طارق شاہ
محفلین
غزلِ
دُکھ کی دو اِک برساتوں سے، کب یہ دِلِ پایاب بھرا
وہ تو کوئی دریا لے آیا ، دریا بھی سیلاب بھرا
سوچا تھا! غم کو غم کاٹے، زہر کا زہر بنے تریاق
اب دِل آبلہ آبلہ ہے، اور شیشۂ جاں زہراب بھرا
تم آ جاتے، تو اُس رُت کی عُمر بھی لمبی ہو جاتی
ابھی تھا دیواروں پر سبزہ، ابھی تو صحن گلاب بھرا
جانے ہجر کی رات، کہ وصل کی رات ، گزار کے آئے ہو
آنکھیں نیندوں نیند بھری ہیں، جسم ہے خوابوں خواب بھرا
احمد فرؔاز
آخری تدوین: