عدیل عبد الباسط
محفلین
برسوں بیتے، جب شورِ سوادئے خد و خال جواں ہوا کرتا تھا، خزاں رسیدہ شب کے کسی پہر میں، ایک خزاں یافتہ باغیچے کے پہلو میں بیٹھے، یہ نظم وارد ہوئی، رخِ قرطاس پر اتری اور طاقِ نسیاں میں چلی گئی۔ آج پرانی فائلز دیکھتے ہاتھ لگی تو سوچا کسی منظرنامے پر لے آؤں، مدح و نقد سے بہتری بھی آ جائے گی اور کسی قابل ہوئی تو احبابِ شعر و سخن کے لئے سامانِ لطف و سرور بھی ہو سکتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
احساس
شب کی تاریکی میں تنہائی سے محو ِ گفتگو
ایک میں تھا اور اک غفلت تھی میری روبرو
تھی رگ و پے میں رچی بے مقصدی کی بو سی اِک
ریشے ریشے میں بسی تھی غفلتوں کی خو سی اِک
ٹوٹ کر برسے تھے ویرانی کے بادل چار سو
تیرگی کے جال میں الجھے ہوئے تھے رنگ و بو
کہر میں لپٹے ہوئے بوجھل ہواؤں کے وجود
رونقِ گلشن خزاں کے ہاتھ پابندِ قیود
پیڑ تھے سوکھے ہوئے سوکھی ہوئی تھیں ڈالیاں
یاس کی چادر لئے گم تھیں گلوں کی لالیاں
تھی کہیں خلوت نشیں میرے تخیل کی زباں
غلغلۂ آرزو و شوق بھی تھا بے مکاں
دیکھ کر یکسر بیابانی کے یہ جملہ فسوں
رہ نہ پایا دیر تک قانع تکلم سے جنوں
پوچھ بیٹھا ڈال سے ”ہے اس قدر غمناک کیوں؟“
تجھ پے سر تا پا ہے مایوسی کی یہ پوشاک کیوں؟
تیری شوخی تیری مستی کس قدر لاچار ہے
کیوں ترا آنگن قبائے درد سے دوچار ہے؟
کپکپائی تلملائی اور آئی اک صدا
سوز رگ رگ میں تھا جس کی بے پناہ اور درد تھا
مجھ سے کہتی تھی کہ ’’انساں! میں یقیناً ڈال ہوں
مانتی ہوں دل نہیں رکھتی دگرگوں حال ہوں
ہے مری پرواز تجھ سے کم مجھے احساس ہے
ہر گھڑی مجھ کو تو میری پستیوں کا پاس ہے
پر مجھے احساس ہے پر غم سماں کا آج بھی
غم ہے مجھ کو باغ کے اجڑے جہاں کا آج بھی
یاد کر کے رو رہی ہوں نکہتیں پھلوار کی
غم زدہ ہوں سوچ کر ویرانیاں گلزار کی
ہوں مگر غفلت کو تیری دیکھ کر حیراں بہت
میری طرح تیر ا گلشن بھی تو ہے ویراں بہت‘‘
جیون
اسی سنہرے دور کی ایک جھلک ’’جیون‘‘ تخلص میں نہاں بھی ہے اور عیاں بھی ہے۔
احساس
شب کی تاریکی میں تنہائی سے محو ِ گفتگو
ایک میں تھا اور اک غفلت تھی میری روبرو
تھی رگ و پے میں رچی بے مقصدی کی بو سی اِک
ریشے ریشے میں بسی تھی غفلتوں کی خو سی اِک
ٹوٹ کر برسے تھے ویرانی کے بادل چار سو
تیرگی کے جال میں الجھے ہوئے تھے رنگ و بو
کہر میں لپٹے ہوئے بوجھل ہواؤں کے وجود
رونقِ گلشن خزاں کے ہاتھ پابندِ قیود
پیڑ تھے سوکھے ہوئے سوکھی ہوئی تھیں ڈالیاں
یاس کی چادر لئے گم تھیں گلوں کی لالیاں
تھی کہیں خلوت نشیں میرے تخیل کی زباں
غلغلۂ آرزو و شوق بھی تھا بے مکاں
دیکھ کر یکسر بیابانی کے یہ جملہ فسوں
رہ نہ پایا دیر تک قانع تکلم سے جنوں
پوچھ بیٹھا ڈال سے ”ہے اس قدر غمناک کیوں؟“
تجھ پے سر تا پا ہے مایوسی کی یہ پوشاک کیوں؟
تیری شوخی تیری مستی کس قدر لاچار ہے
کیوں ترا آنگن قبائے درد سے دوچار ہے؟
کپکپائی تلملائی اور آئی اک صدا
سوز رگ رگ میں تھا جس کی بے پناہ اور درد تھا
مجھ سے کہتی تھی کہ ’’انساں! میں یقیناً ڈال ہوں
مانتی ہوں دل نہیں رکھتی دگرگوں حال ہوں
ہے مری پرواز تجھ سے کم مجھے احساس ہے
ہر گھڑی مجھ کو تو میری پستیوں کا پاس ہے
پر مجھے احساس ہے پر غم سماں کا آج بھی
غم ہے مجھ کو باغ کے اجڑے جہاں کا آج بھی
یاد کر کے رو رہی ہوں نکہتیں پھلوار کی
غم زدہ ہوں سوچ کر ویرانیاں گلزار کی
ہوں مگر غفلت کو تیری دیکھ کر حیراں بہت
میری طرح تیر ا گلشن بھی تو ہے ویراں بہت‘‘
جیون
اسی سنہرے دور کی ایک جھلک ’’جیون‘‘ تخلص میں نہاں بھی ہے اور عیاں بھی ہے۔