کا رنگ سانولا اور کپڑے ایسے بوسیدہ جن کا رنگ بھی انتہائی پھیکا پڑ چکا تھا۔ جب سے اس کے والد نے دوسری شادی کی گویا ان کی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں سے یکسر اتار پھینکا تھا۔ چونکہ ایک ہی گھر میں سب چچا رہتے تھے تو کھانے پینے کا تو کسی طور کام چل جاتا لیکن کپڑوں کا مسئلہ درپیش رہتا، خاندان میں کبھی کسی چاچا زاد یا ماموں زاد کے کپڑے پرانے ہو جاتے تو اسے پہننے کو دے دیئے جاتے۔ اس کی کسی خوبی کو کبھی نہ سراہا جاتا لیکن ہر خامی کو خوب اچھالا جاتا، بچپن سے ہی اس کے ساتھ امتیازی سلوک برتا گیا، بات بے بات اس کے رنگ پر پھبتیاں کسّی جاتیں، کبھی خاندان کے کسی بچے نے شرارت کی تو اسی کا حوالہ دے کر کہا جاتا کہ یہ بھی اسی کی طرح بگڑتا جا رہا ہے۔ اس کی کردار سازی تو کیا ہوتی، اس کے بچپن کو اس بری طرح سے مجروح کیا گیا کہ جب بھی کسی خوش شکل، تعلیم یافتہ جو اردو روانی سے بولتا ہو جس کی گفتگو میں انگریزی کے لفظ نگینے کی طرح جڑتے جاتے ہوں یا کسی مالدار سے سامنا ہوتا تو اس کی محرومیاں اچانک بڑے بڑے اژدھوں کی صورت میں نمودار ہو جاتیں۔ جو اسے اس قدر خوفزدہ کرتیں کہ اس کے پسینے چھوٹ جایا کرتے۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا تھا، جیسے ہی وہ سڑک سے گلی کی طرف مڑا تو اس نے ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس شخص کو اس دفتر میں جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا تو اسی وقت سے وہ وہیں باہر گلی کی نکڑ پر موجود رہا، حتی کہ سورج تیزی سے غروب ہونے لگا اندھیرا بڑھتا چلا جا رہا تھا کہ اچانک وہی پینٹ شرٹ والا آدمی نمودار ہوا۔ لیکن اس مرتبہ ایک اور شخص بھی اس کے ساتھ تھا جس نے دفتر کو تالا لگایا پھر وہ دونوں گلی کی دوسری جانب چل دیئے۔ اس نے بھی اپنی سائیکل لی، اور اپنی روح پر ایک اور ناکامی کا بوجھ لادے واپس اپنے گھر کی طرف چل دیا
آخری تدوین: