احمد ندیم قاسمی احساس میں پھول کھل رہے ہیں

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
احساس میں پھول کھِل رہے ہیں
پت جھڑ کے عجیب سِلسلے ہیں

کچھ اتنی شدید تِیرگی ہے
آنکھوں میں سِتارے تَیرتے ہیں

دیکھیں تو ہوا جمی ہوئی ہے
سوچیں تو درخت جھومتے ہیں

سُقراط نے زہر پی لیا تھا
ہم نے جینے کے دُکھ سہے ہیں

ہم تجھ سے بِگڑ کے جب بھی اُٹھّے
پھر تیرے حضور آ گئے ہیں

ہم عکس ہیں ایک دوسرے کا
چہرے یہ نہیں ہیں آئنے ہیں

لمحوں کا غُبار چھا رہا ہے
یادوں کے چِراغ جَل رہے ہیں

سورج نے گھنے صنوبروں میں
جالے سے شعاعوں کے بُنے ہیں

یکساں ہیں فِراق و وصل دونوں
یہ مرحلے ایک سے کَڑے ہیں

پا کر بھی تو نیند اُڑ گئی تھی
کھو کر بھی تو رَت جگے ملے ہیں

جو دن تری یاد میں کَٹے تھے
ماضی کے کھنڈر بنے کھڑے ہیں

جب تیرا جمال ڈھونڈتے تھے
اب تیرا خیال ڈھونڈتے ہیں

ہم دل کے گُداز سے ہیں مجبور
جب خوش بھی ہوئے تو روئے ہیں

ہم زِندہ ہیں اے فِراق کی رات
پیاری ترے بال کیوں کھُلے ہیں​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top