احمد فراز کی حسِ مزاح اور پچھتاوے
افتی نامہ۔۔۔۔از افتخار نسیم۔۔بشکریہ روزنامہ آج پشاور
احمد فراز کی پہلی برسی آئی اور چلی گئی‘ چند لوگوں نے اسے یاد کیا ،کشور ناہید ٹی وی پر اس کی بیوہ بن کر واویلا کرتی رہی، شبلی اور ان کا بیٹا ٹی وی پر اپنی پندرہ منٹ کی شہرت لے کر غائب ہو گئے۔ اشفاق احمد (کینیڈا) نے ایک انتہائی واہیات آرٹیکل لکھا۔اشفاق احمد کا کوئی قصور نہیں، وہ پچھلے تیس سال سے فیض صاحب اور جو بھی اس کے پاس کبھی ٹھہرا، اس نے یہی کچھ کیا ہے پھر اس پر کتاب لکھ کر اردو ادب میں شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
کراچی کے اہل ادب نے جو شکاگو میں یا اطراف میں رہتے تھے ،انہوں نے فراز صاحب کی خیریت پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بقول سعید خان( آسٹریلیا کے) ایم کیو ایم کا ایجنڈا تھا کہ فراز صاحب کو بالکل نہ پوچھا جائے کیونکہ انہوں نے جنرل مشرف کے خلاف بہت کچھ کہا ہے اور ایک شاعر نما شخص جو کیلیفورنیا میں شاعری کی این جی او چلاتا ہے ،اس کے مطابق کیونکہ فراز صاحب کراچی والوں کو شاعر ہی نہیں مانتے تھے، اس لئے ہم ان کیلئے کچھ نہیں کریں گے ۔پشاور کے ایک ڈاکٹر جو ہر وقت پشاور پشاور کرتے رہتے ہیں
انہوں نے ہسپتال میں ان کی خیریت تک پوچھنا گوارا نہیں کی، میں ہر روز فراز ہیلتھ بلیٹن ای میل کے ذریعے بھیجتا تھا مگر’’ زاویہ‘‘ رسالے کے ایڈیٹر ارشاد صدیقی نے’’ زاویہ‘‘ میں اپنے ایڈیٹوریل میں میرا نام تک نہیں لکھا ،ہر کوئی اپنے آپ کو فراز صاحب کے نام پر کیش کرتا رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ فراز صاحب کسی کو شاعر ہی نہیں سمجھتے تھے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ فراز صاحب کے مقابلے میں اس دور میں ایسا کوئی شاعر نہیں ہے جو ان کا مقابلہ کر سکے، آپ سیریس ادب میں حاسد ہو کر بھلے ان کا نام نہ لیں لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے
فراز جیسا شاعر اردو ادب کے اس دور میں کوئی نہیں، اگر آپ عوامی شہرت اور معاشروں کی داد کو بھی پیمانہ بنا لیں، فراز اس میں بھی سب شاعروں سے آگے تھے۔ کسی کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ فراز صاحب میں حس مزاح بہت زیادہ تھی، فقرے بازی میں وہ باکمال تھے ۔ کشور ناہید سے ان کا محبت /نفرت کا رشتہ تھا ،ایک دن ’’شام کے بعد مجھے کہنے لگے کشور ناہید کو کال کرو، میں نے کہا کشور ناہید تو اُردو ادب کی مدرٹریسا‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا ،اس میں ذرا تبدیلی کر لو، وہ ’’مدر ٹریسا ‘‘نہیں’ ’مدر حریصہ‘‘ ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’’افتی مجھے دو پچھتاوے ہیں
ایک یہ کہ ایک دوست کی بیوی لندن کی ایک محفل میں میرے پیچھے پڑی ہوئی تھی، میں نے دوست کی بیوی سمجھ کر اسے چھوڑ دیا۔ دوسرا پچھتاوا یہ ہے کہ میں نے کشور ناہید کے ساتھ۔۔۔۔۔! احمد فراز نے افتخار عارف کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی تھی ،حقیقت یہ ہے فراز صاحب کی بیماری کی اطلاع اور میرا فون نمبر اور ای میل سب کو افتخار عارف نے ہی دیا۔ شرافت کے یہ نمونے اور ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں۔ فراز صاحب واشنگٹن میں ڈاکٹروں کی ایک فنڈ ریزنگ میں بیٹھے ہوئے تھے ،عابدہ پروین گا رہی تھی، ایک بیہودہ سا ڈاکٹر کہتا ہے۔
یار گانے کیلئے بلانا تھا تو کسی خوبصورت عورت کو بلاتے، فراز صاحب نے ایسا پرمزاح جواب دے دیا کہ اس کی سٹی گم کردی۔ بات یہ ہے کہ فراز صاحب نے خود بھی کبھی پشاور کے شاعروں کو پروموٹ نہیں کیا بلکہ وہ انہیں کمتر سمجھتے تھے۔ پشاور تو کیا وہ تو تمام شعراء کو کمتر سمجھتے تھے، پشاور میں غلام محمد قاصر جیسا شاعر تھا ،جس کو خود پشاور نے بُری طرح اگنور کئے رکھا ،خاطر غزنوی کے مشہور مطلع کو تو انہوں نے ہمیشہ اپنا مطلع کہا،ایک دن میں نے کہا فراز صاحب آپ نے اتنے خوبصورت شہرت یافتہ شعر کہے ہیں ،ایک مطلع ہے ،کیا ہو جاتا ہے، جس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
پنجابی کے مشہور مزاحیہ شاعر عبیر ابوذری شاعری سنا رہے تھے، جس کا ایک شعر کچھ یوں تھا کہ پولیس کو چور کہیں تو کیا فائدہ، بعد میں بدن پر ٹکورکریں تو کیا فائدہ، فہمیدہ ریاض نے فراز صاحب سے پوچھا ،اس کا ترجمہ کیا ہے۔ فراز صاحب نے کہا ،اس کا ترجمہ نہیں، تجربہ ہو سکتا ہے۔ نیویارک کے مشہور شاعر مامون ایمن سفید اچکن شلوار اور ٹوپی پہن کر مشاعرے میں داخل ہوئے تو فراز صاحب نے کہا ،بچوں کے قائداعظم کو کس نے مشاعرے میں بلایا ہے۔ فراز صاحب کے ساتھ سات بجے کے بعد کی دوستی خطرناک ثابت نہیں ہو سکتی تھی۔
فراز صاحب جب شکاگو میں شدید بیمار ہو گئے، ان کے دوست ڈاکٹر نسیم خواجہ، ڈاکٹر مرتضیٰ آرائیں نے ان کی بہت خدمت کی۔ نیویارک میں ان کے میزبان ڈاکٹر شفیق خاص طور پر تشریف لائے اور میرے پاس ٹھہرے ،واشنگٹن سے ڈاکٹر عطیہ خان آئیں کیونکہ شکاگو میں ان کا فیملی نمائندہ اس وقت میں ہی تھا، شبلی کے آنے تک۔ مگر شبلی نے بھی کہا کہ میں ہی پریس اور سب سے بات کروں، ہسپتال میں ،میں نے شبلی سے کہا کہ وہ کوئی دیسی کھانا کھانا چاہتا ہے تو بتا دے۔
اس نے کہا کہ وہ ویجیٹرین ہے، میں نے حیران ہو کر اس سے کہا کہ شکل سے تو تم آدم خور لگتے ہو، فراز نہ تو بات کر سکتے تھے اور نہ ہی ہل سکتے تھے، بھارت اور پاکستان یورپ سے بے تحاشا ای میلیں اور فون آتے ہیں، کیلیفورنیا سے عینی اختر اور نیویارک سے صبیحہ صبا روز کالیں کرتی تھیں اور بہت محبت سے ان کے بارے میں پوچھتی تھیں ۔بقول حسن عباس رضا کے فراز ان کے بہت اچھے دوست تھے، میں اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ نیویارک میں دونوں سے کافی ملاقاتیں رہتی تھیں، اس نے بتایا کہ فراز صاحب نے ایک شعر لکھا۔’’کل رات ہم نے فضل تعالیٰ شراب پی‘‘۔بعد میں اس کو تبدیل کر دیا۔
کل رات ہم نے حد سے زیادہ شراب پی
ایک دن فراز صاحب اپنے ایک دوست کے گھر گئے، اس کے ملازم نے کہا، صاحب سیر سور کرنے گئے ہیں۔ فراز نے کہا ،اس کو درست کر لو۔’’ سور سیر کرنے گئے ہیں‘‘۔ میڈم نورجہاں سے فراز نے پوچھا ،میڈم آپ نے کتنے عشق کئے ہیں۔ میڈم نہ نہ کرتی رہیں، فراز نے کہا، میڈم نہ نہ کرتے ہوئے بھی آپ کے تیرہ عشق ہو گئے ہیں۔ فراز صاحب ایک انسان تھے، بشری کمزوریاں بھی تھیں، ان کے دوست بہت کم تھے
مداح بہت تھے اور مداح جیسا کوئی Fickle شخص نہیں ہوتا ۔فراز صاحب کو حاسد لگتا ہے ورثے میں ملے تھے ،کچھ انہوں نے خود بنا لئے تھے ،فراز نے کبھی کسی کی پرواہ نہیں کی تھی ،میں ان کا برخوردار تھا، خادم تھا لیکن میرے ساتھ ان کا سلوک دوستانہ تھا بلکہ کبھی کبھی بہت ہی دوستانہ ہو جانے کی حد تک ہو جاتا تھا مگر مجھے اپنی حدود کا علم تھا، وہ میرے ابا مرحوم کے دوست تھے، میں ان کی شاعری کا تو مداح تھا اور ان کی حسِ مزاح کا بہت مداح تھا ،وہ بھی شاید یہی خوبصورت رشتہ میرے ساتھ رکھتے تھے ،انہوں نے کئی بار پبلک میں میری شاعری کے مداح ہونے کا اعتراف کیا مگر میں نے ہمیشہ اسے ان کی عظمت جانا کیونکہ ’’کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا‘‘۔
احمد فراز جیسے شاعر اور انسان بہت کم پیدا ہوتے ہیں ،بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ شاید اس قابل نہیں رہا کہ ہم ان کی عظمت کا اعتراف کر سکیں۔
افتی نامہ۔۔۔۔از افتخار نسیم۔۔بشکریہ روزنامہ آج پشاور
احمد فراز کی پہلی برسی آئی اور چلی گئی‘ چند لوگوں نے اسے یاد کیا ،کشور ناہید ٹی وی پر اس کی بیوہ بن کر واویلا کرتی رہی، شبلی اور ان کا بیٹا ٹی وی پر اپنی پندرہ منٹ کی شہرت لے کر غائب ہو گئے۔ اشفاق احمد (کینیڈا) نے ایک انتہائی واہیات آرٹیکل لکھا۔اشفاق احمد کا کوئی قصور نہیں، وہ پچھلے تیس سال سے فیض صاحب اور جو بھی اس کے پاس کبھی ٹھہرا، اس نے یہی کچھ کیا ہے پھر اس پر کتاب لکھ کر اردو ادب میں شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
کراچی کے اہل ادب نے جو شکاگو میں یا اطراف میں رہتے تھے ،انہوں نے فراز صاحب کی خیریت پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بقول سعید خان( آسٹریلیا کے) ایم کیو ایم کا ایجنڈا تھا کہ فراز صاحب کو بالکل نہ پوچھا جائے کیونکہ انہوں نے جنرل مشرف کے خلاف بہت کچھ کہا ہے اور ایک شاعر نما شخص جو کیلیفورنیا میں شاعری کی این جی او چلاتا ہے ،اس کے مطابق کیونکہ فراز صاحب کراچی والوں کو شاعر ہی نہیں مانتے تھے، اس لئے ہم ان کیلئے کچھ نہیں کریں گے ۔پشاور کے ایک ڈاکٹر جو ہر وقت پشاور پشاور کرتے رہتے ہیں
انہوں نے ہسپتال میں ان کی خیریت تک پوچھنا گوارا نہیں کی، میں ہر روز فراز ہیلتھ بلیٹن ای میل کے ذریعے بھیجتا تھا مگر’’ زاویہ‘‘ رسالے کے ایڈیٹر ارشاد صدیقی نے’’ زاویہ‘‘ میں اپنے ایڈیٹوریل میں میرا نام تک نہیں لکھا ،ہر کوئی اپنے آپ کو فراز صاحب کے نام پر کیش کرتا رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ فراز صاحب کسی کو شاعر ہی نہیں سمجھتے تھے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ فراز صاحب کے مقابلے میں اس دور میں ایسا کوئی شاعر نہیں ہے جو ان کا مقابلہ کر سکے، آپ سیریس ادب میں حاسد ہو کر بھلے ان کا نام نہ لیں لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے
فراز جیسا شاعر اردو ادب کے اس دور میں کوئی نہیں، اگر آپ عوامی شہرت اور معاشروں کی داد کو بھی پیمانہ بنا لیں، فراز اس میں بھی سب شاعروں سے آگے تھے۔ کسی کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ فراز صاحب میں حس مزاح بہت زیادہ تھی، فقرے بازی میں وہ باکمال تھے ۔ کشور ناہید سے ان کا محبت /نفرت کا رشتہ تھا ،ایک دن ’’شام کے بعد مجھے کہنے لگے کشور ناہید کو کال کرو، میں نے کہا کشور ناہید تو اُردو ادب کی مدرٹریسا‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا ،اس میں ذرا تبدیلی کر لو، وہ ’’مدر ٹریسا ‘‘نہیں’ ’مدر حریصہ‘‘ ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’’افتی مجھے دو پچھتاوے ہیں
ایک یہ کہ ایک دوست کی بیوی لندن کی ایک محفل میں میرے پیچھے پڑی ہوئی تھی، میں نے دوست کی بیوی سمجھ کر اسے چھوڑ دیا۔ دوسرا پچھتاوا یہ ہے کہ میں نے کشور ناہید کے ساتھ۔۔۔۔۔! احمد فراز نے افتخار عارف کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی تھی ،حقیقت یہ ہے فراز صاحب کی بیماری کی اطلاع اور میرا فون نمبر اور ای میل سب کو افتخار عارف نے ہی دیا۔ شرافت کے یہ نمونے اور ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں۔ فراز صاحب واشنگٹن میں ڈاکٹروں کی ایک فنڈ ریزنگ میں بیٹھے ہوئے تھے ،عابدہ پروین گا رہی تھی، ایک بیہودہ سا ڈاکٹر کہتا ہے۔
یار گانے کیلئے بلانا تھا تو کسی خوبصورت عورت کو بلاتے، فراز صاحب نے ایسا پرمزاح جواب دے دیا کہ اس کی سٹی گم کردی۔ بات یہ ہے کہ فراز صاحب نے خود بھی کبھی پشاور کے شاعروں کو پروموٹ نہیں کیا بلکہ وہ انہیں کمتر سمجھتے تھے۔ پشاور تو کیا وہ تو تمام شعراء کو کمتر سمجھتے تھے، پشاور میں غلام محمد قاصر جیسا شاعر تھا ،جس کو خود پشاور نے بُری طرح اگنور کئے رکھا ،خاطر غزنوی کے مشہور مطلع کو تو انہوں نے ہمیشہ اپنا مطلع کہا،ایک دن میں نے کہا فراز صاحب آپ نے اتنے خوبصورت شہرت یافتہ شعر کہے ہیں ،ایک مطلع ہے ،کیا ہو جاتا ہے، جس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
پنجابی کے مشہور مزاحیہ شاعر عبیر ابوذری شاعری سنا رہے تھے، جس کا ایک شعر کچھ یوں تھا کہ پولیس کو چور کہیں تو کیا فائدہ، بعد میں بدن پر ٹکورکریں تو کیا فائدہ، فہمیدہ ریاض نے فراز صاحب سے پوچھا ،اس کا ترجمہ کیا ہے۔ فراز صاحب نے کہا ،اس کا ترجمہ نہیں، تجربہ ہو سکتا ہے۔ نیویارک کے مشہور شاعر مامون ایمن سفید اچکن شلوار اور ٹوپی پہن کر مشاعرے میں داخل ہوئے تو فراز صاحب نے کہا ،بچوں کے قائداعظم کو کس نے مشاعرے میں بلایا ہے۔ فراز صاحب کے ساتھ سات بجے کے بعد کی دوستی خطرناک ثابت نہیں ہو سکتی تھی۔
فراز صاحب جب شکاگو میں شدید بیمار ہو گئے، ان کے دوست ڈاکٹر نسیم خواجہ، ڈاکٹر مرتضیٰ آرائیں نے ان کی بہت خدمت کی۔ نیویارک میں ان کے میزبان ڈاکٹر شفیق خاص طور پر تشریف لائے اور میرے پاس ٹھہرے ،واشنگٹن سے ڈاکٹر عطیہ خان آئیں کیونکہ شکاگو میں ان کا فیملی نمائندہ اس وقت میں ہی تھا، شبلی کے آنے تک۔ مگر شبلی نے بھی کہا کہ میں ہی پریس اور سب سے بات کروں، ہسپتال میں ،میں نے شبلی سے کہا کہ وہ کوئی دیسی کھانا کھانا چاہتا ہے تو بتا دے۔
اس نے کہا کہ وہ ویجیٹرین ہے، میں نے حیران ہو کر اس سے کہا کہ شکل سے تو تم آدم خور لگتے ہو، فراز نہ تو بات کر سکتے تھے اور نہ ہی ہل سکتے تھے، بھارت اور پاکستان یورپ سے بے تحاشا ای میلیں اور فون آتے ہیں، کیلیفورنیا سے عینی اختر اور نیویارک سے صبیحہ صبا روز کالیں کرتی تھیں اور بہت محبت سے ان کے بارے میں پوچھتی تھیں ۔بقول حسن عباس رضا کے فراز ان کے بہت اچھے دوست تھے، میں اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ نیویارک میں دونوں سے کافی ملاقاتیں رہتی تھیں، اس نے بتایا کہ فراز صاحب نے ایک شعر لکھا۔’’کل رات ہم نے فضل تعالیٰ شراب پی‘‘۔بعد میں اس کو تبدیل کر دیا۔
کل رات ہم نے حد سے زیادہ شراب پی
ایک دن فراز صاحب اپنے ایک دوست کے گھر گئے، اس کے ملازم نے کہا، صاحب سیر سور کرنے گئے ہیں۔ فراز نے کہا ،اس کو درست کر لو۔’’ سور سیر کرنے گئے ہیں‘‘۔ میڈم نورجہاں سے فراز نے پوچھا ،میڈم آپ نے کتنے عشق کئے ہیں۔ میڈم نہ نہ کرتی رہیں، فراز نے کہا، میڈم نہ نہ کرتے ہوئے بھی آپ کے تیرہ عشق ہو گئے ہیں۔ فراز صاحب ایک انسان تھے، بشری کمزوریاں بھی تھیں، ان کے دوست بہت کم تھے
مداح بہت تھے اور مداح جیسا کوئی Fickle شخص نہیں ہوتا ۔فراز صاحب کو حاسد لگتا ہے ورثے میں ملے تھے ،کچھ انہوں نے خود بنا لئے تھے ،فراز نے کبھی کسی کی پرواہ نہیں کی تھی ،میں ان کا برخوردار تھا، خادم تھا لیکن میرے ساتھ ان کا سلوک دوستانہ تھا بلکہ کبھی کبھی بہت ہی دوستانہ ہو جانے کی حد تک ہو جاتا تھا مگر مجھے اپنی حدود کا علم تھا، وہ میرے ابا مرحوم کے دوست تھے، میں ان کی شاعری کا تو مداح تھا اور ان کی حسِ مزاح کا بہت مداح تھا ،وہ بھی شاید یہی خوبصورت رشتہ میرے ساتھ رکھتے تھے ،انہوں نے کئی بار پبلک میں میری شاعری کے مداح ہونے کا اعتراف کیا مگر میں نے ہمیشہ اسے ان کی عظمت جانا کیونکہ ’’کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا‘‘۔
احمد فراز جیسے شاعر اور انسان بہت کم پیدا ہوتے ہیں ،بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ شاید اس قابل نہیں رہا کہ ہم ان کی عظمت کا اعتراف کر سکیں۔