طارق شاہ
محفلین
غزلِ
سو دُوریوں پہ بھی مِرے دِل سے جُدا نہ تھی
تُو میری زندگی تھی، مگر بے وفا نہ تھی
تُو میری زندگی تھی، مگر بے وفا نہ تھی
دِل نے ذرا سے غم کو قیامت بنا دِیا
ورنہ وہ آنکھ اِتنی زیادہ خفا نہ تھی
ورنہ وہ آنکھ اِتنی زیادہ خفا نہ تھی
یُوں دِل لرز اُٹھا ہے کسی کو پُکار کر
میری صدا بھی جیسے کہ میری صدا نہ تھی
میری صدا بھی جیسے کہ میری صدا نہ تھی
برگِ خِزاں جو شاخ سے ٹوُٹا وہ خاک تھا
اِس جاں سُپردگی کے تو قابل ہَوا نہ تھی
اِس جاں سُپردگی کے تو قابل ہَوا نہ تھی
جُگنو کی روشنی سے بھی کیا کیا بَھڑک اُٹھی
اِس شہر کی فِضا کہ چراغ آشنا نہ تھی
اِس شہر کی فِضا کہ چراغ آشنا نہ تھی
مرہونِ آسماں جو رہے، اُن کو دیکھ کر
خوش ہُوں کہ میرے ہونٹوں پہ کوئی دُعا نہ تھی
ہر جسم داغ داغ تھا، لیکن فراز ہم
بدنام یُوں ہُوئے کہ بَدن پر قبا نہ تھی
خوش ہُوں کہ میرے ہونٹوں پہ کوئی دُعا نہ تھی
ہر جسم داغ داغ تھا، لیکن فراز ہم
بدنام یُوں ہُوئے کہ بَدن پر قبا نہ تھی
احمد فراز