سوال: فیض کے بعد آپ کہاں رکتے ہیں؟
فراز:فیض کے بعد تو کچھ لوگ اچھے چلے گئے۔ کچھ لوگ ان دنوں اچھے لگتے تھے اب اچھے نہیں لگتے۔ لیکن کچھ ہی لوگ ہوتے ہے جو وقت کی آزمائش پر پورے اترتے ہیں، اور ساتھ ساتھ چلتے ہیں، لیکن ایسے کم ہی ہوتے ہیں۔ جیسے میں نے شروع میں کہا کہ مجھے ساحر بہت پسند تھا لیکن بعد میں پتہ چلا فیض اہم ہیں۔ اس طرح غالب کو پڑھتے تھے پھر بیدل پڑھا تو وہ مجھے اونچا لگا لیکن اس سے غالب کا رتبہ کم نہیں ہوا بلکہ ان کا جو مقام تھا وہ وہیں نہیں رہا۔ باقی کا یہ کہ آج آپ نے ایک چیز پڑھی اچھی لگی دو چار دن بعد پڑھی تو وہی چیز اچھی نہیں لگی۔ تو وہ جو مستقل قدر رکھنے والے ہوتے ہیں وہ وہی دو تھے اور ہیں۔
سوال: آپ نے غزلیں زیادہ کہی ہیں؟
فراز:نہیں ایسا نہیں ہے۔ غزلیں بھی ہیں نظمیں بھی۔ کبھی یہ سوچ کر کچھ نہیں لکھا کہ آج غزل لکھنی ہے اور آج نظم لکھنی ہے۔ بس کبھی کسی موضوع نے گرفت میں لے لیا کبھی کسی لائن نے۔ ابھی میری یہ کتاب جس کا میں نے ذکر کیا ہے ’اے عشقِ جنوں پیشہ‘ یہ اسی لیے رکی ہوئی ہے کہ میں اس موضوع پر نظم (تھیم پوئم) لکھنا چاہتا ہوں اور اب تک مجھ سے نہیں لکھی جا رہی۔ کئی بار میں نے لکھا اور پھاڑ دیا کیونکہ میں مطمعن نہیں ہوا۔ اسی لیے کتاب رکی ہوئی ہے۔ اسکی کمپوزنگ وغیرہ ہو چکی لیکن اسی وجہ سے کتاب رکی ہوئی ہے۔
سوال: کیا کبھی ایسے بھی ہوا ہے کہ لگتا ہے کہ غزل ہو جائے گی لیکن مطلع سے آگے نہیں چل کر دیتی؟
فراز:ایسا بھی ہوتا ہے۔ مثلاً میری مشہور غزل ’رنجش ہی صحیح دل ہی دکھانے کے لیے آ‘ میں نے اس کے تین شعر لکھے تھے اس کے بعد آگے شعر ہو کر نہیں دے رہے تھے۔
سوال: کون سے تین شعر پہلے ہوئے؟
فراز:پہلے تین شعر:
رنجش ہی صحیح دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے
اور ایک اور شعر۔ اس کے ایک سال بعد میں ٹرین میں کہیں جا رہا تھا۔ بالکل ٹھیک اسی طرح کی کیفیت پھر مجھ پر طاری ہوئی جیسی پہلے تین شعر لکھتے وقت تھی اور تین شعر میں نے اور لکھے۔ اس غزل میں مقطع بھی نہیں ہے۔ سٹیشن آ گیا۔ اتر جاؤ بھئی۔ تو وہی مسئلہ ہو گیا۔
سوال: حالانکہ کہ کوئی قافیہ ردیف کا مسئلہ بھی نہیں تھا؟
فراز:نہیں، نہیں، ایسی کوئی بات بھی نہیں تھی۔ بلکہ مہدی حسن نے اس میں کسی اور کے شعر ڈال دیے۔ میں نے اس سے کہا یہ کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا کہ ذرا لمبائی کم پڑ گئی تھی۔ میں نے کہا یہ کام مت کیا کرو میرے ساتھ۔
سوال: اور نظم کے لیے؟
فراز:نظم کے لیے بیٹھنا پڑتا ہے۔ زیادہ ڈسپلنڈ فارم آف پوئٹری ہے۔ غزل تو چلتے ہوئے، سفر کرتے ہوئے، ڈرائیو کرتے ہوئے، جہاز میں بیٹھے ہوئے، یہاں تک کہ سبزی خریدتے ہوئے بھی ہو سکتی ہے لیکن نظم کے لیے آپ کو لازماً کاغذ قلم اور بیٹھنے کی باقاعدہ جگہ درکار ہوتی ہے۔
سوال: نظم کیسے ہوتی، پہلے تصور یا ۔۔۔!
فراز:ہاں پہلے خیال یا تصور یا کوئی چیز چھوتی ہے۔ جیسے طلباء پر گولی چلی تو میں نے سوچا کہ فوجی یہ کیا کر رہے ہیں؟ تو ایسے شروع ہوتی ہے دو چار بند ہو گئے اور پھر اور لیکن مختلف چیزیں مختلف پراسس میں سے آتی اور ہوتی ہیں۔ میری ایک نظم تھی ’اظہار‘ کئی بار لکھی، لکھتا تھا پھاڑ دیتا تھا۔ لکھتا تھا پھاڑ دیتا تھا۔ لیکن وہ بات نہیں ہو رہی تھی جو میں چاہتا تھا۔ اب تو نہیں لیکن پہلے میں صبح میں سب سے پہلے چائے پیتا تھا اور اس کے ساتھ ہی سگریٹ شروع ہو جاتی تھی۔ آدھا پیکٹ تک۔ (دس سگریٹ) روزانہ لکھتا تھا اور پھاڑ دیتا تھا۔ ایک رات تین بجے تک یہی ہوتا رہا آخر میں تنگ آ کر سو گیا۔ صبح اٹھا، چائے کی پیالی پی اور اس کے ساتھ ہی ایسے وہ نظم آئی جیسے کوئی مجھے ڈکٹیشن دے رہا ہو۔ اوپر سے نیچے تک۔ بڑی مختصر سی نظم تھی لیکن اس کے مکمل ہوتے ہی اطمینان سا محسوس ہو۔ اب مجھے وہ نظم پوری طرح تو یاد نہیں لیکن کوشش کرتا ہوں۔ جتنی لائینیں بھی یاد آجائیں۔
پتھر کی طرح جو چپ ہوں
نہیں یاد رہی اب۔ مجھے اس نظم کا خیال آپ کے سوال سے آیا۔
سوال: کوئی ایسی نظم بھی ہے ، جو پوری طرح آپ آشکار ہو گئی ہو لیکن آپ لکھنے نہ بیٹھے ہوں اور پھر وہ نظم نہ ہوئی ہو اور رہ کر آپ کو اس کا خیال آتا ہو؟
فراز:ہاں، ہوتا ہے نظم کے ساتھ ہی نہیں غزل کے شعروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ ایک بار ایک شعر ہوا اس کے ساتھ ہی ایک دوست کا فون آ گیا اور اس نے کہا ’یار مجھے کوئی شعر سناؤ، مجھے کوئی تحفہ دو‘۔ میں نے اسے شعر سنا دیا۔ اس کے بعد وہ شعر میری یاد سے نکل گیا لیکن یہ خیال رہا کہ ایک شعر تھا جو ہوا تھا اور میں نے اسے اپنے اس دوست کو سنایا تھا۔ بہت دن بعد جب اس کا فون آیا تو میں نے اسے کہا کہ میں اس روز تمہیں جو شعر سنایا تھا کیا تمہیں وہ یاد ہے ۔ اس نے جواباً مجھے کہا کہ تم نے شعر کہا تھا تمہیں یاد ہونا چاہیے۔ میں نے کہا کہ مجھے بس اتنا یاد ہے کہ میں نے ایک شعر کہا تھا اور تمہیں سنایا تھا اس کے علاوہ مجھے کچھ یاد نہیں۔ اس نے مجھے وہ شعر سنا دیا۔ دیکھیں اب یاد آ جائے:
معلوم ہے اس کو میری تاکید کی عادت
قاصد ہے کہ خط لے کے روانہ نہیں ہوتا
تو غزل میں یاد کرنے کے کی سہولتیں بھی ہیں لیکن نظم کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ اسے لکھ نہ لیا جائے تو ذہن سے نکل جاتی ہے۔ ذرا سی بھی بے التفاتی برتیں تو چلی جاتی ہے۔ ایک بار میری کینیڈا میں بحث ہو گئی مجروح سلطان پوری سے۔ وہ فیض صاحب کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیض نے جو چیزیں لکھی ہیں وہ انہوں نے ان سے پہلے لکھی تھیں۔ جیسے ’رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ‘۔ میں نے ان سے کہا کہ مجروح صاحب کتنے سال ہو گئے ہیں آپ کو فلم انڈسٹری میں گئے؟ انہوں نے کہا کہ تیس سال ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا: تیس سال تو بیوی بھی بے نیازی برداشت نہیں کرتی اور شاعری تو محبوبہ ہوتی ہے۔ آپ کچھ بھی کریں شاعری فل ٹائم کام ہے۔ آپ کوئی کام کرتے ہوں، پتھر کوٹتے ہوں دفتر میں کام کرتے ہوں شاعری کا عمل جاری رہتا ہے۔ جیسے چشمہ پھوٹنے کے لیے راستہ تلاش کرتا رہتا اسی طرح شاعری بھی راستہ تلاش کرتی رہتی ہے۔ دکھ ہو خوشی ہو۔ خوشی میں تو کم ہی ہوتا ہے لیکن دکھ میں ہوتا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/specials/1023_likhari_fz_sen/page4.shtml