الف نظامی
لائبریرین
سید سرفراز شاہ اپنی کتاب ارژنگِ فقیر میں لکھتے ہیں:
احمد شاہ ابدالی فوج میں ایک سپاہی تھا۔ فوج نے کسی مہم کے دوران ایک جگہ پڑاو ڈالا۔ جب رات کا کھانا serve ہو رہا تھا تو ذرا کم اچھے حلیے والا شخص وہاں آیا اور کہا
"میں بھوکا ہوں ، کھانا کھلا دو"
فوجیوں نے ڈانٹ دیا کہ یہ تو لشکر کے لیے کھانا ہے۔ احمد شاہ ابدالی نے جب یہ سنا تو اپنے حصے کا کھانا اس فقیر کو دے دیا۔ کھانا کھانے کے بعد فقیر نے احمد شاہ ابدالی سے کہا
"تم نے مجھے کھانا کھلایا ، بولو کیا مانگتے ہو۔ جو مانگو گے ملے گا"
یہ سن کر سپاہیوں نے قہقہے لگائے کہ جس شخص کے پاس خود کھانے کچھ نہ ہو وہ کسی کو کیا دے سکتا ہے۔
احمد شاہ ابدالی نے politely کہا
"بہت مہربانی ، بس آپ میرے لیے دعا کر دیجیے گا"
فقیر نے رخصت ہوتے وقت کہا
"جاو! تمہیں بادشاہ بنا دیا"
اس کی بات سن کر سپاہیوں نے ایک بار پھر قہقہے لگائے۔ اس مہم میں مقابلہ بہت سخت تھا۔ لشکر کا بڑا نقصان ہوا۔ احمد شاہ ابدالی نے بہت بہادری کا مظاہرہ کیا جس پر بادشاہ نے ترقی دے کر اسے ایک چھوٹے درجے کا صوبیدار بنا دیا۔ اس کے بعد احمد شاہ ابدالی نے اپنے troops کی اتنی اعلی کمانڈ کی کہ بادشاہ نے اسے ترقی دے کر کمانڈر انچیف بنا دیا حتی کہ ایک ایسا وقت آیا کہ جب اس نے بادشاہ کو ہٹا کر خود حکمرانی سنبھال لی۔ تب اسے اُس فقیر کی دعا یاد آئی۔ فقیر کا پتا کرایا تو پتا چلا کہ وہ پنجاب گئے ہوئے ہیں۔ اس وقت پنجاب پر سکھوں کی حکومت تھی اور سکھ مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھا رہے تھے۔ فقیر سکھ مہاراجہ کے دربار میں گیا اور احتجاج کیا کہ مسلمانوں پر ظلم و ستم سے باز آجاو۔ سکھ مہاراجہ نے ظلم کہ انتہا کرتے ہوئے حکم دیا کہ ابلتی ہوئی چاندی اس فقیر کے حلق میں انڈیل دی جائے۔ جس سے اس فقیر کا انتقال ہو گیا۔
جب یہ خبر احمد شاہ ابدالی تک پہنچی تو وہ غصے میں آ گیا کہ سکھ مہاراجہ نے میرے مرشد کے ساتھ ایسا بھیانک سلوک کیا۔ وہ افغانستان سے آیا اور پنجاب پر حملہ کیا۔ لاہور فتح کیا اور حکم دیا کہ تین دن تک سکھوں کا قتل عام کیا جائے۔ جب رات کو احمد شاہ ابدالی سویا تو اس فقیر کو خواب میں دیکھا جنہوں نے تنبیہ کی کہ تمہیں بادشاہ اس لیے تو نہیں بنایا گیا تھا کہ تم انسانوں کا قتل عام کرو۔ فورا اسے بند کرو۔ احمد شاہ ابدالی نے آنکھ کھلتے ہی قتل عام بند کرنے کا حکم دیا۔
وہ فقیر صابر شاہ صاحب تھے جن کا مزار بادشاہی مسجد کی تقریبا back پر ہے
احمد شاہ ابدالی فوج میں ایک سپاہی تھا۔ فوج نے کسی مہم کے دوران ایک جگہ پڑاو ڈالا۔ جب رات کا کھانا serve ہو رہا تھا تو ذرا کم اچھے حلیے والا شخص وہاں آیا اور کہا
"میں بھوکا ہوں ، کھانا کھلا دو"
فوجیوں نے ڈانٹ دیا کہ یہ تو لشکر کے لیے کھانا ہے۔ احمد شاہ ابدالی نے جب یہ سنا تو اپنے حصے کا کھانا اس فقیر کو دے دیا۔ کھانا کھانے کے بعد فقیر نے احمد شاہ ابدالی سے کہا
"تم نے مجھے کھانا کھلایا ، بولو کیا مانگتے ہو۔ جو مانگو گے ملے گا"
یہ سن کر سپاہیوں نے قہقہے لگائے کہ جس شخص کے پاس خود کھانے کچھ نہ ہو وہ کسی کو کیا دے سکتا ہے۔
احمد شاہ ابدالی نے politely کہا
"بہت مہربانی ، بس آپ میرے لیے دعا کر دیجیے گا"
فقیر نے رخصت ہوتے وقت کہا
"جاو! تمہیں بادشاہ بنا دیا"
اس کی بات سن کر سپاہیوں نے ایک بار پھر قہقہے لگائے۔ اس مہم میں مقابلہ بہت سخت تھا۔ لشکر کا بڑا نقصان ہوا۔ احمد شاہ ابدالی نے بہت بہادری کا مظاہرہ کیا جس پر بادشاہ نے ترقی دے کر اسے ایک چھوٹے درجے کا صوبیدار بنا دیا۔ اس کے بعد احمد شاہ ابدالی نے اپنے troops کی اتنی اعلی کمانڈ کی کہ بادشاہ نے اسے ترقی دے کر کمانڈر انچیف بنا دیا حتی کہ ایک ایسا وقت آیا کہ جب اس نے بادشاہ کو ہٹا کر خود حکمرانی سنبھال لی۔ تب اسے اُس فقیر کی دعا یاد آئی۔ فقیر کا پتا کرایا تو پتا چلا کہ وہ پنجاب گئے ہوئے ہیں۔ اس وقت پنجاب پر سکھوں کی حکومت تھی اور سکھ مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھا رہے تھے۔ فقیر سکھ مہاراجہ کے دربار میں گیا اور احتجاج کیا کہ مسلمانوں پر ظلم و ستم سے باز آجاو۔ سکھ مہاراجہ نے ظلم کہ انتہا کرتے ہوئے حکم دیا کہ ابلتی ہوئی چاندی اس فقیر کے حلق میں انڈیل دی جائے۔ جس سے اس فقیر کا انتقال ہو گیا۔
جب یہ خبر احمد شاہ ابدالی تک پہنچی تو وہ غصے میں آ گیا کہ سکھ مہاراجہ نے میرے مرشد کے ساتھ ایسا بھیانک سلوک کیا۔ وہ افغانستان سے آیا اور پنجاب پر حملہ کیا۔ لاہور فتح کیا اور حکم دیا کہ تین دن تک سکھوں کا قتل عام کیا جائے۔ جب رات کو احمد شاہ ابدالی سویا تو اس فقیر کو خواب میں دیکھا جنہوں نے تنبیہ کی کہ تمہیں بادشاہ اس لیے تو نہیں بنایا گیا تھا کہ تم انسانوں کا قتل عام کرو۔ فورا اسے بند کرو۔ احمد شاہ ابدالی نے آنکھ کھلتے ہی قتل عام بند کرنے کا حکم دیا۔
وہ فقیر صابر شاہ صاحب تھے جن کا مزار بادشاہی مسجد کی تقریبا back پر ہے