نوید ناظم
محفلین
انسان کے پیدا ہونے کا دن وہ ہے جس دن اس کے اندر احساس پیدا ہوتا ہے۔ احساس سے محرومی دنیا کی سب سے بڑی محرومیوں میں سے ایک ہے۔ وہ منظر جنھیں ظاہری آنکھ نہ دیکھ سکے انھیں صرف احساس کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ زندگی کی اساس اصل میں احساس پر قائم ہے۔ بے حسی، انسان اور انسانیت' دونوں کی دشمن ہے۔ بے حس انسان دولت کو زندگی سمجھتا ہے اور زندگی کی دولت اس کے ہاتھ نہیں آتی۔ ہم اگر اپنے ہی دین کو دیکھیں تو اسلام بھی انسان کی زندگی میں جو بہت بڑا کام کرتا ہے وہ یہ کہ اسلام انسان میں احساس کو بیدار کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں' یہاں تک کہ اگر ایک مسلمان تکلیف میں ہو تو دوسرے مسلمان کا بے چین ہو جانا اسلام کا تقاضا ہے۔ مگر آج ہمارے پاس سب کچھ ہے مگر آج ہمارے پاس احساس نہیں ہے۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش میں ہم ایک دوسرے کو روند کر آگے نکلنے کی کوشش میں ہیں۔ گھر سے باہر قدم رکھتے ہی لگتا ہے کہ ہر کوئی اکھاڑے میں کود پڑا ہے۔ رستے میں جب کوئی بند اشارا کھلتا ہے تو لگتا ہے کہ جیسے پیچھے والی گاڑی' آگے والی گاڑی کو کچل کر آگے نکلنا چاہتی ہے۔ بہت مشکل ہے کہ ہم دھوپ میں پیدل چلتے ہوئے کسی آدمی کو یہ کہہ سکیں کہ آ جایئے میں آپ کی منزل کچھ آسان کیے دیتا ہوں۔ ہم اپنی نعمتوں پر زبان سے شکر کرتے ہیں مگر ہم اس نعمت میں کسی کو شامل نہیں کرتے۔ انسان سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں سے آگے بڑھ رہا ہے مگر جب احساس بیدار ہو تو معلوم پڑتا ہے کہ وہ کسی سے آگے نہیں بڑھا بلکہ محض یہ ہوا کہ وہ دوسروں کو پیچھے چھوڑ آیا ہے۔۔۔۔۔ اور ان دوسروں میں اس کے اپنے بلکہ اپنا آپ بھی شامل ہے۔
جب احساس کی دولت ملتی ہے تو انسان دولت کے احساس سے بھی نکل جاتا ہے۔ اسے معلوم پڑ جاتا ہے کہ غریب ہو کر بھی انسان خوش رہ سکتا ہے اور امیر ہو کر بھی آدمی تکلیف میں ہو سکتا ہے۔ ہمیں اپنی ضرورت کا احساس نہیں ہو پا رہا کہ احساس ہی ہماری ضرورت ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کے دم سے ہیں اس لیے اگر دوسرا نہ رہا تو میں کیسے رہ سکتا ہوں۔ ہمیں اب اک دوسرے کا ساتھ دینا ہو گا' اک دوسرے کا خیال رکھنا ہو گا۔ اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دوسرے کی زندگی کو مشکل نہ بنایا جائے۔ محبت کا یا کم از کم برداشت کا رشتہ ترک نہ کیا جائے۔ اپنا اور صرف اپنا احساس تو خود غرضی کہلاتا ہے۔ جب اس احساس کے اندر انسان دوسروں کو شامل کر لیتا ہے تو اس کا اجر خود شناسی کے طور پر ملنا شروع ہو جاتا ہے۔۔۔۔ احساس کی آنکھ کھلتی ہے تو ادراک کی آنکھ بھی کھلنا شروع ہو جاتی ہے اور پھر انسان ستاروں سے آگے بھی جہاں دیکھ سکتا ہے۔
جب احساس کی دولت ملتی ہے تو انسان دولت کے احساس سے بھی نکل جاتا ہے۔ اسے معلوم پڑ جاتا ہے کہ غریب ہو کر بھی انسان خوش رہ سکتا ہے اور امیر ہو کر بھی آدمی تکلیف میں ہو سکتا ہے۔ ہمیں اپنی ضرورت کا احساس نہیں ہو پا رہا کہ احساس ہی ہماری ضرورت ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کے دم سے ہیں اس لیے اگر دوسرا نہ رہا تو میں کیسے رہ سکتا ہوں۔ ہمیں اب اک دوسرے کا ساتھ دینا ہو گا' اک دوسرے کا خیال رکھنا ہو گا۔ اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دوسرے کی زندگی کو مشکل نہ بنایا جائے۔ محبت کا یا کم از کم برداشت کا رشتہ ترک نہ کیا جائے۔ اپنا اور صرف اپنا احساس تو خود غرضی کہلاتا ہے۔ جب اس احساس کے اندر انسان دوسروں کو شامل کر لیتا ہے تو اس کا اجر خود شناسی کے طور پر ملنا شروع ہو جاتا ہے۔۔۔۔ احساس کی آنکھ کھلتی ہے تو ادراک کی آنکھ بھی کھلنا شروع ہو جاتی ہے اور پھر انسان ستاروں سے آگے بھی جہاں دیکھ سکتا ہے۔