محمد خرم یاسین
محفلین
احوال ایک جائے مطالعہ کا.....!
صاحبو! یہ دنیائے رنگ و بو اب مائل بے رنگی وبدبو ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا یہ مشاہدہ ہماری عمر کی بڑھوتری یا شادی شدہ زندگی کی سختیوں ، تلخیوں سے مشروط نہیں، نا ہی ہم اس مشاہدے سے دل کے پھپھولے پھوڑنا چاہتے ہیں؛ ہم تو ذکر کر رہے ہیں کچھ مبنی بر حقائق واقعات کا جو آئے روز گرد و پیش سے پیش آتے رہتے ہیں۔یہ بھی درست کہ عمر سرکنے سے کئی زعم خوامخواہ پلنے لگتے ہیں جیسے جو بھی چھوٹے ہیں وہ سب کم عقل ہیں یا کم از کم ہم سے کم ہی ہیں خواہ معاملہ کوئی بھی ہو اور بعض اوقات یہ بھی ہوجاتا ہے کہ حساسیت بد دماغی کا روپ لینا شروع کردیتی ہے جیسے آبِ حیات میں مولانا محمد حسین آزاد جنابِ حضرتِ میرتقی میر کو ”بددماغ شاعر“ قراردیتے ہیںاور پھر” تحقیق چھوڑ میدان میں آ مسلک بچا“کانعرہ لگا کر ان کی حمایت میں جنابِ مسعود رضوی اپنا سارا زور مولانا صاحب کے بیان کی صداقت ثابت کرنے پر لگا دیتے ہیں۔پھر بھی ہم تو یہی کہیں گے کہ جیسے نصیب اپنا اپنا ویسے ہی مزاج اپنا اپنا ورنہ غالب مرحوم نے بھی کم برا وقت نہیں دیکھا تھا لیکن وہ چھوڑ چھاڑ ساری معاشرت و گھر گرہستی سارا شراب خانہ گھر ہی میںاٹھا لائے تھے کہ خدا نے روٹی کا وعدہ کیا ہے شراب کا نہیں۔۔۔اسی لیے شاید ہمارے بیچارے حضرتِ اقبال سارا زور اسی بات پر لگاتے رہے کہ صاحبو محنت نہیں کرو گے تو وہی تقدیر تمہارا مقدر ہے جو تم رب سے چاہتے ہوورنہ وہ لے لو جوتم چاہتے ہو۔۔۔نہ سمجھ آئے تو اسے بھی اقبال کا فرمان سمجھ کر نظر انداز کر دیجیے یا پھر کسی محفل میں اپنی بڑائی جتانے کے لیے فٹ سے سنا دیجیے ، کچھ نہ کچھ ہم جیسے صاحبان سر ضرور ہلادیں گے جیسے وہ بہت سمجھ گئے ہوںیا پھر بالکل ہی سمجھ گئے ہوں۔خیر! چھوڑیے، بلکہ آپ کیوں چھوڑیں، ہم چھوڑتے ہیں اور اپنے بیان میں ترمیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس جہانِ رنگ و بو میں ابھی ایسے صاحبان بھی موجود ہیں جو حقیقتاً اس رنگ و بو کو اپنے اندر اس خوبصورتی سے سمیٹے ہوئے ہیں کہ بذاتِ خود گلاب ہی نہیں شجرِ گلاب دکھائی دیتے ہیں۔ایسے خوشنمااور خوش رنگ پھول جن کی خوشبو ہر طرف پھیلی محسوس ہوتی ہے اور دکھائی بھی نہیں دیتی ۔اس کا واحد سبب ان میں موجود انسانیت کا وہ مادہ ہے جو عہدِ موجود میں عہدِ گزشتہ سے پلتا اور پنپتا آرہا ہے اور اس کا اظہار ان کی زندگی کے ہرگوشہ بخوبی کر رہا ہوتا ہے ۔زیادہ دور کیا جانا، چلئے میں اپنے عنوان سے انصاف کرتے ہوئے آپ کو ان صاحبان میں سے ایک سے ملوائے دیتا ہوںجودر حقیقت اس جائے مطالعہ کی اصل خوبصورتی ہے کہ اب کتابوں سے ہمارا تعلق محض تحقیق و تنقید تک ہی محدود رہ گیا ہے ، کوئی بھی کتاب ہاتھ لگے دماغ میں تحقیق کا کیڑا رینگنے لگتا ہے ، کبھی کبھار اڑنے لگتا ہے اور کبھی کبھار کچوکے لگاتا ہے، ستاتا ہے اور رات بھر جگاتا ہے۔ احباب ِ ذی وقاردماغ کی خشکی دورکرنے کے لیے غیر سند یافتہ نسخہ بصورت زائد استعمال خمیرہ گاو¿زبان، دیسی گھی اور بادام دے کر علمیت جھاڑ دیتے ہیںاور ہم سر ہلا کر ان کا حوصلہ بڑھا دیتے ہیں۔خیر چھوڑیئے! چلیے جائے مطالعہ کی جانب چلتے ہیں۔یہ جائے مطالعہ ہے ایک ایسے سکول کا کتب خانہ جہاں ہزاروں طالبانِ علم سیرابیِ علم کے بعد زندگیاں اوڑھے نہ جانے کہاں سے کہاں تک پہنچ چکے ہیں اور ہم ابھی تک یہیں پھنسے زندگی کاٹ رہے ہیں ۔پھنسنے کا یہ عمومی تصور ہمارے پردہ دماغ پر ان صاحبانِ اقتدار کے اذہان سے اڑتے دھویں کی صورت ہم تک پہنچا ہے جو اپنے تئیں بڑے عہدے کے زعم میں مبتلا چھوٹے عہدوں پر فائز” بیچاروں “کو کیڑے مکوڑوں کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ ابھی چند روز قبل بھی ایک صاحبِ اقتدار کو سکول اساتذہ کی برائی محض ان کے کم تر عہدوں کی وجہ سے اس حقارت کے انداز میں کرتے سنا کہ شدید گمان یہی ہونے لگا کہ عالی جناب ماں کے پیٹ سے براہِ راست جامعہ تک پہنچے اور اس عہدے پر فائض ہوگئے ہوں گے ورنہ اپنے اساتذہ اور اپنی عزت کا کچھ تو بھرم رکھتے۔دیکھا ، ہمارا لہجہ ترش ہونے لگا ناں۔۔۔اپنے موضوع سے بھٹکنے کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوتا ہے۔اب ہمیں لکھنے کا ڈھب توآتا نہیں تو برداشت تو آپ کو ہی کرنا پڑے گا ناں؟ چلیے ہمیں منتخب شدہ سیاستدان سمجھ لیجیے محض کچھ دیر کے لیے۔
تو صاحبو! اس جائے مطالعہ کا وقوعہ غلام محمد آباد فیصل آباد کے نیو ماڈل ہائی سکول ہے۔ یہ جائے مطالعہ در اصل ایک کتب خانہ ہے۔کتابوں سے لدھا پھندا ایسا کتب خانہ جس میں ایک طرف اسلامیات کا حسن بکھرا ہے، ایک طرف غالبیات ہے اور دوسری طرف اقبالیات جب کہ ایک گوشہ ایسا بھی ہے جسے کوچہ مقبولیت کا خطاب ہمارے ایک عزیز از جاں دوست طاہر عزیز صاحب نے عطا کیا ہے ،اور یہ بھی کہ شاید یہ واحد کتب خانہ ہے جہاں باقاعدہ دن مقرر کرکے بچوں کو کتابیں مہیا کی جاتی ہیں، انھیں پڑھنے کے لیے تحریک دی جاتی ہے اور اگر کوئی بچہ کسی اور روز کتاب کا خواہشمند ہوتو اس پر پہلے سے زیادہ شفقت کی جاتی ہے ۔یہ کوچہ مقبولیت کیا ہے، ہم اس کی وضاحت کیے دیتے ہیں۔ ہم نے تو کئی بار سنا ہے آپ نے بھی یقیناسناہوگا کہ پھول تقسیم کرنے والے کے ہاتھ ہمیشہ مہکتے رہتے ہیں۔۔۔۔یقین کیجیے ہم نے عملی طورپر دیکھا بھی ہے ،ایک اےسے صاحب کو جو فردِ واحد ہیں اور واقعی فردِ واحد ہی ہیں کہ ان کا متبادل اور کوئی نہیں۔بہرحال خیال ضرور آتا ہے کہ وہ فردِ واحد کیوں ہیں ان جیسے اور کیوں نہیں ؟ ہم ان جیسے کیوں نہیں ؟ کہ ان کے ہاتھوں کی خوشبو علم و ادب کی تقسیم تک محدود نہیں، اصل منبع تو ان کا وہ روشن دماغ ہے جو انھیں حضرتِ اقبال سے بے پناہ محبت کے سبب ہر وقت معطر کرتا ہے ۔ عاجزی کا ایسا پیکر کہ آپ کو ان کے سامنے اپنا قد ہمیشہ زمین بوس محسوس ہوگااور یہ کیفیت ملاقات کے دورانیہ کی طوالت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی جائے گی۔آپ کھڑے سوچ رہے ہوں گے کہ وہ آپ کے لیے اپنے بزرگ جُسّے سمیت کرسی لیے آن کھڑے ہوںگے، آپ کے لیے پانی، چائے، روٹی، روپیہ پیسہ، دل و جان اور سب سے بڑھ کر اپنا وقت قربان کرتے وقت ایک لمحے کے لیے بھی توقف نہیں کریں گے اور بدلے میں آپ کی ایک مسکراہٹ انھیں ایسی سرشاری سے ہمکنار کرے گی جس کی جھلک ان کے چہرے پر بڑھتی روحانیت کی صورت میں محسوس ہوگی ۔جنابِ من دوستوں کے دوست ہی نہیںہر ایک کے دوست ہیں کہ دشمن تو ان کے ہو ہی نہیں سکتے۔دوستوں کے دوست کا محاورہ ان کے لیے اس لیے بھی مناسب ہے کہ صنفِ نازک نہیں ورنہ یاروں کے یار کہتے ڈر نہ لگتا۔ ”میںتیرا نام نا لوں پھر بھی لوگ پہچانیں“ کے مصداق ہم اعلیٰ حضرت کا نام تو نہیں لینا چاہتے لیکن کیا کریں کہ وہ لوگ جو ان سے متعارف نہیں ان کے لیے اس جائے مطالعہ کے مالک وخادم کا نام لینا مجبوری بن گیا ہے ۔ تو ہم یہ سارا ٹوٹا پھوٹا بیان دے رہے ہیں جنابِ حضرتِ مقبول کے بارے میں جن کے بارے میں کچھ کہنا ہمارے بس کی بات نہیں کہ پر جلنے والا معاملہ درپیش ہے اور ہمیں یہ شدید خوف بھی لاحق ہے کہ حضرت نے اپنے بارے میں ہمارا یہ بیان پڑھ لیا تو کہیں ہمیں ان کی مزید عاجزی کا مظاہرہ نہ دیکھنا پڑے کہ اس سے ہر بار ہم یہی سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ہم ان جیسے کیوں نہیں،اس لیے ہم ان کے بارے میں مزید کچھ تحریر کرنے سے پرہیز کرنا چاہیں گے کہ یہ کم از کم علاج سے تو بہتر ہے۔بہر حال یہ بتاتے چلیں کہ علم و ادب کو اگر معیار بنایاجائے اور جامعات کے دورانیے اور اس دوران خرچی فیس کی رسیدیں درمیان میں سے نکال دی جائیں تو حضرت کو ڈاکٹر مقبول کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ان کا چلنا ادب، بیٹھنا اٹھناادب،بولنا ادب، سوچنا ادب اور ادب ہی ادب ہے۔فقرے اتنے چست و جاندارکہ ایک بار سننے کے بعد دو بار سوچنا پڑے یا پھر بنا سوچنے کی زحمت کے چہرے پر ہنسی بکھر جائے۔ لباس ایسا کہ معلوم ہو کوئی صاحبِ عقل و دانش ہے اور انداز ایسا کہ دل موہ لے۔صاحبو! میں حضرت کے بارے میں ایک مکمل خاکہ تحریر کرنا چاہتا ہوں لیکن چونکہ تذکرہ جائے مطالعہ کا ہے اور اس دوران ذکر آپ جناب کا آ نکلا ہے تو سوچا اسے سپردِ قلم کردوں کہ ابھی اس جائے مطالعہ میں ایسے بہت سے احباب باقی ہیں جن کے ذکر کے بنا جائے مطالعہ۔۔۔۔حقیقتاً جائے مطالعہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
صاحبو! یہ دنیائے رنگ و بو اب مائل بے رنگی وبدبو ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا یہ مشاہدہ ہماری عمر کی بڑھوتری یا شادی شدہ زندگی کی سختیوں ، تلخیوں سے مشروط نہیں، نا ہی ہم اس مشاہدے سے دل کے پھپھولے پھوڑنا چاہتے ہیں؛ ہم تو ذکر کر رہے ہیں کچھ مبنی بر حقائق واقعات کا جو آئے روز گرد و پیش سے پیش آتے رہتے ہیں۔یہ بھی درست کہ عمر سرکنے سے کئی زعم خوامخواہ پلنے لگتے ہیں جیسے جو بھی چھوٹے ہیں وہ سب کم عقل ہیں یا کم از کم ہم سے کم ہی ہیں خواہ معاملہ کوئی بھی ہو اور بعض اوقات یہ بھی ہوجاتا ہے کہ حساسیت بد دماغی کا روپ لینا شروع کردیتی ہے جیسے آبِ حیات میں مولانا محمد حسین آزاد جنابِ حضرتِ میرتقی میر کو ”بددماغ شاعر“ قراردیتے ہیںاور پھر” تحقیق چھوڑ میدان میں آ مسلک بچا“کانعرہ لگا کر ان کی حمایت میں جنابِ مسعود رضوی اپنا سارا زور مولانا صاحب کے بیان کی صداقت ثابت کرنے پر لگا دیتے ہیں۔پھر بھی ہم تو یہی کہیں گے کہ جیسے نصیب اپنا اپنا ویسے ہی مزاج اپنا اپنا ورنہ غالب مرحوم نے بھی کم برا وقت نہیں دیکھا تھا لیکن وہ چھوڑ چھاڑ ساری معاشرت و گھر گرہستی سارا شراب خانہ گھر ہی میںاٹھا لائے تھے کہ خدا نے روٹی کا وعدہ کیا ہے شراب کا نہیں۔۔۔اسی لیے شاید ہمارے بیچارے حضرتِ اقبال سارا زور اسی بات پر لگاتے رہے کہ صاحبو محنت نہیں کرو گے تو وہی تقدیر تمہارا مقدر ہے جو تم رب سے چاہتے ہوورنہ وہ لے لو جوتم چاہتے ہو۔۔۔نہ سمجھ آئے تو اسے بھی اقبال کا فرمان سمجھ کر نظر انداز کر دیجیے یا پھر کسی محفل میں اپنی بڑائی جتانے کے لیے فٹ سے سنا دیجیے ، کچھ نہ کچھ ہم جیسے صاحبان سر ضرور ہلادیں گے جیسے وہ بہت سمجھ گئے ہوںیا پھر بالکل ہی سمجھ گئے ہوں۔خیر! چھوڑیے، بلکہ آپ کیوں چھوڑیں، ہم چھوڑتے ہیں اور اپنے بیان میں ترمیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس جہانِ رنگ و بو میں ابھی ایسے صاحبان بھی موجود ہیں جو حقیقتاً اس رنگ و بو کو اپنے اندر اس خوبصورتی سے سمیٹے ہوئے ہیں کہ بذاتِ خود گلاب ہی نہیں شجرِ گلاب دکھائی دیتے ہیں۔ایسے خوشنمااور خوش رنگ پھول جن کی خوشبو ہر طرف پھیلی محسوس ہوتی ہے اور دکھائی بھی نہیں دیتی ۔اس کا واحد سبب ان میں موجود انسانیت کا وہ مادہ ہے جو عہدِ موجود میں عہدِ گزشتہ سے پلتا اور پنپتا آرہا ہے اور اس کا اظہار ان کی زندگی کے ہرگوشہ بخوبی کر رہا ہوتا ہے ۔زیادہ دور کیا جانا، چلئے میں اپنے عنوان سے انصاف کرتے ہوئے آپ کو ان صاحبان میں سے ایک سے ملوائے دیتا ہوںجودر حقیقت اس جائے مطالعہ کی اصل خوبصورتی ہے کہ اب کتابوں سے ہمارا تعلق محض تحقیق و تنقید تک ہی محدود رہ گیا ہے ، کوئی بھی کتاب ہاتھ لگے دماغ میں تحقیق کا کیڑا رینگنے لگتا ہے ، کبھی کبھار اڑنے لگتا ہے اور کبھی کبھار کچوکے لگاتا ہے، ستاتا ہے اور رات بھر جگاتا ہے۔ احباب ِ ذی وقاردماغ کی خشکی دورکرنے کے لیے غیر سند یافتہ نسخہ بصورت زائد استعمال خمیرہ گاو¿زبان، دیسی گھی اور بادام دے کر علمیت جھاڑ دیتے ہیںاور ہم سر ہلا کر ان کا حوصلہ بڑھا دیتے ہیں۔خیر چھوڑیئے! چلیے جائے مطالعہ کی جانب چلتے ہیں۔یہ جائے مطالعہ ہے ایک ایسے سکول کا کتب خانہ جہاں ہزاروں طالبانِ علم سیرابیِ علم کے بعد زندگیاں اوڑھے نہ جانے کہاں سے کہاں تک پہنچ چکے ہیں اور ہم ابھی تک یہیں پھنسے زندگی کاٹ رہے ہیں ۔پھنسنے کا یہ عمومی تصور ہمارے پردہ دماغ پر ان صاحبانِ اقتدار کے اذہان سے اڑتے دھویں کی صورت ہم تک پہنچا ہے جو اپنے تئیں بڑے عہدے کے زعم میں مبتلا چھوٹے عہدوں پر فائز” بیچاروں “کو کیڑے مکوڑوں کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ ابھی چند روز قبل بھی ایک صاحبِ اقتدار کو سکول اساتذہ کی برائی محض ان کے کم تر عہدوں کی وجہ سے اس حقارت کے انداز میں کرتے سنا کہ شدید گمان یہی ہونے لگا کہ عالی جناب ماں کے پیٹ سے براہِ راست جامعہ تک پہنچے اور اس عہدے پر فائض ہوگئے ہوں گے ورنہ اپنے اساتذہ اور اپنی عزت کا کچھ تو بھرم رکھتے۔دیکھا ، ہمارا لہجہ ترش ہونے لگا ناں۔۔۔اپنے موضوع سے بھٹکنے کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوتا ہے۔اب ہمیں لکھنے کا ڈھب توآتا نہیں تو برداشت تو آپ کو ہی کرنا پڑے گا ناں؟ چلیے ہمیں منتخب شدہ سیاستدان سمجھ لیجیے محض کچھ دیر کے لیے۔
تو صاحبو! اس جائے مطالعہ کا وقوعہ غلام محمد آباد فیصل آباد کے نیو ماڈل ہائی سکول ہے۔ یہ جائے مطالعہ در اصل ایک کتب خانہ ہے۔کتابوں سے لدھا پھندا ایسا کتب خانہ جس میں ایک طرف اسلامیات کا حسن بکھرا ہے، ایک طرف غالبیات ہے اور دوسری طرف اقبالیات جب کہ ایک گوشہ ایسا بھی ہے جسے کوچہ مقبولیت کا خطاب ہمارے ایک عزیز از جاں دوست طاہر عزیز صاحب نے عطا کیا ہے ،اور یہ بھی کہ شاید یہ واحد کتب خانہ ہے جہاں باقاعدہ دن مقرر کرکے بچوں کو کتابیں مہیا کی جاتی ہیں، انھیں پڑھنے کے لیے تحریک دی جاتی ہے اور اگر کوئی بچہ کسی اور روز کتاب کا خواہشمند ہوتو اس پر پہلے سے زیادہ شفقت کی جاتی ہے ۔یہ کوچہ مقبولیت کیا ہے، ہم اس کی وضاحت کیے دیتے ہیں۔ ہم نے تو کئی بار سنا ہے آپ نے بھی یقیناسناہوگا کہ پھول تقسیم کرنے والے کے ہاتھ ہمیشہ مہکتے رہتے ہیں۔۔۔۔یقین کیجیے ہم نے عملی طورپر دیکھا بھی ہے ،ایک اےسے صاحب کو جو فردِ واحد ہیں اور واقعی فردِ واحد ہی ہیں کہ ان کا متبادل اور کوئی نہیں۔بہرحال خیال ضرور آتا ہے کہ وہ فردِ واحد کیوں ہیں ان جیسے اور کیوں نہیں ؟ ہم ان جیسے کیوں نہیں ؟ کہ ان کے ہاتھوں کی خوشبو علم و ادب کی تقسیم تک محدود نہیں، اصل منبع تو ان کا وہ روشن دماغ ہے جو انھیں حضرتِ اقبال سے بے پناہ محبت کے سبب ہر وقت معطر کرتا ہے ۔ عاجزی کا ایسا پیکر کہ آپ کو ان کے سامنے اپنا قد ہمیشہ زمین بوس محسوس ہوگااور یہ کیفیت ملاقات کے دورانیہ کی طوالت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی جائے گی۔آپ کھڑے سوچ رہے ہوں گے کہ وہ آپ کے لیے اپنے بزرگ جُسّے سمیت کرسی لیے آن کھڑے ہوںگے، آپ کے لیے پانی، چائے، روٹی، روپیہ پیسہ، دل و جان اور سب سے بڑھ کر اپنا وقت قربان کرتے وقت ایک لمحے کے لیے بھی توقف نہیں کریں گے اور بدلے میں آپ کی ایک مسکراہٹ انھیں ایسی سرشاری سے ہمکنار کرے گی جس کی جھلک ان کے چہرے پر بڑھتی روحانیت کی صورت میں محسوس ہوگی ۔جنابِ من دوستوں کے دوست ہی نہیںہر ایک کے دوست ہیں کہ دشمن تو ان کے ہو ہی نہیں سکتے۔دوستوں کے دوست کا محاورہ ان کے لیے اس لیے بھی مناسب ہے کہ صنفِ نازک نہیں ورنہ یاروں کے یار کہتے ڈر نہ لگتا۔ ”میںتیرا نام نا لوں پھر بھی لوگ پہچانیں“ کے مصداق ہم اعلیٰ حضرت کا نام تو نہیں لینا چاہتے لیکن کیا کریں کہ وہ لوگ جو ان سے متعارف نہیں ان کے لیے اس جائے مطالعہ کے مالک وخادم کا نام لینا مجبوری بن گیا ہے ۔ تو ہم یہ سارا ٹوٹا پھوٹا بیان دے رہے ہیں جنابِ حضرتِ مقبول کے بارے میں جن کے بارے میں کچھ کہنا ہمارے بس کی بات نہیں کہ پر جلنے والا معاملہ درپیش ہے اور ہمیں یہ شدید خوف بھی لاحق ہے کہ حضرت نے اپنے بارے میں ہمارا یہ بیان پڑھ لیا تو کہیں ہمیں ان کی مزید عاجزی کا مظاہرہ نہ دیکھنا پڑے کہ اس سے ہر بار ہم یہی سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ہم ان جیسے کیوں نہیں،اس لیے ہم ان کے بارے میں مزید کچھ تحریر کرنے سے پرہیز کرنا چاہیں گے کہ یہ کم از کم علاج سے تو بہتر ہے۔بہر حال یہ بتاتے چلیں کہ علم و ادب کو اگر معیار بنایاجائے اور جامعات کے دورانیے اور اس دوران خرچی فیس کی رسیدیں درمیان میں سے نکال دی جائیں تو حضرت کو ڈاکٹر مقبول کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ان کا چلنا ادب، بیٹھنا اٹھناادب،بولنا ادب، سوچنا ادب اور ادب ہی ادب ہے۔فقرے اتنے چست و جاندارکہ ایک بار سننے کے بعد دو بار سوچنا پڑے یا پھر بنا سوچنے کی زحمت کے چہرے پر ہنسی بکھر جائے۔ لباس ایسا کہ معلوم ہو کوئی صاحبِ عقل و دانش ہے اور انداز ایسا کہ دل موہ لے۔صاحبو! میں حضرت کے بارے میں ایک مکمل خاکہ تحریر کرنا چاہتا ہوں لیکن چونکہ تذکرہ جائے مطالعہ کا ہے اور اس دوران ذکر آپ جناب کا آ نکلا ہے تو سوچا اسے سپردِ قلم کردوں کہ ابھی اس جائے مطالعہ میں ایسے بہت سے احباب باقی ہیں جن کے ذکر کے بنا جائے مطالعہ۔۔۔۔حقیقتاً جائے مطالعہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
آخری تدوین: