احساس۔۔۔ پہلی نظم

برسوں بیتے، جب شورِ سوادئے خد و خال جواں ہوا کرتا تھا، خزاں رسیدہ شب کے کسی پہر میں، ایک خزاں یافتہ باغیچے کے پہلو میں بیٹھے، یہ نظم وارد ہوئی، رخِ قرطاس پر اتری اور طاقِ نسیاں میں چلی گئی۔ آج پرانی فائلز دیکھتے ہاتھ لگی تو سوچا کسی منظرنامے پر لے آؤں، مدح و نقد سے بہتری بھی آ جائے گی اور کسی قابل ہوئی تو احبابِ شعر و سخن کے لئے سامانِ لطف و سرور بھی ہو سکتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:

احساس
شب کی تاریکی میں تنہائی سے محو ِ گفتگو
ایک میں تھا اور اک غفلت تھی میری روبرو

تھی رگ و پے میں رچی بے مقصدی کی بو سی اِک
ریشے ریشے میں بسی تھی غفلتوں کی خو سی اِک

ٹوٹ کر برسے تھے ویرانی کے بادل چار سو
تیرگی کے جال میں الجھے ہوئے تھے رنگ و بو

کہر میں لپٹے ہوئے بوجھل ہواؤں کے وجود
رونقِ گلشن خزاں کے ہاتھ پابندِ قیود

پیڑ تھے سوکھے ہوئے سوکھی ہوئی تھیں ڈالیاں
یاس کی چادر لئے گم تھیں گلوں کی لالیاں

تھی کہیں خلوت نشیں میرے تخیل کی زباں
غلغلۂ آرزو و شوق بھی تھا بے مکاں

دیکھ کر یکسر بیابانی کے یہ جملہ فسوں
رہ نہ پایا دیر تک قانع تکلم سے جنوں

پوچھ بیٹھا ڈال سے ”ہے اس قدر غمناک کیوں؟“
تجھ پے سر تا پا ہے مایوسی کی یہ پوشاک کیوں؟

تیری شوخی تیری مستی کس قدر لاچار ہے
کیوں ترا آنگن قبائے درد سے دوچار ہے؟

کپکپائی تلملائی اور آئی اک صدا
سوز رگ رگ میں تھا جس کی بے پناہ اور درد تھا

مجھ سے کہتی تھی کہ ’’انساں! میں یقیناً ڈال ہوں
مانتی ہوں دل نہیں رکھتی دگرگوں حال ہوں

ہے مری پرواز تجھ سے کم مجھے احساس ہے
ہر گھڑی مجھ کو تو میری پستیوں کا پاس ہے

پر مجھے احساس ہے پر غم سماں کا آج بھی
غم ہے مجھ کو باغ کے اجڑے جہاں کا آج بھی

یاد کر کے رو رہی ہوں نکہتیں پھلوار کی
غم زدہ ہوں سوچ کر ویرانیاں گلزار کی

ہوں مگر غفلت کو تیری دیکھ کر حیراں بہت
میری طرح تیر ا گلشن بھی تو ہے ویراں بہت‘‘
جیون

اسی سنہرے دور کی ایک جھلک ’’جیون‘‘ تخلص میں نہاں بھی ہے اور عیاں بھی ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
لسلام علیکم بھائی عدیل!
آپ کی نظم اور اس کا مرکزی خیال دونوں ہی مجھے پسند آئے - داد حاضر خدمت

کچھ مقامات کی نشاندہی کرنا چاہوں گا متبادل تجاویز کے ساتھ -پسند آئیں تو رکھ لیں ورنہ دیگر صورتیں آپ خود سوچ لیں :


شب کی تاریکی میں تنہائی سے محو ِ گفتگو
ایک میں تھا اور اک غفلت تھی میری روبرو

تھی رگ و پے میں رچی بے مقصدی کی بو سی اِک
ریشے ریشے میں بسی تھی غفلتوں کی خو سی اِک

واہ
--------
ٹوٹ کر برسے تھے ویرانی کے بادل چار سو
تیرگی کے جال میں الجھے ہوئے تھے رنگ و بو

دوسرے مصرعے کے پہلے سے ربط قائم کرنے کے لیے یہ صورت دیکھیں :
ٹوٹ کر برسے تھے ویرانی کے بادل چار سو
کس قدر بے لطف تھی کل کائناتِ رنگ و بو


کہر میں لپٹے ہوئے بوجھل ہواؤں کے وجود
رونقِ گلشن خزاں کے ہاتھ پابندِ قیود

پیڑ تھے سوکھے ہوئے سوکھی ہوئی تھیں ڈالیاں
یاس کی چادر لئے گم تھیں گلوں کی لالیاں

سوکھے کی تکرار سے بچنے کے لیے یوں بھی ایک شکل ہے :
پیڑ تھے سب خشک اور سوکھی ..........

تھی کہیں خلوت نشیں میرے تخیل کی زباں
غلغلۂ آرزو و شوق بھی تھا بے مکاں

<غلغلۂ آرزو و شوق>یہاں وزن غلط ہو گیا -
یوں ایک صورت ہے :
تھی کہیں خلوت نشیں میرے تخیل کی زباں
وارداتِ قلب کا ملتا نہ تھا نام و نشاں

---------
دیکھ کر یکسر بیابانی کے یہ جملہ فسوں
رہ نہ پایا دیر تک قانع تکلم سے جنوں

دیکھ کر یکسر بیابانی کے یہ جملہ فسوں
رہ نہ پایا دیر تک قانع خموشی پر جنوں
--------------

پوچھ بیٹھا ڈال سے ”ہے اس قدر غمناک کیوں؟“
تجھ پے سر تا پا ہے مایوسی کی یہ پوشاک کیوں؟
پے =پہ
تیری شوخی تیری مستی کس قدر لاچار ہے
کیوں ترا آنگن قبائے درد سے دوچار ہے؟

یہ شعر نہیں جچا -ڈال کا آنگن اور پھر اس کا قبائے درد سے دوچار ہونا -(n)


اس طرز کے مصرع پہ فکر کر کے شعر مکمّل کیا جا سکتا ہے :
تیری ساری شوخیاں سرمستیاں وہ کیا ہوئیں

کپکپائی تلملائی اور آئی اک صدا
سوز رگ رگ میں تھا جس کی بے پناہ اور درد تھا
پہلا مصرع کمزور لگا -دوسرے میں <اور>کی جگہ <اک > کر دیں -

مجھ سے کہتی تھی کہ ’’انساں! میں یقیناً ڈال ہوں
مانتی ہوں دل نہیں رکھتی دگرگوں حال ہوں

ہے مری پرواز تجھ سے کم مجھے احساس ہے
ہر گھڑی مجھ کو تو میری پستیوں کا پاس ہے

<پرواز >کا ذکر نہ کریں تو بہتر -


پر مجھے احساس ہے پر غم سماں کا آج بھی
غم ہے مجھ کو باغ کے اجڑے جہاں کا آج بھی

یاد کر کے رو رہی ہوں نکہتیں پھلوار کی
غم زدہ ہوں سوچ کر ویرانیاں گلزار کی

ہوں مگر غفلت کو تیری دیکھ کر حیراں بہت
میری طرح تیر ا گلشن بھی تو ہے ویراں بہت‘‘

<میری طرح> سے وزن بگڑ رہا ہے -<میری صورت > کر دیں -

آپ کی نظم کے مرکزی خیال پر دو اشعار یا د آ گئے -

ایک تو اقبال کا ہے :

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اور دوسرا عنایت علی خان صاحب کا :

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

آپ میں ما شاء الله صلاحیت شاعری کی موجود ہے اور آپ کے لکھے میں مقصدیت بھی ہے لہٰذا لکھتے رہیے -اللہ کرے تاثیر قلم اور زیادہ -
 
لسلام علیکم بھائی عدیل!
آپ کی نظم اور اس کا مرکزی خیال دونوں ہی مجھے پسند آئے - داد حاضر خدمت

کچھ مقامات کی نشاندہی کرنا چاہوں گا متبادل تجاویز کے ساتھ -پسند آئیں تو رکھ لیں ورنہ دیگر صورتیں آپ خود سوچ لیں :


شب کی تاریکی میں تنہائی سے محو ِ گفتگو
ایک میں تھا اور اک غفلت تھی میری روبرو

تھی رگ و پے میں رچی بے مقصدی کی بو سی اِک
ریشے ریشے میں بسی تھی غفلتوں کی خو سی اِک

واہ
--------
ٹوٹ کر برسے تھے ویرانی کے بادل چار سو
تیرگی کے جال میں الجھے ہوئے تھے رنگ و بو

دوسرے مصرعے کے پہلے سے ربط قائم کرنے کے لیے یہ صورت دیکھیں :
ٹوٹ کر برسے تھے ویرانی کے بادل چار سو
کس قدر بے لطف تھی کل کائناتِ رنگ و بو


کہر میں لپٹے ہوئے بوجھل ہواؤں کے وجود
رونقِ گلشن خزاں کے ہاتھ پابندِ قیود

پیڑ تھے سوکھے ہوئے سوکھی ہوئی تھیں ڈالیاں
یاس کی چادر لئے گم تھیں گلوں کی لالیاں

سوکھے کی تکرار سے بچنے کے لیے یوں بھی ایک شکل ہے :
پیڑ تھے سب خشک اور سوکھی ..........

تھی کہیں خلوت نشیں میرے تخیل کی زباں
غلغلۂ آرزو و شوق بھی تھا بے مکاں

<غلغلۂ آرزو و شوق>یہاں وزن غلط ہو گیا -
یوں ایک صورت ہے :
تھی کہیں خلوت نشیں میرے تخیل کی زباں
وارداتِ قلب کا ملتا نہ تھا نام و نشاں

---------
دیکھ کر یکسر بیابانی کے یہ جملہ فسوں
رہ نہ پایا دیر تک قانع تکلم سے جنوں

دیکھ کر یکسر بیابانی کے یہ جملہ فسوں
رہ نہ پایا دیر تک قانع خموشی پر جنوں
--------------

پوچھ بیٹھا ڈال سے ”ہے اس قدر غمناک کیوں؟“
تجھ پے سر تا پا ہے مایوسی کی یہ پوشاک کیوں؟
پے =پہ
تیری شوخی تیری مستی کس قدر لاچار ہے
کیوں ترا آنگن قبائے درد سے دوچار ہے؟

یہ شعر نہیں جچا -ڈال کا آنگن اور پھر اس کا قبائے درد سے دوچار ہونا -(n)


اس طرز کے مصرع پہ فکر کر کے شعر مکمّل کیا جا سکتا ہے :
تیری ساری شوخیاں سرمستیاں وہ کیا ہوئیں

کپکپائی تلملائی اور آئی اک صدا
سوز رگ رگ میں تھا جس کی بے پناہ اور درد تھا
پہلا مصرع کمزور لگا -دوسرے میں <اور>کی جگہ <اک > کر دیں -

مجھ سے کہتی تھی کہ ’’انساں! میں یقیناً ڈال ہوں
مانتی ہوں دل نہیں رکھتی دگرگوں حال ہوں

ہے مری پرواز تجھ سے کم مجھے احساس ہے
ہر گھڑی مجھ کو تو میری پستیوں کا پاس ہے

<پرواز >کا ذکر نہ کریں تو بہتر -


پر مجھے احساس ہے پر غم سماں کا آج بھی
غم ہے مجھ کو باغ کے اجڑے جہاں کا آج بھی

یاد کر کے رو رہی ہوں نکہتیں پھلوار کی
غم زدہ ہوں سوچ کر ویرانیاں گلزار کی

ہوں مگر غفلت کو تیری دیکھ کر حیراں بہت
میری طرح تیر ا گلشن بھی تو ہے ویراں بہت‘‘

<میری طرح> سے وزن بگڑ رہا ہے -<میری صورت > کر دیں -

آپ کی نظم کے مرکزی خیال پر دو اشعار یا د آ گئے -

ایک تو اقبال کا ہے :

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اور دوسرا عنایت علی خان صاحب کا :

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

آپ میں ما شاء الله صلاحیت شاعری کی موجود ہے اور آپ کے لکھے میں مقصدیت بھی ہے لہٰذا لکھتے رہیے -اللہ کرے تاثیر قلم اور زیادہ -

وعلیکم السلام یاسر بھائی!
حوصلہ افزائی اور اصلاحی تجاویز کے لئے متشکر و ممنون ہوں۔
آپ کی پوسٹ دیکھی اور سوچا کہ آپ سے مزید استفادہ کے لئے تفصیلی بات چیت کروں گا، مگر مصروفیات کا شکنجہ ڈھیل دینے پر آمادہ دکھائی نہیں دے رہا۔ اس لئے فی الحال اس مختصر جواب اور اظہارِ تشکر کو قبول فرمائیں، ان شاء اللہ جیسے ہی فرصت ملتی ہے آپ کی تجاویز پر تسلّی سے غوروفکر کر کے نظم کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھی کاوش ہے عدیل عبالباسط صاحب! یاسر بھائی کی باتون پر دھیان دیں ۔ استفادہ کریں ۔ ایک نکتہ کی بات میں عرض کردیتا ہوں اور وہ یہ کہ شعر میں سب سے پہلے زبان کا درست اور فصیح ہونا ضروری ہے ۔ اور زبان میں بھی سب سے پہلے بنیادی چیز یعنی گرامر پر نظر جاتی ہے ۔ زبان و بیان کی صحت ٹھیک ہو تو پھر بات نفسِ مضمون پر آتی ہے ۔ ان دو مصرعوں پر نگاہ ٹھٹک گئی ۔

غلغلۂ آرزو و شوق بھی تھا بے مکاں : یہاں تھا کہ بجائے تھے ہونا چاہئے ۔

ہر گھڑی مجھ کو تو میری پستیوں کا پاس ہے : یہاں میری پستیاں نہیں بلکہ اپنی پستیاں درست ہوگا ۔
 
اچھی کاوش ہے عدیل عبدالباسط صاحب!
نظرِ عنایت کا بے حد شکریہ!
غلغلۂ آرزو و شوق بھی تھا بے مکاں : یہاں تھا کہ بجائے تھے ہونا چاہئے ۔

’’تھا‘‘ کا مرجع میرے نزدیک ’’غلغلہ‘‘ تھا، اگر اس کا مرجع ’’آرزو و شوق‘‘ کو قرار دیں تو پھر یقینا ’’تھے‘‘ ہونا چاہئے۔ مزید غور فرما لیجئے، نظرِ ثانی شدہ رائے کا منتظر رہوں گا۔ :)
ہر گھڑی مجھ کو تو میری پستیوں کا پاس ہے : یہاں میری پستیاں نہیں بلکہ اپنی پستیاں درست ہوگا ۔
جی بالکل! تھوڑا سا غور کرنے سے آپ کی بات سمجھ میں آرہی ہے۔ شکریہ، نوازش!
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
’’تھا‘‘ کا مرجع میرے نزدیک ’’غلغلہ‘‘ تھا، اگر اس کا مرجع ’’آرزو و شوق‘‘ کو قرار دیں تو پھر یقینا ’’تھے‘‘ ہونا چاہئے۔ مزید غور فرما لیجئے، نظرِ ثانی شدہ رائے کا منتظر رہوں گا۔ :)
بھائی ،اس میں تعقید آگئی ہے ۔ آپ نے آرزو و شوق کو غلغلہ کا مضاف الیہ لکھا ہے لیکن میں یہاں واؤ کو غلغلہءآرزو اور شوق یعنی دو مختلف اسماء کے درمیان بطور واؤ عطف پڑھ رہا ہوں ۔ چونکہ آرزو و شوق مانوس ترکیب نہیں بلکہ غریب ہے اس لئے پہلا خیال اسی طرف جاتا ہے ۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ غلغلہ ہائے آرزو و شوق لکھتے لیکن غلغلہ اپنی واحد صورت میں بھی درست ہے ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
بھائی ،اس میں تعقید آگئی ہے ۔ آپ نے آرزو و شوق کو غلغلہ کا مضاف الیہ لکھا ہے لیکن میں یہاں واؤ کو غلغلہءآرزو اور شوق یعنی دو مختلف اسماء کے درمیان بطور واؤ عطف پڑھ رہا ہوں ۔ چونکہ آرزو و شوق مانوس ترکیب نہیں بلکہ غریب ہے اس لئے پہلا خیال اسی طرف جاتا ہے ۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ غلغلہ ہائے آرزو و شوق لکھتے لیکن غلغلہ اپنی واحد صورت میں بھی درست ہے ۔

ظہیر بھائی میرے خیال سے غلغلہ آرزو و شوق میں اصولی غلطی وزن کی ہے -آپ نے فروعی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے تو خیال ہوتا ہے کہ آپ کو اس ترکیب کا وزن درست لگ رہا ہے -میری رہنمائی فرمائیے گا کہ کیا اس بحر کے لحاظ سے اس ترکیب کا وزن درست ہے کہ نہیں؟ -

باقی جو فروعی نکتہ اٹھایا گیا ہے اس کے لیے ایک شعر پیش خدمت ہے :

تجھ کو پرکھتا ہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلۂ روز و شب صیرفی کائنات

اقبال :از مسجد قرطبہ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی میرے خیال سے غلغلہ آرزو و شوق میں اصولی غلطی وزن کی ہے -آپ نے فروعی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے تو خیال ہوتا ہے کہ آپ کو اس ترکیب کا وزن درست لگ رہا ہے -میری رہنمائی فرمائیے گا کہ کیا اس بحر کے لحاظ سے اس ترکیب کا وزن درست ہے کہ نہیں؟ -

باقی جو فروعی نکتہ اٹھایا گیا ہے اس کے لیے ایک شعر پیش خدمت ہے :

تجھ کو پرکھتا ہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلۂ روز و شب صیرفی کائنات

اقبال :از مسجد قرطبہ
یاسر بھائی ، وزن تو ظاہر ہے کہ درست نہیں ۔ اور وزن کے مسئلے پر تو آپ نے پہلے ہی بات کر لی تھی اور میں نے عدیل سے کہا تھا کہ آپ کی باتوں پر غور کریں اور استفادہ کریں ۔ میں نے تو صرف ایک اضافی نکتہ یہ بتایا تھا کہ شاعری کے لئے پہلی اور بنیادی چیز زبان و بیان کا گرامر کی اغلاط سے پاک ہونا ہے کیونکہ سننے والے یا پڑھنے والے کا ذہن سب سے پہلے ایسی ہی غلطی پر چونکتا ہے ۔ معنی کی طرف دھیان تو بعد میں جاتا ہے ۔

دوسری بات یہ کہ اس فروعی نکتے پر آپ میری بات کو سمجھے ہی نہیں ۔ میں نے غلغلہ کے لئے واحد اور جمع کی بات تو نہیں کی تھی ۔غلغلہ تو واحد ہی ہے اور اس کے لئے "تھا" ہی استعمال ہوگا ۔ عدیل کی وضاحت کے بعد میں نے لکھ تو دیا ہے کہ مصرع میں تعقید ہے ۔ یعنی عدیل نے کچھ اور لکھا اور میں اسے کچھ اور پڑھ رہا ہوں ۔ انہوں نے تو اضافی ترکیب "غلغلہء آرزو و شوق" لکھی لیکن میں اسے واؤ عطف کے ساتھ دو مختلف الفاظ پڑھ گیا یعنی غلغلہء آرزو - اور - شوق ۔ سو اسی لئے کہا کہ یہاں تھا کے بجائے تھے ہونا چاہئے ۔

یہ دیکھے میں اپنی بات دوبارہ یہاں نقل کرتا ہوں ::):):)

بھائی ،اس میں تعقید آگئی ہے ۔ آپ نے آرزو و شوق کو غلغلہ کا مضاف الیہ لکھا ہے لیکن میں یہاں واؤ کو غلغلہءآرزو اور شوق یعنی دو مختلف اسماء کے درمیان بطور واؤ عطف پڑھ رہا ہوں ۔ چونکہ آرزو و شوق مانوس ترکیب نہیں بلکہ غریب ہے اس لئے پہلا خیال اسی طرف جاتا ہے ۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ غلغلہ ہائے آرزو و شوق لکھتے لیکن غلغلہ اپنی واحد صورت میں بھی درست ہے ۔
 
Top