الف عین
لائبریرین
احمد فرازجو کبھی شررؔ برقی تھا!
رحیم گل
گھنے گھنگھریالے بال۔ وجیہ وشکیل فراز۔ شاعر ایسے تو نہیں ہوتے؟ اسے ہالی ووڈ میں ہونا چاہئے تھا گریگری پیک اور راک ہڈسن کے مقابل الزبتھ ٹیلر کے پہلو بہ پہلو!
یہ نہ ہوتا تو اسے اقوام متحدہ میںہونا چاہئے تھا کہ سلامتی کونسل کے ہر ریزولیوشن کو ’’ویٹو‘‘ کرنے کا شغل جاری رکھتا۔
مگر وہ تو شاعر نکلا شاعر بھی یکتا بے مثال خوبصورت آدمی خوبصورت شاعر۔
یہ خدا بھی عجیب ہے دینے پر آتا ہے تو سب کچھ دے دیتا ہے۔ نورجہاں کو دیکھئے سرورِ جاں شکل و صورت رشک چمن، چھب نرالی، چال مستانی اور آواز ایسی کہ سنتے جاؤ سنتے چلے جاؤ۔
یہی غلط بخشی فرازؔ کے ساتھ ہوئی مردانگی اس میں وجاہت اس میں شوخی اس میں ظرافت اس میں اور شعرگوئی اس پر سوا اور ضدی وہ ایسا کہ برقؔ کو ہٹئی مرتے مرگیا فرازؔ نے اس کا دیوان چھپنے نہ دیا۔
آغا برقؔ اس کے والد کا نام ہے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ فراز کو ان کی فارسی شاعری پسند تھی غالباً یہی وجہ تھی کہ حیلوں بہانوں سے ان کا اردو دیوان شائع نہ ہونے دیا۔
تو پھر۔ شاعرانہ تعلیٰ کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ ردِ اسناد کا سفر گھر کی دہلیز سے شروع ہو پھر کوئی دوسرا کیسے شکوہ کرسکتا ہے کہ فرازؔ نے جی کو جی نہ کہا۔
وہ بے حد سرپھرا آدمی ہے اچھا ہے تو بہت اچھا ضد میں آگیا تو ساری بساط اُلٹ دیتا ہے فرازؔ نے بھی میرے کو ہاٹ کی مٹی سے جنم لیا ہے اس لئے ہمیں تو اس کی سرکشی بھی گراں نہیں گزرتی اس کی شاعرانہ ہٹ اپنی جگہ کہ یہ توہر شاعر کو ودیعت ہوتی ہے فرازؔ کی تندی اور خودی کچھ قبائیلی روایات کی بھی مرہون منت ہے وہاں کا آدمی کتنا بھی تعلیم یافتہ اور مہذب ہوجائے ان کی شکست کبھی قبول نہیں کرتا۔ ٹوٹ پھوٹ جائے گا مرجائے گا سر نہیں جھکائے گا۔
وہ وقت کو سلام نہیں کج کلاہوں کی آنکھ سے آنکھ ملاکر بات کرتا ہے لوگ اس کے روئیے کو گستاخی پر محمول کرتے ہیں حالانکہ یہی رویہ اسے دوسروں سے منفر بناتا ہے۔
ایک بار جناب احمد ندیم قاسمی نے میری موجودگی میں ایک ٹی وی پروڈیوسر سے کہا رحیم گل نے شاہکار ناول لکھے ہیں یہ خوبصورت ڈرامہ نگار بھی ہے لیکن اس کی پٹھانیت اسے ہمیشہ نقصان پہنچاتی ہے۔
یہ بے حد نپاتلا تجزیہ ہے یہ تجزیہ مجھ پر ہی نہیں احمد فرازؔ پر بھی صادق آتا ہے۔ بلکہ مجھ سے کچھ زیادہ!
وہ سمجھوتا نہیں کرتا مصلحتوں کا شکار نہیں ہوتا وہ بے حد سخن جان ہے۔ بے حد مستقل مزاج ہے انتہائی حوصلہ مند ہے اس کے سینے میں شاعرانہ گداز دل ہے۔ لیکن اس کے روےئے میں کوہاٹ کے سنگلاخ پہاڑوں کا عزم ہے۔ وہ دوستوں میں غیر سنجیدہ برتاؤ رکھتا ہے لیکن بات اصول کی ہوتو بے حد سنجیدہ انسان بن جاتا ہے۔ بے حد ٹھوس انتہائی اٹل!
احمد فرازؔ کا پہلا تخلص شررؔ برقی تھا ایک بارکسی دوست نے کہا۔ ۔ ۔ !
’’آج رات بھر نیند نہیں آئی نلکا کھلا ہوا تھا اور ساری رات پانی ’’شرر شرر‘‘ بہتا رہا۔ فراز کی حس لطیف کو ’’شررشرر‘‘ کی ساؤنڈس ایسی بُری لگی کہ اگلے دن ’’شررؔ برقی‘‘ احمد فرازؔ بن گیا تھا!
وہ ہنستا ہے تو بے تحاشہ ہنستا ہے تب وہ احمد فراز نہیں ہوتا لیکن اس کا دوسرا روپ بالکل ارسٹوکریٹ کا ہے اس کے کالر پر کوئی داغ نہیں ہوتا اس کے سوٹ میں کوئی شکن نہیں ہوتی اور گرد کے ذرات اس کے بوٹوں پر بیٹھنے سے ہچکچاتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی آنکھوں میں بلا کی شرارت ہوتی ہے۔
اس کے جسم میں اس کی آنکھیں سارے فساد کی جڑ ہیں وہ ہنستا ہے تو اس کی آنکھوں سے سات سُر نکلتے ہیں جو ان لڑکیاں ان مہکتے سروں کے طلسم میں اس طرح جکڑ جاتی ہیں جیسے سانپ کی آنکھوں کی کشش سے مینڈک اچھل کر حلق میں جاپڑتا ہے۔
احمد فرازؔ پاکستان کا واحد شاعر ہے جو سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ چھپتا ہے اور سب سے زیادہ بکتا ہے وہ فیض سے بڑا شاعر نہیں ہے لیکن ایک اطلاع کے مطابق فیض سے زیادہ رائلٹی لیتا ہے۔
ہمارے ملک میں جہاں کتاب چھاپنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے وہاں احمد فرازؔ کی کتاب پر ناشر بڑی سے بڑی بولی لگانے کے لئے تیار ہے اور پھر یہ کہ احمد فرازؔ کو اپنی قیمت کا علم ہے اور وہ اسے وصولنا بھی جانتا ہے اس کے باوجود اپنے آپ میں رہتا ہے اساتذہ کا احترام کرتا ہے اور ہم عصروں کی نفی نہیں کرتا لیکن پھر بھی اس کی شخصیت بے حد متنازعہ ہے۔ جو لوگ اس سے محبت کرتے ہیں ٹوٹ کر کرتے ہیں اور جو مخالفت کرتے ہیں تجاوز کرجاتے ہیں لیکن اس کی شخصیت اتنی پرکشش ہے کہ آمنا سامنا ہوجائے تو اسیر دشنام پابندِ سلام نظر آتے ہیں میں جو کٹر مذہبی آدمی نہیں ہوں لیکن خدا کا منکر بھی نہیں ہوں۔ لوگ مجھے دائیں کیمپ کا آدمی سمجھتے ہیں تو مجھے اس پر اعتراض بھی نہیں ہوتا لیکن فرازؔ جو قطعی بائیں کیمپ کا آدمی ہے مجھے کبھی اجنبی نہیں لگا کبھی غیر نہیں لگا۔ اس میں اپنائیت ہے یقین ہے اس میں شدید قربت کا احساس ملتا ہے وہ جو چھٹی حس ہوتی ہے اور آدمی کی پہچان کراتی ہے۔
وہ وجدانی تعارف وہ عرفانِ مخلوق کا ذائقہ اور وہ فطری ربط و رشتہ چپ وراست کی سطح پر سوچنے والے دانشوروں سے زیادہ اعلیٰ ظرف ہے۔
لاہور میں اس سے جب بھی ملاقات ہوئی ہوٹل میں سڑک پر یا کسی ادبی تقریب میں کشور ناہید اور یوسف کامران کی معیت میں۔ ایک اس کے دائیں ہوتا اور دوسرا اس کے بائیں ایک کا رنگ سانولا اور دوسرے کا رنگ گندمی اور تیسرے کا گورا دو شاعر ایک تنقید و تبصرہ کا آدمی یہ اتحادِ ثلاثہ خوب ہے!
فرازؔ جہاں بھی جاتا ہے رنگ اس کے قدموں میں بکھر جاتے ہیں ہر شہر میں اس کے چاہنے والوں کے ہجوم رہتے ہیں۔
سنا ہے فرازؔ کی زندگی بنانے اور اس کی فطرت میں سیمابی کیفیت بھرنے میں اس کے پہلے عشق کا بڑا دخل ہے جو اس نے کم عمری میں کیا۔ جس کی کسک وہ آج تک دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے۔
لیکن اب۔ ۔ ۔ ؟
بقول محسن احسان اب مستقل عاشق ہے۔ پچھلی ربع صدی میں اس کی زندگی میں شاید ہی کوئی لمحہ ایسا آیا ہو جب وہ کسی کی زلف گرہ گیر کا اسیر نہ رہا ہو۔ ایک رومان اختتام کو نہیں پہنچتا کہ دوسرے کی ابتدا ہوجاتی ہے۔
منصف، حیدرآباد 28 اگست
رحیم گل
گھنے گھنگھریالے بال۔ وجیہ وشکیل فراز۔ شاعر ایسے تو نہیں ہوتے؟ اسے ہالی ووڈ میں ہونا چاہئے تھا گریگری پیک اور راک ہڈسن کے مقابل الزبتھ ٹیلر کے پہلو بہ پہلو!
یہ نہ ہوتا تو اسے اقوام متحدہ میںہونا چاہئے تھا کہ سلامتی کونسل کے ہر ریزولیوشن کو ’’ویٹو‘‘ کرنے کا شغل جاری رکھتا۔
مگر وہ تو شاعر نکلا شاعر بھی یکتا بے مثال خوبصورت آدمی خوبصورت شاعر۔
یہ خدا بھی عجیب ہے دینے پر آتا ہے تو سب کچھ دے دیتا ہے۔ نورجہاں کو دیکھئے سرورِ جاں شکل و صورت رشک چمن، چھب نرالی، چال مستانی اور آواز ایسی کہ سنتے جاؤ سنتے چلے جاؤ۔
یہی غلط بخشی فرازؔ کے ساتھ ہوئی مردانگی اس میں وجاہت اس میں شوخی اس میں ظرافت اس میں اور شعرگوئی اس پر سوا اور ضدی وہ ایسا کہ برقؔ کو ہٹئی مرتے مرگیا فرازؔ نے اس کا دیوان چھپنے نہ دیا۔
آغا برقؔ اس کے والد کا نام ہے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ فراز کو ان کی فارسی شاعری پسند تھی غالباً یہی وجہ تھی کہ حیلوں بہانوں سے ان کا اردو دیوان شائع نہ ہونے دیا۔
تو پھر۔ شاعرانہ تعلیٰ کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ ردِ اسناد کا سفر گھر کی دہلیز سے شروع ہو پھر کوئی دوسرا کیسے شکوہ کرسکتا ہے کہ فرازؔ نے جی کو جی نہ کہا۔
وہ بے حد سرپھرا آدمی ہے اچھا ہے تو بہت اچھا ضد میں آگیا تو ساری بساط اُلٹ دیتا ہے فرازؔ نے بھی میرے کو ہاٹ کی مٹی سے جنم لیا ہے اس لئے ہمیں تو اس کی سرکشی بھی گراں نہیں گزرتی اس کی شاعرانہ ہٹ اپنی جگہ کہ یہ توہر شاعر کو ودیعت ہوتی ہے فرازؔ کی تندی اور خودی کچھ قبائیلی روایات کی بھی مرہون منت ہے وہاں کا آدمی کتنا بھی تعلیم یافتہ اور مہذب ہوجائے ان کی شکست کبھی قبول نہیں کرتا۔ ٹوٹ پھوٹ جائے گا مرجائے گا سر نہیں جھکائے گا۔
وہ وقت کو سلام نہیں کج کلاہوں کی آنکھ سے آنکھ ملاکر بات کرتا ہے لوگ اس کے روئیے کو گستاخی پر محمول کرتے ہیں حالانکہ یہی رویہ اسے دوسروں سے منفر بناتا ہے۔
ایک بار جناب احمد ندیم قاسمی نے میری موجودگی میں ایک ٹی وی پروڈیوسر سے کہا رحیم گل نے شاہکار ناول لکھے ہیں یہ خوبصورت ڈرامہ نگار بھی ہے لیکن اس کی پٹھانیت اسے ہمیشہ نقصان پہنچاتی ہے۔
یہ بے حد نپاتلا تجزیہ ہے یہ تجزیہ مجھ پر ہی نہیں احمد فرازؔ پر بھی صادق آتا ہے۔ بلکہ مجھ سے کچھ زیادہ!
وہ سمجھوتا نہیں کرتا مصلحتوں کا شکار نہیں ہوتا وہ بے حد سخن جان ہے۔ بے حد مستقل مزاج ہے انتہائی حوصلہ مند ہے اس کے سینے میں شاعرانہ گداز دل ہے۔ لیکن اس کے روےئے میں کوہاٹ کے سنگلاخ پہاڑوں کا عزم ہے۔ وہ دوستوں میں غیر سنجیدہ برتاؤ رکھتا ہے لیکن بات اصول کی ہوتو بے حد سنجیدہ انسان بن جاتا ہے۔ بے حد ٹھوس انتہائی اٹل!
احمد فرازؔ کا پہلا تخلص شررؔ برقی تھا ایک بارکسی دوست نے کہا۔ ۔ ۔ !
’’آج رات بھر نیند نہیں آئی نلکا کھلا ہوا تھا اور ساری رات پانی ’’شرر شرر‘‘ بہتا رہا۔ فراز کی حس لطیف کو ’’شررشرر‘‘ کی ساؤنڈس ایسی بُری لگی کہ اگلے دن ’’شررؔ برقی‘‘ احمد فرازؔ بن گیا تھا!
وہ ہنستا ہے تو بے تحاشہ ہنستا ہے تب وہ احمد فراز نہیں ہوتا لیکن اس کا دوسرا روپ بالکل ارسٹوکریٹ کا ہے اس کے کالر پر کوئی داغ نہیں ہوتا اس کے سوٹ میں کوئی شکن نہیں ہوتی اور گرد کے ذرات اس کے بوٹوں پر بیٹھنے سے ہچکچاتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی آنکھوں میں بلا کی شرارت ہوتی ہے۔
اس کے جسم میں اس کی آنکھیں سارے فساد کی جڑ ہیں وہ ہنستا ہے تو اس کی آنکھوں سے سات سُر نکلتے ہیں جو ان لڑکیاں ان مہکتے سروں کے طلسم میں اس طرح جکڑ جاتی ہیں جیسے سانپ کی آنکھوں کی کشش سے مینڈک اچھل کر حلق میں جاپڑتا ہے۔
احمد فرازؔ پاکستان کا واحد شاعر ہے جو سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ چھپتا ہے اور سب سے زیادہ بکتا ہے وہ فیض سے بڑا شاعر نہیں ہے لیکن ایک اطلاع کے مطابق فیض سے زیادہ رائلٹی لیتا ہے۔
ہمارے ملک میں جہاں کتاب چھاپنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے وہاں احمد فرازؔ کی کتاب پر ناشر بڑی سے بڑی بولی لگانے کے لئے تیار ہے اور پھر یہ کہ احمد فرازؔ کو اپنی قیمت کا علم ہے اور وہ اسے وصولنا بھی جانتا ہے اس کے باوجود اپنے آپ میں رہتا ہے اساتذہ کا احترام کرتا ہے اور ہم عصروں کی نفی نہیں کرتا لیکن پھر بھی اس کی شخصیت بے حد متنازعہ ہے۔ جو لوگ اس سے محبت کرتے ہیں ٹوٹ کر کرتے ہیں اور جو مخالفت کرتے ہیں تجاوز کرجاتے ہیں لیکن اس کی شخصیت اتنی پرکشش ہے کہ آمنا سامنا ہوجائے تو اسیر دشنام پابندِ سلام نظر آتے ہیں میں جو کٹر مذہبی آدمی نہیں ہوں لیکن خدا کا منکر بھی نہیں ہوں۔ لوگ مجھے دائیں کیمپ کا آدمی سمجھتے ہیں تو مجھے اس پر اعتراض بھی نہیں ہوتا لیکن فرازؔ جو قطعی بائیں کیمپ کا آدمی ہے مجھے کبھی اجنبی نہیں لگا کبھی غیر نہیں لگا۔ اس میں اپنائیت ہے یقین ہے اس میں شدید قربت کا احساس ملتا ہے وہ جو چھٹی حس ہوتی ہے اور آدمی کی پہچان کراتی ہے۔
وہ وجدانی تعارف وہ عرفانِ مخلوق کا ذائقہ اور وہ فطری ربط و رشتہ چپ وراست کی سطح پر سوچنے والے دانشوروں سے زیادہ اعلیٰ ظرف ہے۔
لاہور میں اس سے جب بھی ملاقات ہوئی ہوٹل میں سڑک پر یا کسی ادبی تقریب میں کشور ناہید اور یوسف کامران کی معیت میں۔ ایک اس کے دائیں ہوتا اور دوسرا اس کے بائیں ایک کا رنگ سانولا اور دوسرے کا رنگ گندمی اور تیسرے کا گورا دو شاعر ایک تنقید و تبصرہ کا آدمی یہ اتحادِ ثلاثہ خوب ہے!
فرازؔ جہاں بھی جاتا ہے رنگ اس کے قدموں میں بکھر جاتے ہیں ہر شہر میں اس کے چاہنے والوں کے ہجوم رہتے ہیں۔
سنا ہے فرازؔ کی زندگی بنانے اور اس کی فطرت میں سیمابی کیفیت بھرنے میں اس کے پہلے عشق کا بڑا دخل ہے جو اس نے کم عمری میں کیا۔ جس کی کسک وہ آج تک دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے۔
لیکن اب۔ ۔ ۔ ؟
بقول محسن احسان اب مستقل عاشق ہے۔ پچھلی ربع صدی میں اس کی زندگی میں شاید ہی کوئی لمحہ ایسا آیا ہو جب وہ کسی کی زلف گرہ گیر کا اسیر نہ رہا ہو۔ ایک رومان اختتام کو نہیں پہنچتا کہ دوسرے کی ابتدا ہوجاتی ہے۔
منصف، حیدرآباد 28 اگست