طارق شاہ
محفلین
غزل
دِل میں، اب طاقت کہاں خُوننابہ افشانی کرے
ورنہ ،غم وہ زہر ہے، پتّھر کو بھی پانی کرے
عقل وہ ناصح، کہ ہر دَم لغزِشِ پا کا خیال
دِل وہ دِیوانہ، یہی چاہےکہ نادانی کرے
ہاں مجھے بھی ہو گِلہ بے مہریِ حالات کا
تُجھ کو آزردہ اگر میری پریشانی کرے
یہ تو اِک شہرِ جنُوں ہے چاک دامانو، یہاں
سب کے سب وحشی ہیں، کِس کو کون زندانی کرے
موسمِ گُل ہے، مگر بے رنگ ہے شاخِ مژہ
کتنا شرمِندہ ہَمَیں آنکھوں کی وِیرانی کرے
ہنستے چہروں سے دِلوں کے زخم پہچانے گا کون
تجھ سے بڑھ کر ظُلم اپنی خندہ پیشانی کرے
ناصَحوں کو، کون سمجھائے، نہ سمجھے گا فراؔز !
وہ تو، سب کی بات سُن لے اور من مانی کرے
احمد فراؔز