احمد فراز کی حسِ مزاح اور پچھتاوے از افتخار نسیم

Dilkash

محفلین
احمد فراز کی حسِ مزاح اور پچھتاوے

افتی نامہ۔۔۔۔از افتخار نسیم۔۔بشکریہ روزنامہ آج پشاور

احمد فراز کی پہلی برسی آئی اور چلی گئی‘ چند لوگوں نے اسے یاد کیا ،کشور ناہید ٹی وی پر اس کی بیوہ بن کر واویلا کرتی رہی، شبلی اور ان کا بیٹا ٹی وی پر اپنی پندرہ منٹ کی شہرت لے کر غائب ہو گئے۔ اشفاق احمد (کینیڈا) نے ایک انتہائی واہیات آرٹیکل لکھا۔اشفاق احمد کا کوئی قصور نہیں، وہ پچھلے تیس سال سے فیض صاحب اور جو بھی اس کے پاس کبھی ٹھہرا، اس نے یہی کچھ کیا ہے پھر اس پر کتاب لکھ کر اردو ادب میں شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

کراچی کے اہل ادب نے جو شکاگو میں یا اطراف میں رہتے تھے ،انہوں نے فراز صاحب کی خیریت پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بقول سعید خان( آسٹریلیا کے) ایم کیو ایم کا ایجنڈا تھا کہ فراز صاحب کو بالکل نہ پوچھا جائے کیونکہ انہوں نے جنرل مشرف کے خلاف بہت کچھ کہا ہے اور ایک شاعر نما شخص جو کیلیفورنیا میں شاعری کی این جی او چلاتا ہے ،اس کے مطابق کیونکہ فراز صاحب کراچی والوں کو شاعر ہی نہیں مانتے تھے، اس لئے ہم ان کیلئے کچھ نہیں کریں گے ۔پشاور کے ایک ڈاکٹر جو ہر وقت پشاور پشاور کرتے رہتے ہیں

انہوں نے ہسپتال میں ان کی خیریت تک پوچھنا گوارا نہیں کی، میں ہر روز فراز ہیلتھ بلیٹن ای میل کے ذریعے بھیجتا تھا مگر’’ زاویہ‘‘ رسالے کے ایڈیٹر ارشاد صدیقی نے’’ زاویہ‘‘ میں اپنے ایڈیٹوریل میں میرا نام تک نہیں لکھا ،ہر کوئی اپنے آپ کو فراز صاحب کے نام پر کیش کرتا رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ فراز صاحب کسی کو شاعر ہی نہیں سمجھتے تھے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ فراز صاحب کے مقابلے میں اس دور میں ایسا کوئی شاعر نہیں ہے جو ان کا مقابلہ کر سکے، آپ سیریس ادب میں حاسد ہو کر بھلے ان کا نام نہ لیں لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے

فراز جیسا شاعر اردو ادب کے اس دور میں کوئی نہیں، اگر آپ عوامی شہرت اور معاشروں کی داد کو بھی پیمانہ بنا لیں، فراز اس میں بھی سب شاعروں سے آگے تھے۔ کسی کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ فراز صاحب میں حس مزاح بہت زیادہ تھی، فقرے بازی میں وہ باکمال تھے ۔ کشور ناہید سے ان کا محبت /نفرت کا رشتہ تھا ،ایک دن ’’شام کے بعد مجھے کہنے لگے کشور ناہید کو کال کرو، میں نے کہا کشور ناہید تو اُردو ادب کی مدرٹریسا‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا ،اس میں ذرا تبدیلی کر لو، وہ ’’مدر ٹریسا ‘‘نہیں’ ’مدر حریصہ‘‘ ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’’افتی مجھے دو پچھتاوے ہیں

ایک یہ کہ ایک دوست کی بیوی لندن کی ایک محفل میں میرے پیچھے پڑی ہوئی تھی، میں نے دوست کی بیوی سمجھ کر اسے چھوڑ دیا۔ دوسرا پچھتاوا یہ ہے کہ میں نے کشور ناہید کے ساتھ۔۔۔۔۔! احمد فراز نے افتخار عارف کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی تھی ،حقیقت یہ ہے فراز صاحب کی بیماری کی اطلاع اور میرا فون نمبر اور ای میل سب کو افتخار عارف نے ہی دیا۔ شرافت کے یہ نمونے اور ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں۔ فراز صاحب واشنگٹن میں ڈاکٹروں کی ایک فنڈ ریزنگ میں بیٹھے ہوئے تھے ،عابدہ پروین گا رہی تھی، ایک بیہودہ سا ڈاکٹر کہتا ہے۔

یار گانے کیلئے بلانا تھا تو کسی خوبصورت عورت کو بلاتے، فراز صاحب نے ایسا پرمزاح جواب دے دیا کہ اس کی سٹی گم کردی۔ بات یہ ہے کہ فراز صاحب نے خود بھی کبھی پشاور کے شاعروں کو پروموٹ نہیں کیا بلکہ وہ انہیں کمتر سمجھتے تھے۔ پشاور تو کیا وہ تو تمام شعراء کو کمتر سمجھتے تھے، پشاور میں غلام محمد قاصر جیسا شاعر تھا ،جس کو خود پشاور نے بُری طرح اگنور کئے رکھا ،خاطر غزنوی کے مشہور مطلع کو تو انہوں نے ہمیشہ اپنا مطلع کہا،ایک دن میں نے کہا فراز صاحب آپ نے اتنے خوبصورت شہرت یافتہ شعر کہے ہیں ،ایک مطلع ہے ،کیا ہو جاتا ہے، جس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

پنجابی کے مشہور مزاحیہ شاعر عبیر ابوذری شاعری سنا رہے تھے، جس کا ایک شعر کچھ یوں تھا کہ پولیس کو چور کہیں تو کیا فائدہ، بعد میں بدن پر ٹکورکریں تو کیا فائدہ، فہمیدہ ریاض نے فراز صاحب سے پوچھا ،اس کا ترجمہ کیا ہے۔ فراز صاحب نے کہا ،اس کا ترجمہ نہیں، تجربہ ہو سکتا ہے۔ نیویارک کے مشہور شاعر مامون ایمن سفید اچکن شلوار اور ٹوپی پہن کر مشاعرے میں داخل ہوئے تو فراز صاحب نے کہا ،بچوں کے قائداعظم کو کس نے مشاعرے میں بلایا ہے۔ فراز صاحب کے ساتھ سات بجے کے بعد کی دوستی خطرناک ثابت نہیں ہو سکتی تھی۔

فراز صاحب جب شکاگو میں شدید بیمار ہو گئے، ان کے دوست ڈاکٹر نسیم خواجہ، ڈاکٹر مرتضیٰ آرائیں نے ان کی بہت خدمت کی۔ نیویارک میں ان کے میزبان ڈاکٹر شفیق خاص طور پر تشریف لائے اور میرے پاس ٹھہرے ،واشنگٹن سے ڈاکٹر عطیہ خان آئیں کیونکہ شکاگو میں ان کا فیملی نمائندہ اس وقت میں ہی تھا، شبلی کے آنے تک۔ مگر شبلی نے بھی کہا کہ میں ہی پریس اور سب سے بات کروں، ہسپتال میں ،میں نے شبلی سے کہا کہ وہ کوئی دیسی کھانا کھانا چاہتا ہے تو بتا دے۔

اس نے کہا کہ وہ ویجیٹرین ہے، میں نے حیران ہو کر اس سے کہا کہ شکل سے تو تم آدم خور لگتے ہو، فراز نہ تو بات کر سکتے تھے اور نہ ہی ہل سکتے تھے، بھارت اور پاکستان یورپ سے بے تحاشا ای میلیں اور فون آتے ہیں، کیلیفورنیا سے عینی اختر اور نیویارک سے صبیحہ صبا روز کالیں کرتی تھیں اور بہت محبت سے ان کے بارے میں پوچھتی تھیں ۔بقول حسن عباس رضا کے فراز ان کے بہت اچھے دوست تھے، میں اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ نیویارک میں دونوں سے کافی ملاقاتیں رہتی تھیں، اس نے بتایا کہ فراز صاحب نے ایک شعر لکھا۔’’کل رات ہم نے فضل تعالیٰ شراب پی‘‘۔بعد میں اس کو تبدیل کر دیا۔

کل رات ہم نے حد سے زیادہ شراب پی

ایک دن فراز صاحب اپنے ایک دوست کے گھر گئے، اس کے ملازم نے کہا، صاحب سیر سور کرنے گئے ہیں۔ فراز نے کہا ،اس کو درست کر لو۔’’ سور سیر کرنے گئے ہیں‘‘۔ میڈم نورجہاں سے فراز نے پوچھا ،میڈم آپ نے کتنے عشق کئے ہیں۔ میڈم نہ نہ کرتی رہیں، فراز نے کہا، میڈم نہ نہ کرتے ہوئے بھی آپ کے تیرہ عشق ہو گئے ہیں۔ فراز صاحب ایک انسان تھے، بشری کمزوریاں بھی تھیں، ان کے دوست بہت کم تھے

مداح بہت تھے اور مداح جیسا کوئی Fickle شخص نہیں ہوتا ۔فراز صاحب کو حاسد لگتا ہے ورثے میں ملے تھے ،کچھ انہوں نے خود بنا لئے تھے ،فراز نے کبھی کسی کی پرواہ نہیں کی تھی ،میں ان کا برخوردار تھا، خادم تھا لیکن میرے ساتھ ان کا سلوک دوستانہ تھا بلکہ کبھی کبھی بہت ہی دوستانہ ہو جانے کی حد تک ہو جاتا تھا مگر مجھے اپنی حدود کا علم تھا، وہ میرے ابا مرحوم کے دوست تھے، میں ان کی شاعری کا تو مداح تھا اور ان کی حسِ مزاح کا بہت مداح تھا ،وہ بھی شاید یہی خوبصورت رشتہ میرے ساتھ رکھتے تھے ،انہوں نے کئی بار پبلک میں میری شاعری کے مداح ہونے کا اعتراف کیا مگر میں نے ہمیشہ اسے ان کی عظمت جانا کیونکہ ’’کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا‘‘۔

احمد فراز جیسے شاعر اور انسان بہت کم پیدا ہوتے ہیں ،بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ شاید اس قابل نہیں رہا کہ ہم ان کی عظمت کا اعتراف کر سکیں۔
 

Dilkash

محفلین
از ڈاکٹر ظہور اعوان۔۔۔دل پشوری

باتیں کرتے جاؤ

آج کل ٹی وی پر مختلف ترغیب افروز پیکجز آرہے ہیں یعنی سارے کا م چھوڑ دو ، سکول جاؤ نہ کالج ، دفتر نہ دکان پر صرف فون کرو اور رات کا سونا تو بالکل ہی ختم کر دو کیونکہ رات بارہ بجے سے صبح چھ تک فلاں کمپنی مفت کال پیش کرتی ہے ۔ میں سوچتا ہوں کہ آدمی دنیا کا ہر کام چھوڑ سکتا ہے مگر نیندکیسے چھوڑ سکتا ہے وہ بھی ٹیلی فون کی خاطر اور فون بھی کیسا نور سنگا اے ، نور سنگا اے۔

اگر محبوبہ کو بھی رات بھر فون کرنی ہے تو اس بے چاری نے صبح اٹھنا ہے ، سکول کالج ہسپتال دفتر جانا ہے ، کوئی ہنڈیا ترکاری پکانی ہے ، شادی شدہ ہے تو بال بچوں کی دیکھ بھال کرنی ہے ، ناکتخداہے تو پھر اس نیک بخت نے کچھ کام تو کرنا ہوگا ، مگر ہمارے اشتہا فروشوں کی بس ایک ہی رٹ آدمی رات اٹھ کر فون کریں اور کرتے جائیں یہاں تک کہ صبح ہو جائے

یہ فون بازی چند نودولتیے بگڑے ہوئے لڑکوں ، لڑکیوں کا مسئلہ تو ہو سکتا ہے عام 99 فیصد پاکستان کو اس سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ، یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی اس لئے ایسے اشتہا دیکھ کر بس مسکرا دیتا ہوں، آج کل دنیاایک اشتہا بن گئی ہے، صبح و شام آپ کو ایسی اور اتنی چیزیں دکھائی جائیں گی جن کی آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہوتی اور جن کے بغیر پوری زندگی مزے سے گزر سکتی ہے ، جب یہ مرغوبات پیدا نہیں بھی کی گئی تھیں تب بھی لوگ مزے میں تھے مگر اب سینے پر سوار ہو کر فلموں اور ڈراموں کی پھکی ہاجمولا کے ذریعے زبردستی کھلائی اور پلائی جاتی ہے

آدھے گھنٹے کے پروگرام میں 20 منٹ کے اشتہار ہوتے ہیں ، آپ اشتہاروں کے دوران جا کر ہانڈی پکا سکتے ہیں ، نہا سکتے ہیں ، کتاب کا ایک باب پڑھ سکتے ہیں ، پھر بھی واپس آئیں تو اشتہار ختم نہیں ہوئے ہوں گے ، ایسا لگتا ہے سارا ٹی وی سسٹم اشتہاروں کیلئے ہی کھلا ہے، ایک گھنٹے تک چینل بدلتے جائیں ایک پروگرام کا ایک منٹ ہاتھ نہیں آئے گا ۔

ان اشتہاروں کی وجہ سے لوگوں نے ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا ہے اور ڈی وی ڈی کو فروغ ملا ہے ۔ٹی وی پر ایک چینل آتا تھا ہال مارک مگر اب اسے بند کر دیا گیا ہے اس میں اشتہارات نہیں آتے تھے میں تو اسے ہی دیکھتا تھا یہ برطانیہ کا چینل تھا اور اشتہار آتے بھی تھے تو آخری یا شروع میں تھوڑے بہت آجاتے ہیں، اس عالم میں آدمی کیا کرے فضول کی چیزیں خریدنے سے تو وہ رہا مجبوراً سیاسی چینلوں پر کھلی سیاسی دکانوں کی طرف بڑھتا ہے وہاں صرف حکومت کے گرانے کی باتیں ہوتی ہیں

نان ایشوز پر دانشور مغز ماریاں کرتے دکھائی دیتے ہیں ان کو دیکھ کر مجھے جوناتھن سوفٹ بہت یاد آتا ہے اس کا جہاز ایک دفعہ راستہ بھول کر ایک ایسے جزیرے میں جا پہنچتا ہے جس میں ازکا ر رفتہ فلاسفر اور سائنسدان رہ رہے ہوتے ہیں جو صبح و شام کھیرے سے کھیر اور پتھر سے پھول بنانے میں لگے ہوتے ہیں ہمارے یہ سیاسی چینل بھی کسی معمولی واقعے کو پکڑ کر اس کا ایسا کچومر نکالتے ہیں کہ نہ ایشو رہتا ہے نہ دیکھنے والا اور آخر میں یہ دانشور اپنے حصے کا چیک کھیسے میں ڈال کر کھی کھی کرتے رخصت ہوتے ہیں ان چینلوں پر جس دوم درجے کی سیاسی قیادتوں کو بلایا جاتا ہے

وہ اول آکر ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں حال احوال پوچھتے ہیں جب کیمرہ آن ہوتا تو بلیوں کی طرح لڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی وہ خبر لیتے ہیں کہ اللہ دے اور بندہ لے ، آدمی سمجھتا ہے یہ سچ مچ لڑ رہے ہیں مگر جونہی کیمرہ آف ہوتا ہے پھر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ایک دوسرے سے سماجی محبت و مروت ،جگری باتیں کرنے لگتے ہیں ،گویا یہ لڑائی جھگڑے کا ڈرامہ عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے سجایا گیا ہوتا ہے، یہ سب اندر سے ایک ہیں سب کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ عوام کو مزید بے وقوف کس طرح بنایا جائے

کس طرح حکومت کے اندر لوگ حکومت کی باتوں کا اندھا دفاع کرتے ہیں اور کس طرح حزب اختلاف کے لوگ بڑھ بڑھ اور چڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پر جھپٹتے ہیں ان سے علاج پوچھو تو علاج ندارد، بس یہی کہ یہ حکومت چلی جائے اور ہم آجائیں تو دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں ۔ پاکستان میں جو کچھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے موجودہ حکمرانوں کے ہاتھوں ہی ہو رہا ہے ہر سیاست دان اپنے ماضی اور معافی کو بھول جاتا ہے اپنے فرار اور کرتوتوں کو فراموش کر دیتا ہے ، عوام کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اگر یہ سب عوام کے اتنے ہی وفا دار ہیں اور ان کا ایجنڈا عوام کی خدمت ہے تو یہ سب اکٹھا کیوں نہیں ہو جاتے

سو سیاسی چینلوں کا یہ حال ہے انٹرٹینمنٹ چینلز کو اشتہار چمڑے ہوتے ہیں ، عوام کریں تو کیا کریں ، ٹی وی کھول کر دیکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ زندگی کا حصہ بن گیا ہے اس لئے فی الحال عوام انڈین چینلز پر گزارا کرتے ہیں کہ کم از کم وہ دم کٹے سیاست دان ایک دوسرے کی نوچ کھسوٹ تو نہیں کر رہے ہوتے ، الزامات کی بارش تو نہیں ہوتی ، انڈین اشتہاروں کا معیار بھی پاکستان کے اشتہاروں سے بدرجہا اچھا ہے

کم از کم اپنے ملک کو گالیاں دینے اور ہر وقت حکومت کو گرانے کی باتیں تو نہیں ہوتیں ، افسوس کہ ہمارے عوام انگریزی سے نابلد ہیں ورنہ ان دنیاؤں میں دیکھنے اور سننے کیلئے کیا کچھ نہیں ہوتا ، آدمی کو انگریزی آتی تو پھر لحظہ بھر کیلئے ٹی وی سے جدا نہیں ہوتا ، میں ایسا ہی کرتا ہوں اس لئے بڑی حد تک پہ قلار ہوں ۔ پاکستانی خبروں کی جھلکیاں دوسرے دن کے اخبارات میں دیکھ لیتا ہوں سیاست دانوں کو دیکھنے کا شوق چراتا ہے تو بلیوں کو کوٹھے پر جا کر لڑتے دیکھ آتا ہوں جب حقیقی علمی معلوماتی اور تفریحی پروگرام Sitcom دیکھنے ہوتے ہیں تو اپنا ٹی وی کھول لیتا ہوں۔

Dated : 2010-01-23 00:00:00
 

فاتح

لائبریرین
سستی شہرت خریدنے کا آسان ترین نسخہ یہی ہے کہ مشہور مگر مرحوم افراد سے اپنے تعلقات کی داستانیں خوب نمک مرچ لگا کر شائع کی جائیں۔

فراز کے متعلق "افتخار نسیم" نامی ان حضرت کا مضمون پڑھ کر بے اختیار ابنِ انشا کا لکھا ہوا مزاحیہ مضمون، جس میں انھوں نے فیض احمد فیض اور اپنے ادبی تعلقات کی من گھڑت داستان لکھی ہے، یاد آ گیا۔

دورانِ مضمون کم از کم چار بار لکھا کہ فراز کسی کو شاعر ہی نہیں مانتے تھے یا تمام شعرا کو کمتر مانتے تھے اور آخری پیراگراف میں مضمون کے لب لباب کے طور پر فراز کا ان کی شاعری کا مداح ہونا ۔:laughing::laughing::laughing:
میں ان کا برخوردار تھا، خادم تھا لیکن میرے ساتھ ان کا سلوک دوستانہ تھا بلکہ کبھی کبھی بہت ہی دوستانہ ہو جانے کی حد تک ہو جاتا تھا مگر مجھے اپنی حدود کا علم تھا، وہ میرے ابا مرحوم کے دوست تھے، میں ان کی شاعری کا تو مداح تھا اور ان کی حسِ مزاح کا بہت مداح تھا ،وہ بھی شاید یہی خوبصورت رشتہ میرے ساتھ رکھتے تھے ،انہوں نے کئی بار پبلک میں میری شاعری کے مداح ہونے کا اعتراف کیا مگر میں نے ہمیشہ اسے ان کی عظمت جانا کیونکہ ’’کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا‘‘۔
کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں
 

mfdarvesh

محفلین
فراز کچھ متنازع ہیں جہاں‌تک مجھے پتہ ہے ان کے خیالات اسلام کے بارے میں کچھ اچھے نہیں تھے۔

باقی موبائل فون کے تو بڑے دیوانے ہیں۔ پوری پوری رات بات ہوتی رہتی ہے۔ بہت عاشق مزاج ہیں ادھر
 
فراز کا نام دیکھ کر آٰیا تھا اس دھاگہ پر اور دیکھا کہ ایک صاحب کے بقول فراز کسی کو شاعر ہی نہین مانتے تھے ، کسی قدر غلط اور نامناسب بات ہے۔

فیض‌کا تو مجھے یاد ہے اور میرا خٰیال ہے احمد ندیم قاسمی سے بھی کافی اچھے تعلقات تھے

آزاد منش انسان تھا ، کچھ خیالات متنازع ضرور تھے مگر وہ تو اکثر شعرا کے ہوتے ہیں‌کوئی نئی بات تھوڑی ہے۔

مزاحمتی شاعری کا علمبردار نہیں رہا ہم میں‌,‌افسوس
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں ایک آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی بات شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ کہ الحمرا میں ایک مشاعرہ تھا اور صدارت احمد فراز صاحب کر رہے تھے۔ جب انہیں مائک پر دعوت دی گئی تو پہلی بات انہوں نے جو کہی وہ یہ تھی۔ "یہاں پر ناہید قاسمی بھی بیٹھی ہیں۔ کہتے ہیں جب بڑے انتقال کر جائیں تو چھوٹوں کو بڑا بننا پڑتا ہے۔ اگر احمد ندیم قاسمی زندہ ہوتے تو آج اس مشاعرے کی صدارت وہ کر رہے ہوتے۔ وہ ہمارے بڑے تھے ان کے انتقال سے ہم چھوٹوں کو ان کی ذمہ داریاں نبھانی پڑ رہی ہیں" اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے سے عمر میں بڑے شاعروں کو شاعر بھی بڑا سمجھتے تھے۔ حالآنکہ میرے خیال میں احمد فراز، احمد ندیم قاسمی سے بڑے شاعر تھے۔
 

جیہ

لائبریرین
فراز کے متعلق "افتخار نسیم" نامی ان حضرت کا مضمون پڑھ کر بے اختیار ابنِ انشا کا لکھا ہوا مزاحیہ مضمون، جس میں انھوں نے فیض احمد فیض اور اپنے ادبی تعلقات کی من گھڑت داستان لکھی ہے، یاد آ گیا۔[/CENTER]

وہ تحریر میں نے یہاں پوسٹ کی تھی
 

مغزل

محفلین
فراز صاحب کے لنگوٹیے دوست ’’ معراج ‘‘ صاحب کراچی میں سکونت پزیر ہیں ( عمار میاں‌کے گھر کے پاس) ان سے بھی فراز کے حوالے معلومات ملتی رہتی ہیں ، فراز صاحب جب کراچی آتے تھے تو معراج صاحب کے ہاں ضرور حاضر ہوتے تھے۔ انشا اللہ وہ واقعات بھی یہاں پیش کیے جائیں گے ، ان دنوں معراج صاحب شدید علیل ہیں‌دعا کی درخواست ہے ۔
 

مغزل

محفلین
کراچی کے ایک مشاعرے میں ۔ ایک شاعر اجمل سراج ( جسارت سے وابستہ ہیں )۔
نے فراز صاحب سے ایک انتہائی بھونڈا سوال کیا (‌ویسے اس سوال کی بازگشت خاصی ہے) کہ فراز صاحب:
’’ کیا با ت ہے آپ ایک خاص دائرے ( ٹین ایج )عنفوان ِ شباب کے شاعر ہیں ‘‘ ۔۔ ؟؟
فراز صاحب نے جیسے کوئی تاثر بھی نہ ظاہر کیا اور سلیم کوثر صاحب سے مخاطب ہوکر کہا ۔
’’ میرے لیے یہ بات حیران کن ہے میری شاعری کا دائرہ دریافت کرلیا گیا ہے ، جبکہ میں خود کو کسی دائرے کا شاعر نہیں خیال کرتا ‘‘
 
Top