فراز احمد فرؔاز ::::: دُکھ کی دو اِک برساتوں سے، کب یہ دِل پایاب بھرا ::::: Ahmad Faraz

طارق شاہ

محفلین


غزلِ
image.jpg


دُکھ کی دو اِک برساتوں سے، کب یہ دِلِ پایاب بھرا
وہ تو کوئی دریا لے آیا ، دریا بھی سیلاب بھرا

سوچا تھا! غم کو غم کاٹے، زہر کا زہر بنے تریاق
اب دِل آبلہ آبلہ ہے، اور شیشۂ جاں زہراب بھرا

تم آ جاتے، تو اُس رُت کی عُمر بھی لمبی ہو جاتی
ابھی تھا دیواروں پر سبزہ، ابھی تو صحن گلاب بھرا

جانے ہجر کی رات، کہ وصل کی رات ، گزار کے آئے ہو
آنکھیں نیندوں نیند بھری ہیں، جسم ہے خوابوں خواب بھرا

احمد فرؔاز


 
آخری تدوین:
Top