طارق شاہ
محفلین
" مَیں اور تُو "
روز جب دُھوپ پہاڑوں سے اُترنے لگتی
کوئی گھٹتا ہُوا بڑھتا ہُوا بیکل سایہ
ایک دِیوار سے کہتا کہ مِرے ساتھ چلو
اور زنجیرِ رفاقت سے گُریزاں دِیوار
اپنے پندار کے نشے میں سدا اِستادہ
خواہشِ ہمدمِ دِیرِینہ پہ ہنس دیتی تھی
کون دِیوار، کسی سائے کے ہمراہ چلی
کون دِیوار، ہمیشہ مگر اِستادہ رہی
وقت دِیوار کا ساتھی ہے نہ سائے کا رفیق
اور اب سنگ و گُل و خشت کے ملبے کے تَلَے
اُسی دیوار کا پِندار ہے ریزہ ریزہ
دُھوپ نِکلی ہے، مگر جانے کہاں ہے سایہ
احمد فراؔز