نیلم
محفلین
جنوری 2007 کے اوائل کی ایک ٹھٹھرتی صبح کو واشنگٹن ڈی سی کے ایک میٹرو ٹرین اسٹیشن پر، ایک آدمی نے ڈبے سے اپنا وائلن نکال کر مشہور زمانہ موسیقار بیتھوون کے ترتیب دیئے ہوئے موسیقی کے کچھ ٹکڑے بجانا شروع کیئے۔ اس آدمی کو وہاں وائلن بجاتے بجاتے پنتالیس منٹ گزر گئے، اس دوران میں ہزاروں لوگوں کا ادھر سے گزر ہوا۔ پھر کوئی تین منٹ کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ کہ ایک پچاس سالہ ادھیڑ عمر شخص نے اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے پہلے اپنی چلنے کی رفتار آہستہ کی اور پھر محض چند لمحوں کیلئے رک کر اسے دیکھا ور اس کا وائلن بجتا سنا، اور پھر اپنی راہ لے کر چلتا بنا۔
پھر ایک منٹ کے بعد اس کے وائلن کے ڈبے میں ایک بڑھیا نے پہلا ڈالر پھینکا مگر رکے بغیر اپنی راہ لیئے چلتی رہی۔ اس کے چند منٹ بعد ایک آدمی اس وائلن بجانے والے شخص کے ساتھ دیوار پر ٹیک لگا کر اسے سنتا اور دیکھتا رہا مگر اچانک ہی کچھ یاد آیا تو گھڑی دیکھی اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے دوبارہ چلدیا، ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا یہ چند لمحات ٹھہرنا بھی اس کے کام میں تاخیر کا سبب بن سکتا تھا۔
اس دوران جس ذی روح نے اس شخص پر سب سے زیادہ اپنی توجہ مرکوز کی تھی وہ ایک تین سالہ معصوم بچہ تھا جو اپنی ماں کی انگلی تھامے چل رہا تھا۔ سامنے سے گزر جانے کے باوجود بھی وہ دور جاتے ہوئے مڑ مڑ کر اس شخص کو وائلن بجاتے دیکھتا رہا اور چلتا رہا۔ یہ بچہ اکیلا نہیں تھا جس نے اس وائلن نواز کو اتنی توجہ اور دلچسپی سے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھا تھا اور بھی کئی ایک چھوٹے بچوں نے ایسا کیا تھا اور والدین اپنے بچوں کو ذرا ٹھہرنے کی ضد کرنے کے باوجود بھی انہیں مجبور کر کے اپنی راہ چلتے رہے۔
اسی طرح پنتالیس منٹ اور بھی گزرے، اب تک صرف چھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے اس شخص کو کچھ دیر کیلئے رک کر سنا یا دیکھا تھا۔ تقریبا بیس لوگوں نے اس کے سامنے پیسے ڈالے تھے اور پھر اپنی اپنی زندگی کی مصروفیات کے ہاتھوں مجبور ہو کر چلتے بنے تھے۔ اب تک اس آدمی کے پاس بتیس ڈالر اکٹھے ہوئے تھے جب اس نے وائلن بجانا بند کر کے واپس اسے ڈبے میں ڈالا۔ نا کسی نے اس آدمی کا شکریہ ادا کیا اور نا ہی کسی نے اس کیلئے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔ اس وائلن نواز کے سامنے سے گزرنے والا کوئی شخص بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ آدمی دنیا کا سب سے اچھا اور سب سے مشہور موسیقار جوشوا بیل ہے۔ اور یہ موسیقار کسی عام سے نہیں بلکہ ایک تاریخی وائلن سے جس کی قیمت پینتیس لاکھ ڈالر تھی پر ایک مشکل ترین سر بجا کر ان لوگوں کو سنا رہا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ صرف دو دن پہلے اسی موسیقار نے واشنگٹن ڈی سی میں ہی اپنا ایک شو کیا تھا جس میں داخلہ ٹکٹ کی قیمت ایک سو ڈالر تھی اور شائقین کیلئے ٹکٹ تھوڑے پڑ گئے تھے۔
جوشوا بیل نے میٹرو اسٹیشن پر بھیس بدل کر وائلن بجانے کا یہ تجربہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کہنے پر کیا تھا جس کے ذریعے سے وہ لوگوں کے ذوق اور پسند، لوگوں کی ترجیحات اور لوگوں کے معاشرتی احساسات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔
سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ اگر لوگوں کے پاس فن کی تاریخ کے سب سے قیمتی فن پارے سے بجائے جانے والے موسیقی کے عظیم مقطع کو سننے کا وقت نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ ان سےکئی ایسی چیزیں چوک جاتی ہونگی جن کو دیکھنے، سننے یا محسوس کرنے کی حسرت لئے لوگ کوچ کر جاتے ہونگے؟
دیکھئے زندگی کے جھمیلے، بھاگ ڈور، رش اور مصروفیات اپنی جگہ، مگر ایسا بھی کیا کہ ہم زندگی کے حسن کو دیکھنے اور اس کی رعنائیوں سے محظوظ ہونے کیلئے بھی وقت نا نکال پائیں؟ کیا ہمارے اندر ایسا کوئی شعور اور احساس ہے کہ کسی غیر متوقع جگہ پر ملنے یا پائے جانے والے ہنر مند کو پہچان سکیں؟ کہیں ہماری حسیات مرتی تو نہیں جا رہیں کہ اب ہمیں خوبصورت اور بد صورت کا ادراک اپنے آپ نہیں ہو پاتا؟ اب ایسا بھی کیا کہ مال خرچ کریں تو ہمیں چیز کے اچھے برے ہونے کا احساس ہو ورنہ نہیں!
مصنف : محمّد سلیم
پھر ایک منٹ کے بعد اس کے وائلن کے ڈبے میں ایک بڑھیا نے پہلا ڈالر پھینکا مگر رکے بغیر اپنی راہ لیئے چلتی رہی۔ اس کے چند منٹ بعد ایک آدمی اس وائلن بجانے والے شخص کے ساتھ دیوار پر ٹیک لگا کر اسے سنتا اور دیکھتا رہا مگر اچانک ہی کچھ یاد آیا تو گھڑی دیکھی اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے دوبارہ چلدیا، ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا یہ چند لمحات ٹھہرنا بھی اس کے کام میں تاخیر کا سبب بن سکتا تھا۔
اس دوران جس ذی روح نے اس شخص پر سب سے زیادہ اپنی توجہ مرکوز کی تھی وہ ایک تین سالہ معصوم بچہ تھا جو اپنی ماں کی انگلی تھامے چل رہا تھا۔ سامنے سے گزر جانے کے باوجود بھی وہ دور جاتے ہوئے مڑ مڑ کر اس شخص کو وائلن بجاتے دیکھتا رہا اور چلتا رہا۔ یہ بچہ اکیلا نہیں تھا جس نے اس وائلن نواز کو اتنی توجہ اور دلچسپی سے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھا تھا اور بھی کئی ایک چھوٹے بچوں نے ایسا کیا تھا اور والدین اپنے بچوں کو ذرا ٹھہرنے کی ضد کرنے کے باوجود بھی انہیں مجبور کر کے اپنی راہ چلتے رہے۔
اسی طرح پنتالیس منٹ اور بھی گزرے، اب تک صرف چھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے اس شخص کو کچھ دیر کیلئے رک کر سنا یا دیکھا تھا۔ تقریبا بیس لوگوں نے اس کے سامنے پیسے ڈالے تھے اور پھر اپنی اپنی زندگی کی مصروفیات کے ہاتھوں مجبور ہو کر چلتے بنے تھے۔ اب تک اس آدمی کے پاس بتیس ڈالر اکٹھے ہوئے تھے جب اس نے وائلن بجانا بند کر کے واپس اسے ڈبے میں ڈالا۔ نا کسی نے اس آدمی کا شکریہ ادا کیا اور نا ہی کسی نے اس کیلئے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔ اس وائلن نواز کے سامنے سے گزرنے والا کوئی شخص بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ آدمی دنیا کا سب سے اچھا اور سب سے مشہور موسیقار جوشوا بیل ہے۔ اور یہ موسیقار کسی عام سے نہیں بلکہ ایک تاریخی وائلن سے جس کی قیمت پینتیس لاکھ ڈالر تھی پر ایک مشکل ترین سر بجا کر ان لوگوں کو سنا رہا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ صرف دو دن پہلے اسی موسیقار نے واشنگٹن ڈی سی میں ہی اپنا ایک شو کیا تھا جس میں داخلہ ٹکٹ کی قیمت ایک سو ڈالر تھی اور شائقین کیلئے ٹکٹ تھوڑے پڑ گئے تھے۔
جوشوا بیل نے میٹرو اسٹیشن پر بھیس بدل کر وائلن بجانے کا یہ تجربہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کہنے پر کیا تھا جس کے ذریعے سے وہ لوگوں کے ذوق اور پسند، لوگوں کی ترجیحات اور لوگوں کے معاشرتی احساسات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔
سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ اگر لوگوں کے پاس فن کی تاریخ کے سب سے قیمتی فن پارے سے بجائے جانے والے موسیقی کے عظیم مقطع کو سننے کا وقت نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ ان سےکئی ایسی چیزیں چوک جاتی ہونگی جن کو دیکھنے، سننے یا محسوس کرنے کی حسرت لئے لوگ کوچ کر جاتے ہونگے؟
دیکھئے زندگی کے جھمیلے، بھاگ ڈور، رش اور مصروفیات اپنی جگہ، مگر ایسا بھی کیا کہ ہم زندگی کے حسن کو دیکھنے اور اس کی رعنائیوں سے محظوظ ہونے کیلئے بھی وقت نا نکال پائیں؟ کیا ہمارے اندر ایسا کوئی شعور اور احساس ہے کہ کسی غیر متوقع جگہ پر ملنے یا پائے جانے والے ہنر مند کو پہچان سکیں؟ کہیں ہماری حسیات مرتی تو نہیں جا رہیں کہ اب ہمیں خوبصورت اور بد صورت کا ادراک اپنے آپ نہیں ہو پاتا؟ اب ایسا بھی کیا کہ مال خرچ کریں تو ہمیں چیز کے اچھے برے ہونے کا احساس ہو ورنہ نہیں!
مصنف : محمّد سلیم