خورشیداحمدخورشید
محفلین
بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ مجھے کچھ اندازہ ہے کہ کسی سسٹم کی آٹومیشن کے لیے کمپوٹر اور مصنوعی ذہانت کا علم تو درکار ہے ہی لیکن اس کے ساتھ اس سسٹم کا بہت وسعت اور گہرائی میں مطالعہ بھی ضروری ہے۔میں نے انسانی ہاتھ جیسا روبوٹک ہاتھ بنانے کے متعلق کچھ دلچسپ معلومات اکٹھی کی ہیں جو آپ کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں:
ایک مثال کا سہارا لے کر اس بحث کو شروع کرتے ہیں:
ایک روبوٹک ہاتھ ایک مریض کو کھانا کھلانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ پہلی مشکل یہ ہے کہ مختلف قسم کے کھانوں کے لقمے کس طرح بنانے ہیں ۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ لقمے کو صحیح پوزیشن پر کس طرح لے جانا ہے ۔کیونکہ مریض کھاتے وقت اپنی پوزیشن تبدیل کرتا رہتا ہے۔اگر لقمہ صحیح جگہ پر نہیں پہنچے گا تو مریض کے سر، چہرے ، آنکھوں یا کپڑوں پر جا گرے گا۔ تیسری مشکل یہ احساس کرنا کہ لقمہ کتنا گرم یا ٹھنڈا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ گرم سوپ کا چمچ مریض کا منہ یا چہرہ جلادے۔چوتھی مشکل لقمہ کھلاتے ہوئے روبوٹ کی بیٹری ڈاؤن نہ ہوجائے۔ پانچویں مشکل، گرا ہوا لقمہ صاف کرنا پڑے تو مریض کا گوشت ہی نہ ادھڑ جائے یا ہڈیاں ہی نہ چٹخ جائیں۔
اس طرح کی بہت سی مشکلات ہیں جس کی وجہ سے انسانی ہاتھ جیسا روبوٹک ہاتھ بنانا انتہائی مشکل ہے کیونکہ انسانی ہاتھ بہت پیچیدہ اور منفرد ہے۔ اس کی نقل تیار کرنے میں کئی سائنسی اور تکنیکی چیلنجز درپیش ہیں۔
جی جناب! یہ تو صرف ایک انسانی ہاتھ میں چھپے علوم و فنون ہیں جو قدرت کی کاریگری کا ثبوت ہیں۔انسان کے ہر عضو میں ایسے ہی علم اور فن کے نمونے چھپے ہیں۔ اور مجموعی طور پر پورا انسان تو قدرت کے علم اور فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دستیاب علم کے مطابق ، پوری کائنات میں انسان قدرت کی کاریگری کا بہترین نمونہ ہے۔انسان کے ڈیزائن پر جوں جوں غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس سے بہتر، مکمل ، درست اور خود کار ڈیزائن ہو ہی نہیں سکتا۔ہر عضو اپنی اپنی بہترین جگہ پر۔ ہر عضو کی قدرتی سیٹنگ بہترین۔ اس کی سب سے بنیادی اکائی ( جین، سیل) سے لے کر پورے انسانی وجود کے سسٹم میں دستیاب علم کے تمام فیلڈز( بائیالوجی، کیمسٹری،فزکس، الیکٹریکل، مکینیکل، الیکٹرانکس، کمپیوٹر سائنس، انٹیلیجنس وغیرہ ) کے کامل نمونے موجود ہیں۔ اسی لیے شاید اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
ایک مثال کا سہارا لے کر اس بحث کو شروع کرتے ہیں:
ایک روبوٹک ہاتھ ایک مریض کو کھانا کھلانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ پہلی مشکل یہ ہے کہ مختلف قسم کے کھانوں کے لقمے کس طرح بنانے ہیں ۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ لقمے کو صحیح پوزیشن پر کس طرح لے جانا ہے ۔کیونکہ مریض کھاتے وقت اپنی پوزیشن تبدیل کرتا رہتا ہے۔اگر لقمہ صحیح جگہ پر نہیں پہنچے گا تو مریض کے سر، چہرے ، آنکھوں یا کپڑوں پر جا گرے گا۔ تیسری مشکل یہ احساس کرنا کہ لقمہ کتنا گرم یا ٹھنڈا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ گرم سوپ کا چمچ مریض کا منہ یا چہرہ جلادے۔چوتھی مشکل لقمہ کھلاتے ہوئے روبوٹ کی بیٹری ڈاؤن نہ ہوجائے۔ پانچویں مشکل، گرا ہوا لقمہ صاف کرنا پڑے تو مریض کا گوشت ہی نہ ادھڑ جائے یا ہڈیاں ہی نہ چٹخ جائیں۔
اس طرح کی بہت سی مشکلات ہیں جس کی وجہ سے انسانی ہاتھ جیسا روبوٹک ہاتھ بنانا انتہائی مشکل ہے کیونکہ انسانی ہاتھ بہت پیچیدہ اور منفرد ہے۔ اس کی نقل تیار کرنے میں کئی سائنسی اور تکنیکی چیلنجز درپیش ہیں۔
1. حرکت
انسانی ہاتھ میں 27 ہڈیاں، 34 عضلات، اور 100 سے زائد کنیکٹیو ٹشوز ہوتے ہیں، جو اسے مختلف زاویوں میں گھمانے، پکڑنے اور چھوٹے سے چھوٹے کام کرنے کے قابل بناتے ہیں۔- روبوٹک ہاتھ میں اتنی زیادہ آزادی (Degrees of Freedom - DoF) دینا بہت مشکل ہے۔
- زیادہ تر جدید روبوٹک ہاتھ( 20-24 )DoF رکھتے ہیں، جبکہ انسانی ہاتھ میں تقریباً (27 )DoF ہوتے ہیں۔
2. سینسرز اور احساس
انسانی ہاتھ میں ہزاروں نروس سینسرز ہوتے ہیں جو ہمیں لمس (Touch)، دباؤ (Pressure)، درجہ حرارت (Temperature)، اور درد (Pain) کا احساس دلاتے ہیں۔- روبوٹک ہاتھ میں کچھ سینسرز تو شامل کیے جا رہے ہیں، مگر وہ انسانی جلد کی حساسیت تک نہیں پہنچ سکے۔
- ٹیکسچر (Texture) اور درجہ حرارت کو محسوس کرنے کی حس بہت محدود ہے۔
3. گرفت اور کنٹرول
انسانی ہاتھ مختلف اقسام کی گرفت (Grip) کر سکتا ہے، جیسے:کسی بھاری چیز کو مضبوطی سے پکڑنا، سوئی میں دھاگا ڈالنا یا پین پکڑنا۔- روبوٹک ہاتھ کے لیے اتنی باریکی سے گرفت کو کنٹرول کرنا مشکل ہے کیونکہ اسے مختلف اشیاء کو سختی یا نرمی سے پکڑنے کے لیے پیچیدہ الگورتھمز اور سینسرز درکار ہوتے ہیں۔
4. نیورل کنٹرول اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس
انسانی ہاتھ دماغ اور اعصابی نظام (Nervous System) کے ذریعے تیزی سے کنٹرول ہوتا ہے۔- روبوٹک ہاتھ کے لیے مصنوعی ذہانت (AI) اور مشین لرننگ کا استعمال کیا جا رہا ہے، مگر وہ اب بھی انسانی دماغ کی طرح نہیں سوچ سکتا۔
- نیورل انٹرفیس (جیسے Elon Musk کی Neuralink) اس پر کام کر رہی ہیں کہ دماغی سگنلز سے روبوٹک ہاتھ کو کنٹرول کیا جا سکے، لیکن یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
5.حرکت دینے اور توانائی دینے کا نظام
انسانی ہاتھ کے عضلات بہت طاقتور اور توانائی کے لحاظ سے مؤثر ہوتے ہیں، جبکہ زیادہ تر روبوٹ کا حرکت دینے کا نظام بہت بھاری ، سست، اور زیادہ توانائی خرچ کرتا ہے۔- مصنوعی عضلات (Artificial Muscles) اور نینو ٹیکنالوجی میں ترقی ہو رہی ہے، لیکن یہ اب بھی انسانی عضلات کی طرح نہیں ہیں۔
- انسانی ہاتھ نرم اور لچکدار (Flexible) ہوتا ہے، جو اسے قدرتی طور پر اشیاء کو مؤثر طریقے سے پکڑنے میں مدد دیتا ہے۔
- سافٹ روبوٹکس اس شعبے میں کام کر رہا ہے، لیکن اب تک روبوٹک ہاتھ زیادہ تر سخت دھاتوں یا مصنوعی مادوں سے بنے ہوتے ہیں۔
6.خودکار ریپئیر مینٹینینس (Repair ، Maintenance)
انسانی ہاتھ زخمی ہوجائے یا اس کے ٹشوز کو نقصان پہنچ جائے تو وہ خود کار طریقے سے قدرتی طور پر کچھ وقت میں ریپئیر ہوجاتا ہے۔- روبوٹک ہاتھ میں ایسا ہونا فی الحال ممکن نہیں۔
جی جناب! یہ تو صرف ایک انسانی ہاتھ میں چھپے علوم و فنون ہیں جو قدرت کی کاریگری کا ثبوت ہیں۔انسان کے ہر عضو میں ایسے ہی علم اور فن کے نمونے چھپے ہیں۔ اور مجموعی طور پر پورا انسان تو قدرت کے علم اور فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دستیاب علم کے مطابق ، پوری کائنات میں انسان قدرت کی کاریگری کا بہترین نمونہ ہے۔انسان کے ڈیزائن پر جوں جوں غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس سے بہتر، مکمل ، درست اور خود کار ڈیزائن ہو ہی نہیں سکتا۔ہر عضو اپنی اپنی بہترین جگہ پر۔ ہر عضو کی قدرتی سیٹنگ بہترین۔ اس کی سب سے بنیادی اکائی ( جین، سیل) سے لے کر پورے انسانی وجود کے سسٹم میں دستیاب علم کے تمام فیلڈز( بائیالوجی، کیمسٹری،فزکس، الیکٹریکل، مکینیکل، الیکٹرانکس، کمپیوٹر سائنس، انٹیلیجنس وغیرہ ) کے کامل نمونے موجود ہیں۔ اسی لیے شاید اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ