احمد فراز کی آخری غزل یا احمد فراز پر آخری تہمت

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہ غزل میں کافی عرصے سے پڑھ رہا تھا انٹرنیٹ پہ:

غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی

کوئی ازل سے کہ دے رُک جاؤ دو گھڑی
سنا ہے کہ آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی

وہ اس ناز سے بیٹھے ہیں لاش کے پاس
جیسے رُوٹھ ہوئے کو منا رہا ہے کوئی

پلٹ کر نا آ جائے پھر سانس نبضوں میں
اتنے حسیں ہا تھوں سے میٹ سجا رہا ہے کوئی​
مگر آج اس غزل کے حوالے سے ایک مضمون پڑھنے کو ملا۔ آپ بھی پڑھئے اور اپنی رائے دیجئے

احمد فراز کی آخری غزل یا احمد فراز پر آخری تہمت
اگر شاعر نئی نئی باتیں سوچنے پر قادر ہیں تو زمانے والے ان پر ستم کرنے کے نئے نئے انداز بھی ایجاد کرتے رہتے ہیں۔
انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سے استفادہ کرتے ہوئے جس استاد شاعر کے نام کے ساتھ اپنے شعر نما جملوں کی تہمت سب سے زیادہ باندھی گئی ہے ان میں احمد فراز سر فہرست ہیں۔

جانِ فراز پر مداحوں کے بے پناہ ستم تو نظروں سے گزرتے ہی ہیں مگر آج یہ غزل نظر سے گزری۔
ملاحظہ فرمائیے۔

غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی

کوئی ازل سے کہ دے رُک جاؤ دو گھڑی
سنا ہے کہ آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی

وہ اس ناز سے بیٹھے ہیں لاش کے پاس
جیسے رُوٹھ ہوئے کو منا رہا ہے کوئی

پلٹ کر نا آ جائے پھر سانس نبضوں میں
اتنے حسیں ہا تھوں سے میٹ سجا رہا ہے کوئی

اب بہت ہی بعید ہے کہ یہ غزل موجودہ حالت میں احمد فراز کی ہو۔ اس میں تو عام سی غلطیاں نمایاں ہیں۔ مگر شومئی قسمت ان کے نام پر اتنی مشہور ہو گئی کہ اگر اب وہ خود بھی کہیں کہ یہ غزل میں نے نہیں لکھی تو کوئی نہیں مانے گا۔
یہ غزل بے وزن ہے۔
فراز کے معیار سے کافی زیادہ نشیب میں ہے۔
اگر یہ غزل فراز صاحب کی ہے بھی تو پھر کمپوز کرنے میں کافی غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔
اگر اس غزل کو موزوں کرنے کی کوشش کی جائے تو کچھ یوں بنے گی
غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے بھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی

کہو یہ موت سے رُک جائے دو گھڑی کے لیے
سنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی

کچھ ایسے ناز سے بیٹھے ہیں میری لاش کے پاس
کہ جیسے رُوٹھے ہوئے کو منا رہا ہے کوئی

پلٹ کر آ ہی نہ جائے یہ سانس نبضوں میں
حسین ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئی
چنانچہ اس پر کئی سوال پیدا ہوتے ہیں
ہمارے ادبی صفحات ، انجمنیں ، ویب سائٹس اس بات کا خیال کیوں نہیں رکھتے کہ جس چیز کو احمد فراز کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے وہ ان کے معیار کی ہے بھی کہ نہیں۔ کیا کسی ایٹمی سائنسدان کا تعارف آپ یوں کروانا چاہیں گے کہ یہ غلیل بھی اسی نے ایجاد کی تھی؟
کیا یوں اس ایٹمی سائنسدان کا رتبہ بلند ہو گا؟
اگر نہیں تو پھر غیر معیاری کلام یا کتابت کی خامیوں سے بھرپور کلام کو ایک بلند پایہ شاعر سے منسوب کر کے ادب کی خدمت کی جا رہی ہے یا بے ادبی

نوٹ : اگر آپ کو اس غزل کا ریفرنس پتہ ہو تو ضرور راہنمائی کیجیے۔ شکریہ
اس مضمون کا لنک یہ ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین

شاہد شاہنواز

لائبریرین
غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی۔۔
چلے بھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی۔
شاید یہ غزل فراز ہی کی ہے، لیکن بات ایک سے دوسرے تک پہنچتے پہنچتے کیا سے کیا ہوجاتی ہے، یہی اس کے ساتھ بھی ہوا ہے۔۔۔۔
برمحل بھی ہے اور فراز جیسے شاعر سے اس کی امید کی بھی جاسکتی ہے۔۔۔
پروین شاکر نے بھی تو لکھا تھا
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
 
بھائی فراز کی ہے تو فراز کے شعری مجموعے میں موجود ہونی چاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو مان لیجئے کے یہ فراز کی تخلیق نہیں ہے۔
کیونکہ یہ غزل بہر حال وزن سے خارج ہے۔ ایسا بہت ہوتا ہے کہ ایک شاعر سیلولر نیٹورک پر کوئی غزل فارورڈ کرتا ہے اور کوئی دوسرا اسےاپنی بنا کر پیش کر دیتا ہے۔ یا جسے کچھ نہ سمجھ آئے وہ اقبال، غالب، فراز اور وصی وغیرہ کا نام استعمال کر دیتے ہیں۔
میری بیسیوں غزلیں ایسی ہیں جنہیں اب اگر میں اپنا کہوں تو ممکن نہیں کہ کوئی مان لے۔
موبائل نیٹ ورکس پر چیزیں جتنی تیزی سے پھیلتی ہیں اسکا اندازہ کرنے کے لئے مذکورہ بالا غزل ہی کافی ہے۔
پھر سیلولر سوشل نیٹورکس میں ufone sms buddies, zong buddies chat, pring, MC اور SMS-all چیٹ سروسز پورے پاکستان میں ہر ہر جگہ پھیلی ہوئی ہیں ۔ اور اثر انکا یہ ہے کہ ایک ایس ایم ایس بھیج دیجئے تو اسی وقت پورے ملک میں پہنچتا ہے۔
تو یہی کچھ فراز کے ساتھ بھی ہوا اور بے شمار اشعار اور غزلیات انکے نام سے منسوب کی گئی ہیں۔
یا پھر ایسے شعرا جو ابھی ابتدائی منازل طے کر رہے ہوتے ہیں انکی تخلیقات چوری ہوجاتی ہیں جو میرے ساتھ بھی ہو چکا۔
یہ کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ باقی اہل فن جانتے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بلال بھائی! میرا خیال ہے کہ یہ غزل فراز کی نہیں ہے کیونکہ نہ تو یہ شاعری کے معیار پر پوری اُترتی ہے نہ ہی فراز کے معیار پر۔
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ غزل ہندوستانی غزل گائیک بھوپندر سنگھ نے گائی ہے۔ آپ یہ غزل یہاں سے ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں۔
اشعار کچھ اس طرح ہیں:

غمِ حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے بھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
کہو اجل سے ذرا دو گھڑی ٹھہر جائے
سُنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی
وہ آج لپٹے ہیں کس نازکی سے لاشے کو
کہ جیسے روٹھے ہوؤں کو منا رہا ہے کوئی
کہیں پلٹ کہ نہ آ جائے سانس نبضوں میں
حسین ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئی

یقیناً یہ غزل فراز کی نہیں ہے۔

عجیب 'بے ہودہ' قوم ہے ہماری کہ ہر چیز کے پیچھے آنکھیں بند کرکے چل دیتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری اکثریت کے معیارات بہت پست ہیں اور وہ عمدہ اور ناقص چیز میں تمیز ہی نہیں کر سکتے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میں کافی عرصے سے یہ غزل پڑھ رہا تھا
اور کل شہزاد قیس صاحب کا پیج وزٹ کیو تو سوچا کہ یہاں بھی دھاگہ بنا دوں، مزید معلومات بھی مل جائیں گی۔
کیا ہو گیا ہے اس قوم کو۔

آپ سب نے درست فرمایا
کہاں فراز سا شاعر اور کہاں یہ غزل
کوئی سخن برائے قوافی نہیں کہا
ایک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ویسے جس طرح ناصر کاظمی یا اور شعراء کا غیر مطبوعہ کلام ہوتا ہے تو اسی طرح احمد فراز کا بھی کلام غیر مطبوعہ ہو گا۔
کیونکہ میرے خیال میں احمد فراز کی آخری کتاب 2007 میں چھپی تھی، اور 25 اگست 2008 تک وہ ہمارے درمیان موجود تھے۔
اس عرصے میں شاید انہوں نے ایک ہی بڑا مشاعرہ پڑھا تھا اور وہ "ہیوسٹن امریکہ" میں جو شاید جون یا جولائی 2008 میں "شامِ فراز" کے نام سے منعقد کیا گیا تھا، لیکن اس مشاعرہ میں بھی انہوں نے تمام مطبوعہ غزلیں ہی پڑھیں تھیں۔
جس میں سے زیادہ تر تو "اے عشق جنوں پیشہ" میں شامل ہیں، اور ایک نظم "محاصرہ" پڑھی تھی اور اختتام انہوں
نے اس غزل پہ کیا تھا، "سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے"۔
تو کیا ان کا کوئی بھی غیر مطبوعہ کلام نہیں ہے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے جس طرح ناصر کاظمی یا اور شعراء کا غیر مطبوعہ کلام ہوتا ہے تو اسی طرح احمد فراز کا بھی کلام غیر مطبوعہ ہو گا۔
کیونکہ میرے خیال میں احمد فراز کی آخری کتاب 2007 میں چھپی تھی، اور 25 اگست 2008 تک وہ ہمارے درمیان موجود تھے۔
اس عرصے میں شاید انہوں نے ایک ہی بڑا مشاعرہ پڑھا تھا اور وہ "ہیوسٹن امریکہ" میں جو شاید جون یا جولائی 2008 میں "شامِ فراز" کے نام سے منعقد کیا گیا تھا، لیکن اس مشاعرہ میں بھی انہوں نے تمام مطبوعہ غزلیں ہی پڑھیں تھیں۔
جس میں سے زیادہ تر تو "اے عشق جنوں پیشہ" میں شامل ہیں، اور ایک نظم "محاصرہ" پڑھی تھی اور اختتام انہوں
نے اس غزل پہ کیا تھا، "سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے"۔
تو کیا ان کا کوئی بھی غیر مطبوعہ کلام نہیں ہے؟

ممکن ہے کہ ہو لیکن کلام خود بتادے گا کہ وہ فراز کا ہے کہ نہیں!

بقول فراز:

کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ممکن ہے کہ ہو لیکن کلام خود بتادے گا کہ وہ فراز کا ہے کہ نہیں!

بقول فراز:

کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے​

پھر تو جناب سرمد فراز صاحب سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، ان کو لازمی علم ہو گا۔ وہ فراز صاحب کے برخوردار ہیں۔
 
Top