احمد فراز کا یوم پیدائش

نظام الدین

محفلین
احمد فراز
آج 4 جنوری پاکستان کے مشہور و معروف شاعر احمد فراز کا یوم پیدائش کا دن ہے۔ وہ 4 جنوری 1931ء کو پاکستان کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ ایڈورڈ کالج (پشاور) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لئے فیچر لکھنے شروع کئے۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’تنہا تنہا‘‘ شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے۔ ان کے دوسرے مجموعہ ’’درد آشوب‘‘ کو پاکستان رائٹرز گڈز کی جانب سے ’’آدم جی ادبی ایوارڈ عطا کیا گیا، 1976ء کو اکادمی ادبیات پاکستان کے پہلے سربراہ مقرر ہوئے۔ بعد ازاں جنرل ضیاء کے دور میں انہیں مجبوراً جلاوطنی اختیار کرنی پڑی۔
آپ 2006ء تک ’’نیشنل بک فاؤنڈیشن‘‘ کے سربراہ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی انٹرویو کی پاداش میں انہیں ’’نیشنل بک فاؤنڈیشن کی ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ احمد فراز نے 1988ء میں ’’آدم جی ادبی ایوارڈ اور 1990ء میں ’’اباسین ایوارڈ‘‘ حاصل کیا۔ 1988ء میں انہیں بھارت میں ’’فراق گورکھ پوری ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ اکیڈمی آف اردو لٹریچر (کینیڈا) نے بھی انہیں 1991ء میں ایوارڈ دیا جب کہ بھارت میں انہیں 1992ء میں ’’ٹاٹا ایوارڈ‘‘ ملا۔
ان کا کلام علی گڑھ یونیوسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ جامعہ ملیہ (بھارت) میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع ’’احمد فراز کی غزل‘‘ ہے۔ بہاولپور میں بھی ’’احمد فراز، فن اور شخصیت‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا۔ ان کی شاعری کے انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگوسلاوی، روسی، جرمن اور پنجابی میں تراجم ہوچکے ہیں۔ 2004ء میں انہیں ہلال امتیاز سے نوازا گیا لیکن انہوں نے یہ تمغہ سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کردیا۔


اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

جو چل سکو تو کوئی ایسی چال چل جانا
مجھے گماں بھی نہ ہو اور تم بدل جانا

نیند تو کیا آئے گی فراز
موت آئی تو سولیں گے
احمد فراز کا انتقال 25 اگست 2008ء میں ہوا۔
۔۔۔۔
(1)

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا

وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے، گزر جائے گا

اتنا مانوس نہ ہو خلوتِ غم سے اپنی

تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا

تم سرِ راہِ وفا دیکھتے رہ جاؤگے

اور وہ بامِ رفاقت سے اتر جائے گا

زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا

تیری بخشش تری دہلیز پر دھر جائے گا

ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں

میں نہیں، کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز

ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مرجائے گا


(احمد فراز)


(2)

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی

یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں

غم دنیا بھی غم یار میں شامل کرلو

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا

دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

اب نہ وہ ہیں، نہ وہ تو ہے، نہ وہ ماضی ہے فراز

جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں


(احمد فراز)



(3)

خاموش ہو کیوں، دادِ جفا کیوں نہیں دیتے

بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے

وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے

مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے

اک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے

اے چارہ گرو، درد بڑھا کیوں نہیں دیتے

منصف ہواگر تم تو کب انصاف کروگے

مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے

رہزن ہو تو حاضر ہے متاعِ دل و جاں بھی

رہبر ہو تو منزل کا پتہ کیوں نہیں دیتے

کیا بیت گئی اب کے فراز اہلِ چمن پر

یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے

(احمد فراز)
 
Top